اصول یہی کہ غیرملکی میڈیا کو انٹرویو دینے سے پہلے سربراہِ مملکت ملکی اداروں سے بریفنگ لیتے ہیں لیکن ہمارے وزیرِاعظم جو اپنے آپ کو ”عقلِ کُل” سمجھتے ہیں، اُنہوں نے کبھی بریفنگ کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کے متنازع بیانات سامنے آتے رہتے ہیں۔ اتوار 20 جون کو امریکی چینل ایچ بی او پر نشر ہونے والے انٹرویو میں ایک سوال کے جواب میں وزیرِاعظم نے فرمایا کہ اگر مسٔلہ کشمیر حل ہو جائے تو ہمیں ایٹمی ہتھیاروں کی ضرورت نہیں رہے گی۔ وزیرِاعظم صاحب کا یہ بیان ملکی پالیسی کا ہرگز حصّہ نہیںاور نہ کوئی حکومت ایٹمی پروگرام رول بیک کرنے کی جرأت کر سکتی ہے۔ ایٹمی صلاحیت پاکستان کی سلامتی کی ضمانت ہے جسے مسلٔہ کشمیر سے جوڑنا کسی صورت میں مناسب نہیں۔ حتیٰ کہ اگر مسلٔہ کشمیر حل ہو جائے اور بھارت اپنا ایٹمی پروگرام رول بیک کر دے تو عالمِ اسلام کی یہ واحد ایٹمی قوت پھر بھی ایٹمی پروگرام رول بیک نہیں کرے گی۔
اِسی انٹرویو میں وزیرِاعظم کا ایک اور متنازع بیان بھی سامنے آیا۔ امریکی صحافی جوناتھن سوان کے ایک سوال کے جواب میں اُنہوںنے فرمایا ”اگر عورت چھوٹے کپڑے پہنے گی تو اُس کے اثرات مردوں پر ہوںگے کیونکہ وہ روبوٹ نہیں ہیں۔ میرا مطلب عمومی سمجھ کی بات ہے کہ اگر آپ کا معاشرہ ایسا ہو کہ جہاں لوگوں نے ایسی چیزیں نہ دیکھی ہوں تو اِس کا اُن پر اثر تو ہوگا”۔ اِس سے پہلے 3 اپریل 2021ء کو خاں صاحب نے ایک لائیو ٹی وی پروگرام میں ملک میں جنسی زیادتی کے واقعات کی ایک وجہ فحاشی قرار دیتے ہوئے فرمایا تھا ”ہر انسان میں اتنی طاقت نہیں ہوتی کہ وہ خود کو روک سکے”۔ اُنہوں نے یہ بھی فرمایا ”ہمارے دین میں پردے کی کیوں تاکید کی گئی ہے؟ تاکہ کسی کو ترغیب نہ ملے”۔ وزیرِاعظم کے اِس بیان پر جب مختلف حلقوں کی طرف سے شورِقیامت اُٹھاتو چار دن بعد اُن کے دفتر سے ایک وضاحتی بیان جاری ہوا جس میں کہا گیا کہ جنسی جرائم کو روکنے کے لیے صرف قوانین ہی کافی نہیں ہوںگے بلکہ پورے معاشرے کو مل کر لڑنا ہوگا جس میں بہکاووں سے بچنا بھی شامل ہے (بعد میں اِس وضاحتی بیان سے ”بہکاووں سے بچنا” حذف کر دیا گیا)۔ 3 اپریل کو اُنہوں نے خواتین کے پردے اور ”بہکاووں”کا ذکر کیا اور 20 جون کو صراحت سے مختصر لباس کا ذکر بھی کر دیا ۔جس پر حقوقِ نسواںکی این جی اوز اور لبرلز کاشدید رَدِعمل سامنے آرہاہے۔ اِس تنقیدی رَدِعمل کے بعد وزیرِاعظم صاحب بھی نالاں ہیں کہ اُن کے انٹرویو کے بعض حصوں کو سیاق وسباق سے علیحدہ کرکے دکھایا گیا۔ اِسی انٹرویو میں ”خواتین اور روبوٹ” کے حوالے سے دیئے گئے بیان پر سوشل میڈیا اور سماجی حلقے تاحال انتہائی سخت الفاظ میں تنقید کر رہے ہیں ۔
