قرآن حکیم میں بنی اسرائیل کو مخاطب کرتے ہوئے اللہ تعالی فرماتا ہے:”پھر ذرا یاد کرو، ہم نے تم سے مضبوط عہد لیا تھا کہ آپس میں ایک دوسرے کا خون نہ بہانہ اور نہ ایک دوسرے کو گھر سے بے گھر کرنا۔تم نے اس کا اقرار کیا تھا، تم خود اس پر گواہ ہو۔مگرآج وہی تم ہو کہ اپنے بھائی بندوں کو قتل کرتے ہو، اپنی برادری کے کچھ لوگوں کو بے خانماں کردیتے ہو،ظلم و زیادتی کے ساتھ ان کے خلاف جتھے بندیاں کرتے ہو، اور جب وہ لڑائی میں پٹے ہوئے تمہارے پاس آتے ہیں،تو ان کی رہائی کے لیے فدیہ کا لین دین کرتے ہو، حالانکہ انہیں ان کے گھروں سے نکالنا ہی سرے سے تم پر حرام تھا، تو کیا تم کتاب کے ایک حصے پر ایمان لاتے ہو اور دوسرے حصے کے ساتھ کفر کرتے ہو؟
پھر تم میں سے جو لوگ ایسا کریں، ان کی سزا اس کے سوا اور کیا ہے کہ دنیا کی زندگی میں ذلیل و خوار ہوکر رہیں اور آخرت میں شدید ترین عذاب کی طرف پھیر دیے جائیں؟اللہ ان حرکات سے بے خبر نہیں ہے ، جو تم کررہے ہو۔۔۔۔۔۔ یہ وہ لوگ ہیں ،جنہوں نے آخرت بیچ کر دنیا کی زندگی خرید لی ہے، لہذا نہ ان کی سزا میں کوئی تخفیف ہوگی ،اور نہ انہیں کوئی مدد پہنچ سکے گی”(البقرہ:٨٢-٨٤)۔یہ وہ قرآنی تعلیمات ہیں جو بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بنی اسرائیل کو مخاطب کرتے ہوئے بیان کی گئی ہیں۔نیز یہ واقع ہے کہ بنی اسرائیل ہر زمانے میں اللہ سے کیے گئے وعدوں کی خلاف ورزی کرتے رہے۔
یہاں تک کہ آج بھی وہ اپنی سابقہ روش پر برقرار ہیں۔جس کے تازہ واقعات مظلوم فلسطینیوں پر کیے جا رہے مظالم کی شکل میں ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔پس ہلاکت و تباہی ہے ایسے نافرمان لوگوں پر جنہوں نے اپنی روش میں ذرا برابر تبدیلی نہیں کی۔قرآنی تعلیمات کی روشنی میں یہاں یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ یہی وہ ظالم و جابر افراد ہیںجو لوگوں کو ان کے گھروں سے بے گھر اورمظلومین کے خلاف جتھے بندیاں کرتے آئے ہیں۔لہذاایسے لوگ آخرت میں بھی خدا کے شدید عذاب سے دوچار ہوں گے اور جب تک دنیا میں رہیں گے ذلت و رسوائی ہی ان کا مقدر ٹھہرے گی۔قرآن حکیم کی متذکرہ آیات کی روشنی میں دیکھا جائے تو بنی اسرائیل آج تک اپنی روش میں ذراہ برابر تبدیلی نہیں لائے۔
وہ آج بھی مظلوم فلسطینیوں کو خود ان ہی کے گھروں سے بے دخل کرنے ،اپنے ہی جیسے انسانوں کا قتل عام کرنے ، ان کے خلاف جتھے بندیاں کرنے اورہر طرح کے ظلم و جبرمیں مصروف عمل ہیں۔ان تمام اعمال باطلہ کے باوجود کسی زمانے میں بھی نہ انہیں سکون و اطمینان حاصل ہو ا اور نہ ہی شریف النفس انسانوں کی نظروں میں کبھی عزت و وقار ہی حاصل کرپائے ہیں ۔واقعہ یہ ہے کہ خدا سے بغاوت اور بندوں پر کیے جا رہے ظلم و جبر کے نتیجہ میں وہ آج بھی دنیا کی نظروں میں ذلیل و خوارہیں،یہ الگ بات ہے کہ دنیا کے وسائل پر قدرت رکھنے کے نتیجہ میں،بظاہر آج وہ ان حالات سے دوچار نہیں جو ایک قوم کو کھلے عام ذلیل و رسوا کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔
