تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی روزِ اول سے آج تک کروڑوں انسان اِس جہان ِ فانی میں آئے کھایا پیا افزائشِ نسل کا حصہ بنے اور پیوندِ خاک ہو گئے ۔اِن کروڑوں انسانوں میں زیادہ تر تو گمنامی کی زندگی گزار کر گئے جبکہ کچھ اور چند ایسے انسان بھی تھے کہ خالقِ ارض و سما نے ان کو بادشاہت کا اختیار بھی دیا یہ وہ لوگ تھے کہ لاکھوں انسانوں کی زندگی موت کا فیصلہ اِن کے ہاتھ میں تھا جب یہ حرکت کرتے تو لاکھوں لوگ اِن کے ساتھ حرکت کرتے جب یہ ساکن ہو تے تو دنیا ساکن ہو جاتی۔
شب و روز گزرتے چلے گئے اور یہ بڑے لوگ بھی ماضی کا حصہ بنتے چلے گئے یہ سلاطین اور شہنشاہ جب زندہ تھے تو ہر زبان پر اِن کا چرچا اور حکمرانی تھی لیکن جب وقت نے کروٹ لی اور یہ پیوندِ خاک ہوئے تو کچھ ہی دنوں بعد اِن کی قبروں اور مزارات پر دھول اڑنے لگی اور پھر وقت گزرنے کے ساتھ اِن کی قبروں اور مزارات کے نشان تک مٹ گئے ۔مسلمانوں کی تاریخ بھی ایسے ہی بادشاہوں کے ناموں سے بھری پڑی ہے جو دنیا دار تھے وہ کچھ عرصہ تو لوگوں کو یاد رہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ہی ایسے حکمرانوں کے نام بھی آج اذھان سے محو ہو چکے ہیں ۔لیکن اِن حکمرانوں میں وہ بادشاہ جنہوں نے عشق ِ رسول ۖ کی وادی میں قدم رکھا اپنی عقیدت و احترام کا اظہار کیا اور خود کو آقائے دو جہاں کا ادنی غلام سمجھا تو ایسے حکمرانوں کے نام آج تاریخ میں صرف اور صرف عشقِ رسول ۖ کی وجہ سے زندہ ہیں ۔ایسے حکمرانوں کے شب و روز عشقِ رسول ۖ ، سنتِ نبوی ۖ ، عبادت ، ریاضت خشتِ الہی میں گزرے ایسے حکمرانوں کے نام تاریخ کے اوراق پر روشن ستاروں کی طرح چمک رہے ہیں ۔بت شکن سلطان محمود غزنوی جو بت شکنی کے حوالے سے قیامت تک تاریخ کے اوراق میں امر ہو گیا وہ بھی عشقِ رسول ۖ کی دولت سے مالا مال تھا سلطان محمود کی اپنے غلام ایاز سے بھی محبت تاریخ کا حصہ ہے اس غلام ایاز کا ایک بیٹا تھا جس کا نام محمد تھا جو بادشاہ کی خدمت کے لیے مامور تھا ایک روز سلطان محمود غزنوی طہارت خانے میں آیا اور آواز دی ایاز بیٹے سے کہو کہ وضو کے لیے پانی لے کر آئے ایاز شاہانہ مزاج سے خوب واقف تھا بادشاہ کی بات سن کر پریشان ہو گیا کہ شاید میرے بیٹے سے کوئی گستاخی ہو گئی ہے جس کی وجہ سے بادشاہ سلامت ناراض اور ناخوش ہو گئے ہیں اِ س لیے روزانہ کی طرح آج بیٹے کا نام لے کر نہیں پکارا سلطان محمودوضو سے فارغ ہو کر جب باہر آیا تو اپنے عزیز غلام ایاز کو غم کے سمندر میں ڈوبا ہوا پایا کیونکہ ایا ز غم کا مجسمہ بن کر اداس غمگین کھڑا تھا ۔