ایک مسلم خاتون ہونے کے ناطے وزیرِاعظم کے اِن بیانات پر مجھے اعتراض ہے تو صرف یہ کہ اِس انٹرویو سے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے چالاک عورتیں جان بوجھ کر مردکو اپنی طرف راغب کرتی ہیںاور بیچارے معصوم مرد اُن کے جال میں پھنس جاتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جنسی جنونیوں کا لباس سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ رہی پردے کی بات تو فرقانِ حمید نے عورت کے بناؤ سنگھار اور پردے کی حد ودوقیود مقرر کر دی ہیں۔ سورة الاعراف آیت 27 میں حکم ہوا”اے اولادِ آدم! ہم نے تم پر لباس نازل کیا ہے کہ تمہارے جسم کے قابلِ شرم حصوں کو ڈھانپے اور تمہارے لیے جسم کی حفاطت اور زینت کا ذریعہ بھی ہو”۔ سورة الاحزاب آیت 50 میں یوں حکم ہوا ”اے نبی! اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہلِ ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلّو لٹکا لیا کریں، یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں”۔یہی وہ حدودوقیود ہیں جو دینِ مبین نے مقرر کی ہیں۔ وزیرِاعظم نے جس مختصر لباس کا ذکر کیا ہے وہ اہلِ مغرب میں تو مروج ہے جہاں عورت لباس کے نام پر جو دھجیاں سجائے پھرتی ہے، الحمدُللہ پاکستان میں ابھی تک اِس کی نوبت نہیں آئی لیکن وزیرِاعظم صاحب کے بیان سے تویوں محسوس ہوتاہے جیسے پاکستان میں بھی اہلِ مغرب کی تقلید کی جا رہی ہو۔
حقیقت یہ کہ حیا کے معاملے میں رَبِ لم یزل نے جتنی پابندیاں عورت پر لگائی ہیں، اُتنی ہی مرد پر بھی۔ فرقانِ حمید میں غضِ بصر کا حکم مرد اور عورت دونوں کے لیے یکساںہے۔ سورة النور آیت 30 میں مردوں کو حکم دیاگیا ”مومن مردوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، یہی اُن کے لیے پاکیزہ ترین طریقہ ہے”۔ اِس سے اگلی ہی آیت میں یوں ارشاد ہوا ”مومن عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں” (سورة النور آیت 31)۔ اِس حکم سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ شرم وحیا کے معاملے میں جتنی پابندیاں عورت پر ہیں اُتنی ہی مرد پر بلکہ مردوں پر اِس لحاظ سے یہ پابندی نسبتاََ زیادہ ہے کہ اُنہیں حاکم مقرر کیا گیا ہے۔ مکرر عرض ہے کہ جنسی جنونیوں کے نزدیک لباس کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ چھوٹے بچوں اور بچیوں کا ریب کرنے والے کیا اُن کا لباس دیکھتے ہیں؟۔ خواتین کو اغوا کرکے اجتماعی زیادتی کرنے والوں کی نظریں کیا اُن کے لباس پر ہوتی ہیں؟۔رنگ روڈ لاہور پر ایک ماں کے ساتھ جو درندگی ہوئی کیا اُس ماں نے مختصر لباس پہنا ہوا تھا؟۔ پاکستان میں جو روزانہ بَدفعلی اور جنسی زیادتی کے کیسز رپورٹ ہوتے ہیںکیا اُن کا تعلق مختصر لباس سے ہے؟۔ ننگِ انسانیت مفتی عزیز الرحمٰن نے کون سے چھوٹے کپڑے دیکھ کر اپنے طالب علم کے ساتھ بَدفعلی کی؟۔ وزیرِاعظم صاحب کے ایسے بیانات جہاں مردوں کو شہ دینے کے مترادف ہیں وہاں خواتین کے لیے باعثِ آزار بھی ہیں۔ وہ اگر واقعی معاشرے کو دین کے قالب میں ڈھالنے میں سنجیدہ ہیں تو ریاستِ مدینہ کی تشکیل نہ سہی کم از کم اسلامی سزاؤں پر عمل درآمد تو کرواہی سکتے ہیں۔ یہی ایک طریقہ ہے جس سے نہ صرف جنسی زیادتی میں کمی لائی جا سکتی ہے بلکہ ننگِ انسانیت مفتی عزیزالرحمٰن جیسے اغلام پرستوں کو بھی نشانِ عبرت بنایا جاسکتاہے۔
لواطت زنا سے بھی زیادہ قبیح فعل ہے ۔ یہ جرم ذلت وپستی کی علامت اور قلتِ دین پر دلالت کرتا ہے۔ یہ فعل اُس وقت اور زیادہ بھیانک ہو جاتاہے جب مفتی عزیز الرحمٰن جیسا کوئی ابلیس اِس میں ملوث پایا جائے۔ ایسے لوگوں کو نشانِ عبرت بنانا عین اسلام ہے۔ فرمانِ ربی ہے ”جب لوط نے اپنی قوم کو کہا کیا تم ایسی فحاشی کرتے ہو جو تم سے قبل کسی نے بھی نہیں کی، یقیناََ تم عورتوں کی بجائے مردوں سے شہوت والے کام کرتے ہو، بلکہ تم حد سے بڑھی ہوئی قوم ہو۔ اُن کا جواب تھا کہ اِسے تم اپنی بستی سے نکال باہر کرو۔ یہ لوگ پاک باز بنے پھرتے ہیں۔ تو ہم نے اُسے (لوط علیہ السلام) اور اُس کے گھر والوں کو نجات دی مگر اُس کی بیوی پیچھے رہ جانے والوں میں سے تھی اور ہم نے آسمان سے پتھروں کی بارش برسائی تو آپ دیکھیں کی مجرموں کا انجام کیا ہوا” (سورة الاعراف 80 تا 84 )۔ اِن آیاتِ مبارکہ کے مطابق لواطت، زنا سے کہیں قبیح فعل ہے کیونکہ زنا کے لیے حکم ہوا ”زانی عورت اور زانی مرد، دونوں میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو اور اللہ کے دین کے معاملے میں اِن پر ترس کھانے کا جذبہ تم کو دامن گیر نہ ہو، اگر تم اللہ تعالیٰ اور یومِ آخرت پر یقین رکھتے ہو” (سورة النور 2)۔ گویا سورة الاعراف اور سورة النور کے مطابق زانی کی سزا سو کوڑے اور اغلام بازی کی سزا عبرت ناک موت۔
تاریخِ اسلام اُٹھا کر دیکھ لیجئیے سزاؤں پر عمل درآمد ہمیشہ عوام کے سامنے کیا گیا تاکہ لوگ عبرت پکڑیں۔ یاد کریں کہ جب ضیاء الحق کے دور میں پپّو کے قاتلوں کو فیروزپور روڈ پر سرِعام لٹکایا گیا تو بچوں سے بَدفعلی کے واقعات نہ ہونے کے برابر رہ گئے۔ اگر آج بھی سرِعام سزائیں دی جائیں تو ایسے واقعات میں قابلِ ذکر کمی آسکتی ہے۔ہمیں ذہن میں رکھنا ہوگا کہ ایمانِ محکم ہی میں راہِ نجات ہے اورایمانِ محکم صرف احکاماتِ ربی پر من وعن عمل کرنے ہی سے پیدا ہو سکتا ہے۔