رات آدھی سے زیادہ گزر چکی ہے لیکن نیند ہے کے آنکھوں سے کوسوں دور دماغ ہے کہ شام سے ایک ہی فقرئے کی آماہ جگاہ بنا ہوا ہے آج آفس سے واپسی پرچکن کی شاپ پر کھڑا تھا کہ میرئے ہوتے ہوئے وہاں ایک شخص آیا اُس نے آتے ہی اپنے ہاتھ میں پکڑا ہوا شاپر کاوئنٹر پر پھینکا اور دکان دار سے کہنے لگا اس گوشت میں سے بدبو آرہی ہے دکان دار نے کہا بھائی گوشت میں نے آپ کو تازہ دیا تھا آپ نے شاپر میں زیادہ دیر رکھا ہو گا جس کی وجہ سے یہ مسئلہ بنا ہوگا وہ شخص جو پہلے ہی غصے میں تھا دکان دار سے بولا ایک بے ایمانی کرتے ہو اوپر سے باتیں بھی سنا رہے ہو تم مجھ کو جانتے نہیں دکان دار نے آگے سے جواب دیا میں بھی تم کو بڑی اچھی طرح جانتا ہوں تم بڑئے حاجی نمازی ہوجو مجھ کو بے ایمان ہونے کا طعنہ دئے رہے ہوںیہ ہے وہ فقرہ جو میرئے لیے اس وقت بھی درد سر بنا ہوا ہے اور اس لفظ بے ایمان نے صرف میرئے دماغ میں ہی نہیں اس وقت ملک میں بھی بھونچال بھرپا کیا ہوا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف والے پاکستان پیپلز پارٹی او ر پاکستان مسلم لیگ (ن)والوں کو بے ایمان کہہ رہیں ہیں تو پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی والے پاکستان تحریک انصاف والوں کو کہہ رہیں کہ تم کون سا حاجی یا نمازی ہواس ماحول میں بے ایمانی اور ایمانداری جیسے الفاظ تو مذاق بن کر رہ گئے ہیں سیاست کے میدان میں ایک دوسرئے پر لگائے جانے والے الزامات کو سنجیدہ لینا وہ بھی اس دور میںپاگل پن کے مترادف ہے لیکن ابھی بھی اس ملک میںچند ایسی شخصیات موجودہیں جن کی طرف سے لگائے گئے الزامات کو ہر طبقہ فکر سنجیدگی سے لیتا ہے اور ان ہی شخصیات میں شامل ہے۔
جناب حامد علی خان، حامد علی خان ایک انتہائی سلجھے ،بردبار اور سنجیدہ انسان ہے حامد علی خان کو جہاں وکلا برداری میں عزت احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے وہاں ہی سیاسی حلقوں میں بھی اُن کی ساکھ قابل تعریف ہے حامد علی خان پاکستان تحریک انصاف کے بانی ممبران میں سے ہے حامد علی خان سے ہزار اختلافات کے باوجود اُن کی محنت ،کرداراور ایمانداری پر انگلی اُٹھانا ناممکن ہے اُنہوں نے اپنی ایک کتاب اے ہسٹری آف دی جوڈیشری ان پاکستان(A HISTORY OF THE JUDICIERY IN PAKISTAN (میں اپنی ہی پارٹی سے تعلق رکھنے والے ایک رکن اسمبلی اور موجودہ وفاقی وزیر اطلاعات جناب فواد چوہدری (جو پیشے کے لحاظ سے خود بھی وکیل ہے )پر الزام لگایا ہے کہ اُس دور میں جب اُن کے چچا لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس تھے فواد چوہدری نے لوگوں سے پیسے لے کر عدالتوں سے اُن کی مرضی کے فیصلے کروائے اور عدالتوں میں ایک ٹاوٹ کا کردار ادا کیا۔
اس وقت ملک میں کرپشن کے خلاف اور احتساب کے حق میں عمران خان کے بعدسب سے توانا آواز ہی فواد چوہدری صاحب کی ہے اسمبلی کا فلور ہو یا میڈیا کا میدان ہر جگہ اپوزیشن سے اُن کے ذرائع آمدن اور اُن کے اثاثہ جات کی تفصیلات مانگنے اور اپوزیشن کو کرپٹ ثابت کرنے میں فواد چوہدری صاحب سب سے آگے ہیں ان حالات میں حامد خان صاحب کی طرف سے لگایا گیا الزام نہ صرف فواد چوہدری بلکہ اُن کے مرحوم چچا سابق چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جناب افتخار چوہدری صاحب اور اُن کے خاندان کے ماتھے پر ایک بدنما داغ ہے۔