فلسطین کی تاریخ پر ایک سرسری نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ وہی مقامِ ِ قبلہ اول ہے جس کی طرف رخ کرکے اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ساڑھے چودہ برس نماز پڑھی ہے۔اور یہ وہی بنی اسرائیل ہیں جو تقریباً تیرہ سو برس قبل مسیح اس علاقے میں داخل ہوئے اور دو صدیوں کی مسلسل کشمکش کے بعد بالآخر اس پر قابض ہو گئے ۔بنی اسرائیل نے اْن قوموں کا قتل کرکے اس سر زمین پر اسی طرح قبضہ کیا تھا جس طرح انگریزوں نے سرخ ہندیوں (Red Indians)کو فنا کرکے امریکہ پر قبضہ کیا۔آٹھویں صدی قبل مسیح میں اسیریا نے شمالی فلسطین پر قبضہ کرکے اسرائیلوں کا بالکل قلع قمع کر دیا اور ان کی جگہ دوسری قوموں کو لابسایا جو زیادہ تر عربی النسل تھیں۔چھٹی صدی قبل مسیح میں بابل کے بادشاہ بخت نصر نے جنوبی فلسطین پر قبضہ کرکے تمام یہودیوں کو جلاوطن کر دیا۔
بیت المقدس کی انیٹ سے انیٹ بجادی اور ہیکل سلیمانی(Temple of Solomon) جسے دسویں صدی قبل مسیح میں حضرت سلیمان علیہ السلام نے تعمیر کرایا تھا، اس طرح پیوند خاک کر دیا کہ اس کی ایک دیوار بھی اپنی جگہ قائم نہ رہی۔ ایک طویل مدت کی جلاوطنی کے بعد ایرانیوں کے دور حکومت میں یہودیوں کو پھر سے جنوبی فلسطین میں آکر آباد ہونے کا موقع ملا اور انھوں نے بیت المقدس میں دوبارہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر کی۔٧٠ء میں یہودیوں نے رومی سلطنت کے خلاف بغاوت کی جس کی پاداش میں بیت المقدس کے شہر اور ہیکل سلیمانی کو بالکل مسمار کر دیا گیا۔
پھر ایک دوسری بغاوت کو کچل کر ١٣٥ء میں رومیوں نے پورے فلسطین سے یہودیوں کو نکال باہر کیا۔اسلام کی آمد سے قبل یہ پورا علاقہ عربی قوموں سے آباد تھا، بیت المقدس میں یہودیوں کا داخلہ تک رومیوں نے قانوناً ممنوع کر رکھا تھا اور فلسطین میں بھی یہودی آبادی قریب قریب ناپید تھی۔اس کے باوجود یہودیوں کا آج بھی یہ دعویٰ ہے کہ فلسطین ان کے باپ دادا کی میراث ہے جو خدا نے انہیں عطا فرمائی ہے۔ اورا نہیں حق پہنچتا ہے کہ اس میراث کو بزورقوت حاصل کرکے اس علاقے کے قدیم باشندوں کو اسی طرح نکال باہر کریں اور ان کی جگہ بس جائیں جس طرح تیرہ سو برس قبل مسیح میں انھوں نے کیا تھا۔