بادشاہ ایاز کو غمزدہ دیکھ کر بولا آج تم دکھ اور غم کا مجسمہ بن کر کیوں کھڑے ہو، تو ایاز بولا عالم پناہ آج آپ نے غلام زادے کو نام لے کر نہیں بلایا اِس وجہ سے میں بہت پریشان ہوں کہ پتہ نہیں غلام زادے سے کیا غلطی یا نافرمانی ہو گئی جس کی وجہ سے عالی جاہ ناراض ہو گئے ہیں سلطان محمود سن کر مسکرایا اور کہا ۔ ایاز ایسی کوئی بات نہیں تم مطمئن رہو نہ تو صاحبزادے سے کوئی غلطی ہوئی ہے اور نہ ہی میں اس سے ناراض ہوں ۔ لیکن ایاز کے چہرے پر ابھی تک سوالیہ اور غم کے تاثرات نمایاں تھے سلطان محمود مسکرایا اور کہا آج صاحبزادے کو نام لے کر نہ بلانے کی وجہ یہ تھی کہ مجھے شرم آئی اور میں بے ادبی سمجھا کہ بے وضو میری زبان سے راحت انس و جان و رحمتِ دو جہاں ۖ کا اسمِ گرامی ادا ہو۔ اِسی طرح سلطان ناصر الدین بھی عشقِ رسول ۖ میں سر سے پاں تک ڈوبا ہوا تھا ۔ نبی کریم ۖ سے محبت کا یہ عالم تھا کہ آپ ۖکا نام بے حد ادب و احترام سے لیتا اس کے ایک مصاحب کا نام محمد تھا ایک دن اسے نام لے کر نہ پکارا بلکہ کہا تاج دین اِدھر آ اور یہ کام کرو ۔ کام کرنے کے بعد محمد اپنے گھر چلا گیا اور پھر تین دن تک بادشاہ کی خدمت میں نہ آیا تو سلطان نے کسی کو بھیج کر اسے طلب کیا اور نہ آنے کی وجہ پوچھی تو مصاحب نے عرض کی عالی جاہ جب آپ نے مجھے خلافِ عادت تاج دین کہہ کر پکارا تو مجھے لگا میری کسی غلطی اور گستاخی کی وجہ سے آپ مجھ سے ناراض ہیں اِس شرمندگی اور غم میں تین دن میں گھر میں پڑا رہا تو سلطان ناصر دین شفقت آمیز لہجے میں بولے اے عزیز ایسی ناراضگی والی کوئی بات نہیں اس وقت میں باوضو نہیں تھا اِس لیے بغیر وضو محمد نام لینا مجھے بے ادبی لگا اِس لیے تاج دین کہہ دیا ۔
سلطان صلاح الدین ایوبی فاتح بیت المقدس کو جولازوال شہرت ملی اور قیامت تک امر ہو گیا اس کی وجہ بھی عشقِ رسول ۖ ہی تھا ۔ ایک دفعہ مدینہ منورہ کے حکام میں سے کسی نے ایک پنکھا بطور ہدیہ بھیجا جس کی ایک طرف لکھا تھا ۔ یہ آپ کے لیے ایسا خاص تحفہ ہے کہ آج سے پہلے ایسا نایاب تحفہ آپ کو نہ تو کسی نے بھیجا اور نہ ہی کسی نے آپ کے والد کو اور نہ ہی کسی بادشاہ کو بھیجا ہو گا ۔ یہ پڑھ کر سلطان صلاح الدین ایوبی کو بہت زیادہ غصہ آگیا ۔ بادشاہ کا غصہ دیکھ کر قاصد نے عاجزی سے عرض کی اے بادشاہ سلامت آپ غصہ فرمانے سے پہلے برائے مہربانی ایک بار دوسری طرف کو بھی پڑھ لیں اور غصہ نہ کریں ۔ لہذا سلطان صلاح الدین ایوبی نے پنکھے کو دوسری طرف الٹ کر پڑھا تو وہاں دو ایمان افروز شعر لکھے ہوئے تھے ۔ میں نخلستا ن مدینہ کا پنکھا ہوں اور نبی کریم ۖ کی قبر مبارک کا ہمسایہ ہو ں کہ ساری مخلوق اِس کی زیارت کے لیے آتی ہے ۔میں نے اِسی قبر مبارک کے زیر سایہ پرورش پائی حتی کہ ا،سی برکت کی وجہ سے میں سلطان صلاح الدین کے لیے راحت پر مقرر ہوا۔ یہ پڑھنے کی دیر تھی کہ بے ساختہ سلطان بول اٹھا ۔
خدا کی قسم تو نے سچ کہا ۔عقیدت اور عشقِ رسول ۖ سے سلطان کی خوشی کی انتہا نہ رہی ، کیونکہ یہ دنیا جہاں کے خزانوں اور نایاب تحفوں سے بڑھ کر ایسا خزانہ خاص تھا کہ اِس کے سامنے دنیا بھر کے ہیرے جواہرات اور سونے چاندی چاندی کے ڈھیر ہیچ تھے اور واقعی سلطان کو آج سے پہلے کسی نے ایسا نایاب اور مقدس تحفہ نہیں بھیجا تھا۔ یہ سلطان صلاح الدین ایوبی کی زندگی کا سب سے بڑا اور مقدس تحفہ تھا ۔ سلطان عشقِ رسول ۖاور ادب احترام میں پنکھے کو اپنی آنکھ پر رکھ لیا اور آنکھوں سے عقیدت و احترام سے خوشی کے آنسوئوں کا سیلاب بہہ نکلا۔