تحریر : عنایت کابلگرامی سر سید احمد خان بلا شبہ ایک نا بغہ روزگار شخصیت تھے۔ ایک ایسی شخصیت جو رنگا رنگ تھی اور منفرد و ممتاز بھی اور نہایت پُروقار بھی۔ بے شک وہ انسانیت کے مسیحا، عالموں کے مداح، بے عدیل صحافی، مصلح قوم و ملّت، صاحبِ طرز ادیب، بلند پایہ مفسر، ماہر تعلیم اور عظیم مفکر تھے۔ ان کے افکار اور نظریات آج بھی ہمارے لئے مشعلِ راہ ہیں کیونکہ انہوں نے ہمیں نئے حالات کا مقابلہ کرنا اور نئے حالات کے ساتھ با عزت سمجھوتا کرنا سکھایا۔ بے شک وہ اپنے جملہ اہلِ وطن خصوصاََ مسلمانوں کو نئے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا چاہتے تھے، اس کے لئے ان سے جو بھی ہو سکا وہ کیا۔ چنانچہ اس سلسلے میں انہوں نے کتابیں بھی لکھیں، رسالے بھی جاری کئے، انجمنیں بھی قائم کیں، تلاش و تحقیق کی نئی راہیں بھی دکھائیں، قوم کو ماضی کا نقشہ دکھا کر اصلاحِ حال پر آمادہ بھی کیا۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ اُن کے افکار و تصوّرات اور تحریک کے سیاسی کردار کو کھلے زہن کے ساتھ سمجھا جائے اور اس پر عمل بھی کیا جائے۔
سر سید کی زندگی پر اگر غائر نگاہ ڈالی جائے تو معلوم ہوگا کہ انہوں نے ہر موقع اور ہر منزل پر ملک و قوم کی فلاح و بہبود کے لئے عملی طور پر کوششیں کیں۔ بلاشبہ سر سید ہندوستان میں ملّت اسلامیہ کے وہ پہلے مسیحا ہیں جنہوں نے مسلمانوں پر مصیبتیں نازل ہونے کے اسباب اور اُن کے سدباب پر غور کیا۔ انہوں نے یہ محسوس کیا کہ قوم کو اب بدلے ہوئے حالات میں نئے طرز اور نصابِ تعلیم کی ضرورت ہے۔ لہذا انہوں نے اس سلسلے میں عملی اقدام کئے۔ انہوں نے رسالے نکالے، تعلیمی سوسائٹیاں قائم کیں، محمڈن اینگلو اورینٹل پبلک اسکول کی بنیاد ڈالی اور سب سے اہم اقدام سائینٹفک سوسائٹی کی شکل میں کیا تاکہ مغربی علوم و فنون کو اردو زبان میں منتقل کیا جا سکے۔ اس طرح سر سید کی ان تھک کوششوں سے ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے احیا? ملی کا سامان فراہم ہوا اور اسلامی دنیا کو بھی فکر و نظر کے نئے زاویے انہوں نے دئے۔
17 اکتوبر کا دن ساری دنیامیں مرحوم سر سید کی یوم پیدائش کے طور پر منایا جاتا ہے اور تمام ممالک میں اس دن ‘سر سید ڈنر’ کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے۔ سر سید ہمارے پہلے بزرگ ادیب ہیں جنہیں سب سے پہلے یہ خیال ہوا کہ ادب کو دنیا میں ایک عظیم انقلاب کی ضرورت ہے۔زہن کے پکے تھے۔ انہوں نے ادب کی کایا پلٹ کر دینے کا بیڑا اٹھایا۔ایک تنقید نگار نے لکھا ہے کہ”سر سید کا اصل کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے قوم کا کھویا ہوا اعتماد بحال کیا۔ اسے جذبہ فکر و عمل سے روشسناس کیا۔”وہ ایک ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے۔ ہندوستانیوں اور خاص طور پر ہندوستانی مسلمانوں کی زندگی کے ہر شعبے کی خامیوں اور خوبیوں کا انہوں نے گہری نظر سے مطالعہ کیا۔ سر سید نے زندگی کو بہتر بنانے کی کوشش کی، یہ کوشش کسی ایک میدان تک محدود نہ رہی بلکہ انہوں نے مذہب، ادب، سیاست، تعلیم، معاشرت پر توجہ کی۔ سر سید کے بارے میں جب ایک مبصر قلم اُٹھاتا ہے تو اس کو یہ الفاظ لکھنے پڑتے ہیں:ـ
Sir Syed Ahmed Khan
”اگر سر سید صرف قران و حدیث کی طرف توجہ کرتے تو بلند پایہ عالمانِ دین میں شمار ہوتا۔ اگر سیاست پر توجہ کرتے تو اس میدان میں کارواں سالار ہوتے۔ اگر صرف تعلیم پر غور کرتے تو دنیا کے مشہور ماہرِ تعلیم کے صف میں جگہ پاتے۔ اگر شاعری کرتے تو غالب و اقبال کے ہم پلہ ہوتے۔ ہندوستانی مسلمانوں کو پستی سے نکالنے کے لئے اور ہندوستانی مسلمانوں کو ایسے ماہر طبیب کی ضرورت تھی۔ جس کے پاس ہر مرض کا علاج ہو اور ہر درد کا دوا ہو۔”