اس تعلق سے مشہور یہودی فلسفی موسیٰ بن میمون(Maimonides)نے اپنی کتاب”شریعت یہود”(The Code of Jewish Law)میں صاف لکھا ہے کہ ہر یہودی نسل کا یہ فرض ہے کہ بیت المقدس میں ہیکل سلیمانی کو از سر نو تعمیر کرے۔ہیکل سلیمانی کے متعلق یہ بات تاریخ سے ثابت ہے کہ اسے ٧٠ء میں بالکل مسمار کر دیا گیا تھا اور حضرت عمر کے زمانے میں جب بیت المقدس فتح ہوا اس وقت یہاں یہودیوں کا کوئی معبد نہ تھا بلکہ کھنڈر پڑے ہوئے تھے۔یہ بات بھی ہمیں تاریخ ہی بتاتی ہے کہ رومیوں کے زمانے میں فلسطین یہودیوں سے خالی کرالیا گیا تھا اور بیت المقدس میں تو ان کا داخلہ بھی ممنوع تھا۔پچھلی تیرہ چودہ صدیوں میں یہودیوں کو اگر کہیں امن نصیب ہوا ہے تو وہ صرف مسلمان ممالک تھے، ورنہ دنیا کے ہر حصے میں جہاں بھی عیسائیوں کی حکومت رہی وہاں وہ ظلم و ستم کا نشانہ ہی بنتے رہے۔یہودیوں کے اپنے مورخین خود اعتراف کرتے ہیں کہ ان کی تاریخ کا سب سے زیادہ شاندار دور وہ تھا جب وہ اندلس میں مسلمانوں کی رعایا کی حیثیت سے آباد تھے۔
Islam
واقع یہ بھی ہے کہ وہی عیسائی جو ایک زمانے میں یہودیوں پر بے تحاشہ مظالم کرچکے تھے، اسلام اور اسلامی اقتدار سے بغض کے نتیجہ میں یہودیوں سے دوستانہ کرنے اور عالم اسلام اور مسلم ممالک کے لیے ایک مستقل درد سر کا ذریعہ بھی بنے ہیں۔ پہلی جنگ عظیم کے موقع پر ڈاکٹر وائز مین جو اس وقت یہودیوں کے قومی وطن کی تحریک کا علبردار تھا،انگریز حکومت سے اس نے وہ مشہور پروانہ حاصل کر لیا جو اعلان بالفور کے نام سے مشہور ہے۔اعلان بالفور کے وقت فلسطین میں یہودیوں کی کل آبادی پانچ فیصد بھی نہ تھی۔اس موقع پر لارڈ بالفور اپنی ڈائری میں لکھتا ہے:”ہمیں فلسطین کے متعلق کوئی فیصلہ کرتے ہوئے وہاں کے موجودہ باشندوں سے کچھ پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے۔
صیہونیت ہمارے لیے ان سات لاکھ عربوں کی خواہشات اور تعصبات سے بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے جو اس قدیم سرزمین میں اِس وقت آباد ہیں”۔بالفور کی ڈائری کے یہ الفاظ آج بھی برطانوی پالیسی کی دستاویزات (Documents of British Policy)کی جلد دوم میں ثبت ہیں۔نتیجتاً ١٩١٧ء میں یہودی آبادی جو صرف ٥٢ہزار تھی وہ پانچ سال میں بڑھ کر ٨٣ ہزار کے قریب ہو گئی۔١٩٢٢ء سے ١٩٣٩ء تک ان کی تعداد ساڑھے چار لاکھ تک پہنچ گئی۔جنگ عظیم دوم کے زمانے میں ہٹلر کے مظالم سے بھاگنے والے یہودی ہر قانونی اور غیر قانونی طریقے سے بے تحاشہ فلسطین میں داخل ہونے لگے۔صیہونی انجیسی نے ان کو ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں فلسطین میں گھسانا شروع کر دیا اور مسلح تنظیمیں قائم کیں جنھوں نے ہر طرف ماڑدھاڑ کرکے عربوں کو بھگانے اور یہودیوں کو ان کی جگہ بسانے میں سفاکی کی حد کر دی۔
اب ان کی خواہش تھی کہ فلسطین کو یہودیوں کا “قومی وطن”کی بجائے “قومی ریاست”کا درجہ حاصل ہو جائے۔١٩٤٧ء میں برطانوی حکومت نے فلسطین کا مسلہ اقوام متحدہ میں پیش کر دیا۔مطلب یہ تھا کہ مجلس اقوام(لیگ آف نیشنز) نے صیہونیت کی جو خدمت ہمارے سپرد کی تھی وہ ہم انجام دے چکے ہیں۔ اب آگے کا کام اس آنجہانی مجلس کی نئی جانشین اقوام متحدہ انجام دے۔نومبر ١٩٤٧ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کو یہودیوں اور عربوں کے درمیان تقسیم کرنے کا فیصلہ صادر کر دیا۔اس کے حق میں ٣٣ ووٹ اور اس کے خلاف١٣ ووٹ تھے۔