فواد چوہدری کا تعلق جہلم کے رہنے والے سابق گورنر پنجاب جناب الطاف حسین کی فیملی سے ہے اس میں کوئی شک نہیں چوہدری الطاف حسین اور اُن کی فیملی کا جہلم کی سیاست میں ہمیشہ اہم کردار رہا چوہدری الطاف حسین اپنی زندگی میں دو دفعہ 1956 اور 1990 میں پارلیمنٹ کے ممبر بنے 1993 میں پاکستان پیپلز پارٹی نے ان کو گورنر پنجاب تعنیات کیا اور یہاں سے چوہدری فواد فیملی کا سنہرا دور شروع ہوتا ہے 1994 میں چوہدری الطاف حسین کے بھائی افتخار چوہدری صاحب کو لاہور ہائی کورٹ میں جسٹس تعنیات کیا گیا(اُس وقت چوہدری الطاف حسین گورنر پنجاب تھے)جنرل مشرف نے جب ملک میں ایمرجنسی نافذ کی تو افتخار چوہدر ی صاحب اُن جج صاحبان میں شامل تھے جنہوں نے پی سی او کے تحت حلف اٹھایا 2 200 میں جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں افتخار چوہدری صاحب چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ بنے تو جنرل مشرف صاحب کے دور حکومت میں چوہدری فواد کے کزن اور چوہدری الطاف حسین کے بیٹے چوہدری فرخ الطاف ضلع ناظم جہلم تھے۔
ان کے چچا چوہدری جاوید تحصیل ناظم دینہ تھے اور ان کے ایک اور چچا چوہدری شہباز حسین وفاقی وزیر برائے بہبود آبادی تھے اس دور میں بھی ان کی فیملی کی کرپشن کی کہانیاں جہلم کے لوگوں کی زبان پر تھی یہ بات ماننے والی ہے کہ فواد چوہدری بلا کے ذہین انسان اور مختلف قسم کی صلاحیتوں سے مالا مال ہیں جب وہ میڈیا کے ساتھ منسلک تھے تو بڑئے کم وقت میں میڈیا میں اُنھوں نے اہم مقام حاصل کیا اس طرح سیاست میں خواہ وہ جنرل پرویز مشرف کی آل پاکستان مسلم لیگ تھے یا مسلم لیگ ق میں ، پاکستان پیپلز پارٹی میں تھے یااب پاکستان تحریک انصاف میں وہ ہمیشہ پہلی صف میں نظر آئے اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ الیکشن میں جہلم سے وہ اُس سیٹ سے جیت کے آئے جو جنرل پرویز مشرف کے دور میں بھی مسلم لیگ (ن) کے پاس تھی لیکن حامد خان صاحب کی طرف سے لگایا جانے والا الزام سنجیدہ نوعیت کا ہے جس کا جواب چوہدری فواد حسین کو کو دینا فرض ہے۔
میڈیا نے جب بھی چوہدری فواد سے اس الزام کے متعلق بات کی تو وہ یہ کہہ کر پہلو تہی کر گئے کہ سیاست میں الزامات لگتے رہتے ہیںلیکن چوہدری فواد صاحب کو ایک بات یاد رکھنی چاہیے کہ سیاست میں صرف الزامات لگائے نہیں جاتے جواب بھی دینے پڑتے ہیں حامد خان کی طرف سے لگایا گیا الزام صرف فواد چوہدری اور افتخار چوہدری صاحب پر ہی نہیں بلکہ اعلی عدلیہ پر بھی سنگین نوعیت کا ہے اور چیف جسٹس آف پاکستان جناب آصف سعید کھوسہ صاحب جو عدلیہ میں ہونے والی کرپشن کی روک تھام کے لیے سنجیدہ ہے اُن کو بھی چاہیے کہ وہ اس طرح کے الزامات کی انکوائری کروائے تا کہ چیف جسٹس جیسے اعلی عہدہ پر فائز رہنے والی شخصیت تاریخ میں سرخرو ہو سکیں۔۔۔۔۔