سر سید نے 1869 ء میں انگلستان کا سفر کیا اور یہ سفر تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ لندن میں انہوں نے انگریزی نظامِ تعلیم کا بغور مطالعہ کیا اور ان کے دل میں یہ بات گھر کر گئی کہ مسلمان علوم کو حاصل کرنے کے بغیر ترقی نہیں کر سکتے۔ ہندوستان لوٹ کر انہوں نے علی گڑھ میں جدید طرز کا ایک کالج کھولا۔ یہ سر سید کا سب سے بڑا کارنامہ ہے۔ 1838 ء میں سر سید نے پہلی ملازمت کی اور اسی زمانے میں اپنی مشہور کتاب ”آثار ا لصنا دید” لکھی۔ جس میں دہلی کے مشہور مقامات اور شعراء وغیرہ کا زکر کیا گیا۔ اس کتاب کی شہرت اتنی ہو گئی کہ اسکا ترجمہ انگریزی میں ہوا۔ سر سید نے 1857 ء میں اپنا مشہور پمپلٹ pumplet ”اسباب بغاوت ہند” تصنیف کیا۔ سر سید نے ایک ماہوار رسالہ ”علی گڑھ انسٹچوٹ” کے نام سے نکالا۔ اسکے علاوہ اس نے اپنا ایک مشہورو معروف ماہوار رسالہ ”تہذیب ا لا خلاق” جاری کیا جس کے مطالعہ سے ہندوستان کے مسلمانوں کے خیالات میں ایک انقلاب عظیم رونما ہوا۔ سر سید محض مسلمانوں کی ترقی و خوشحالی کے لئے فکر مند نہیں تھے بلکہ ان کے دل میں ہندوستانی قوم کے لئے سچا درد تھا چنانچہ انہوں نے بنارس میں ہو میو پیتھک دوا خانہ اور اسپتال قائم کیا تاکہ غریب ہندوستانیوں کی مفت طبی امداد ہو سکے۔
سر سید کا قلم بہت زبردست اور ان کا علمی تحریر بہت اعلیٰ تھا۔ ان کا طرز تحریر بہت زور دار مگر صاف اور صادہ ہے اس میں کسی قسم کی عبارت آرائی نہیں۔ یہی چیز ان کی شہرت اور قابلیت میں اضافہ کرتی ہے۔ سر سید کی سب سے بڑی پہچان یہ ہے کہ انہوں نے اپنے ساتھیوں میں جوش و خروش پیدا کر دیا۔ سر سید کو بجا طور پر ”بابائے نثر جد
جدید اردو نثر کو بخشی جس نے ہے جان کہتے ہیں ان کو سر سید احمد خان
سر سید کے متذکرہ کارناموں کو دیکھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے کوئی ایسا میدان نہیں چھوڈا کہ جس میں اپنے فکر انگیز خیالات سے ہندوستانیوں اور مسلمانوں کی رہنمائی نہ کی ہو۔ خواہ وہ علم و ادب ہو یا صحافت، تجارت و معیشت ہو یا کہ زراعت، معاشرتی مسائل ہو یا کہ حفظان صحت، غرض کہ انہوں نے زندگی کے ہر موڈ پر ہندوستانیوں اور مسلمانوں کی رہنمائی کی۔ یہاں یہ تحریر کرنا بیجا نہ ہوگا کہ سر سید جس دور میں ہندوستانیوں کی فلاح و بہبود کے لئے علمی، ادبی اور معاشی ترقی کے لئے سر گرم عمل تھے اس وقت انہیں کانگریس میں شمولیت کی دعوت دی گئی لیکن سر سید نے کانگریس میں شمولیت سے انکار کر دیا۔ اس سے یہ غلط فہمی پھیل سکتی ہے کہ وہ غالباََ بدیشی حکومت کے طرفدار یا آزادی? ہند کے مخالف تھے جب کہ یہ حقیقت نہیں، دراصل وہ سیاسی امور اور سرگرمی ہندستانیوں خصوصاََ مسالمانوں کے لئے غیر ضروری تصّور کرتے تھے جیسا کہ انہوں نے محمڈن ایجوکیشنل کانگریس کے اجلاس کو خطاب کرتے ہوئے کہا تھا: ”جن لوگوں کا خیال یہ ہے کہ پولیٹکل امور پر بحث سے ہماری قوم کو ترقی ہوگی، میں ان سے اتفاق نہیں کرتا بلکہ تعلیم کی ترقی اور صرف تعلیم ہی کی ترقی کو زریعہ قومی ترقی سمجھتا ہوں۔”
لہذا سر سید نے اپنی تمام تر توجہ تعلیم پر ہی مرکوز رکھی۔ جیسا کہ مذکورہ سطور میں ذکر ہو چکا ہے۔ چونکہ انہون نے کچھ انتہائی اہم علمی کارناموں کی زمہ داری اپنے سر لے رکھی تھی اس لئے وہ اسی راہ پر گامزن رہے اور یہ بھی سچ ہے کہ ان کے پاس اتنا وقت ہی نہ تھا کہ وہ سیاسی سر گرمیوں میں حصّہ لیتے، اس لئے انہوں نے کانگریس جس کا اس وقت مطمع? نظر صرف ہوم رول تھا اس میں شرکت ضروری نہ سمجھا اور انہوں نے اپنا علمی اور سماجی خدمات کا سفر جاری رکھا اور اپنے زرّیں خیالات سے نوجوانوں کو متاثر کرتے رہے۔الغرض ان کا ان انقلابی خیالات کی ترویج کو دیکھ کر انہیں اپنا عہد کا مجدد قرار دیا جائے تو غلط نہ ہو گا۔