دس ملکوں نے کوئی ووٹ نہیں دیا۔آخر کار امریکہ نے غیر معمولی دبائو ڈال کرہائیٹی، فلپائن اور لائیریا کو مجبور کرکے اس کی تائید کرائی۔یہ بات خود امریکن کانگریس کے ریکارڈ پر موجود ہے کہ یہ تین ووٹ زبردستی حاصل کیے گئے تھے۔ جیمز فورسٹال (Forestal) اپنی ڈائری میں لکھتا ہے :”اس معاملہ میں دوسری قوموں پر دبائو ڈالنے اور ان کو ووٹ دینے پر مجبور کرنے کے لیے جو طریقے استعمال کیے گئے وہ شرمناک کارروائی کی حد تک پہنچے ہوئے تھے۔
اس پورے پس منظر میں یہ بات خوب اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ یہود و نصاریٰ ہی در اصل وہ اقوام ہیں جو اسلام ،مسلمان اور عالم اسلام کو ہر سطح پر نقصان پہنچانے کی سعی و جہد میں مصروف ہیں۔لہذا مسلمانوں کی پہلے ہی مرحلے میں ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ان اقوام کے طرز عمل کو نہ اختیار کریں۔نیز اسلام کو سمجھیں،اس پر عمل پیرا ہوں، اس کی تعلیمات کو اپنے شب و روز کی زندگیوں میں نا فذ کریںاور چہار جانب اللہ کی زمین پر اللہ کی کبرائی کا اپنے افکار و اعمال سے اعلان کردیں۔مسائل سے واقفیت بہم پہنچانے کا ذریعہ تحریریں بھی ہو سکتی ہیں، اپنے غم و غصہ کے اظہار کے لیے تقاریر و بیانات بھی دیے جا سکتے ہیں،سعی و جہد کا ایک طریقہ احتجاج و مظاہرے بھی ہو سکتے ہیں۔لیکن یہ تمام افعال مسئلہ کا حتمی حل کبھی نہیں ہوسکتے۔
اس کے لیے تو لازم ہے کہ کم از کم وہ افراد جو مسائل سے دوچارہیں اپنے شب و روز میں تبدیلی لائیں۔ساتھ ہی بلا لحاظ مذہب و ملت ان صالح،غیر متعصب،انسان دوست افراد کو ساتھ لیں جو انسانوں کے دکھ درد کو محسوس کرتے ہوں ،ان سے ہمدردی رکھتے ہوں ،ساتھ ہی ان کے حق میں جرات اظہار کی صلاحیت سے بھی مالا مال ہوں۔وقت کا تقاضہ ہے کہ ایسے افرادرائج الوقت امن پسندطریقہ سے ایک عظیم تبدیلی کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔ مقصد کے حصول اور عمل کے آغاز میں لازم ہے پہلے خود مسلمان اپنا محاسبہ کریں، بے مقصد زندگیوں کو مقصدیت سے وابستہ کریں،اپنے گھر،خاندان ،معاشرہ کو اسلامی بنیادوں پر استوار کریں نیز اس سب کے لیے اپنے وقت،صلاحیتوں اور مال کی قربانی دیں۔تب ہی ممکن ہے کہ موجودہ فساد جونہ صرف فلسطین کی مقدس زمین پر بلکہ چہار جانب برپا ہے،وہ ختم ہو،امن و امان قائم ہو، دنیا جس سکون کی متلاشی ہے وہ حاصل ہو اورہم نہ صرف اپنے قول بلکہ عمل سے بھی ثابت کر دیں کہ اے سرزمین مقدس اور اے مظلومانِ فلسطین ہم نہ صرف تمہارے ساتھ بلکہ زماں و مکاں کے قیود سے چھٹکارا پاتے ہوئے ہر جگہ ظالم اور ظلم کے خلاف ہیں۔
Mohammad Asif Iqbal
تحریر : محمد آصف اقبال، نئی دہلی [email protected] maiqbaldelhi.blogspot.com