تحریر: ڈاکٹر خالد فواد الازہری مسلمان کا عقیدہ اللہ تعالیٰ اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت پر ایمان و یقین سے شروع ہوتاچونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات عالی صفات پر ہی اللہ رب العزت نے انبیاء ورسل کے سلسلہ کو مکمل فرمایا۔محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ عزوجل کی جانب سے آخری پیغمبر ہیں جن کو تاقیامت تک نوع انسانیت کی رہنمائی کے لیے مبعوث کیا گیا۔نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متبعین نے آپ کے پیغام و دعوت کو بغیر کسی کمی بیشی کے مشرق و مغرب کے تمام نوع بشر تک امانت و دیانت کے ساتھ منتقل کیا۔
اسلام کے راہ میں مخربین و دشمنوں نے مختلف ہتھیاروں سے روڑے اٹکانے کی کوشش کی انہوں گرم و سرد جنگیں بھی مسلط کیں ،انہی میں سے ایک سرد جنگ یہ بھی تھی کہ نفس دین میں تخریب نقب لگایا جائے اور وہ یہ کہ نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کو آخری نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تسلیم نہ کیا جائے بلکہ آپ کے بعد بھی نبوت کو سلسلہ کو جاری و ساری ماننے کا عقیدہ وضع کیا گیا۔یہ ایک ایسا پہلو ہے کہ جو دشمنان اسلام کی تمام ترکوششوں میں سب سے زیادہ خطرناک و مضر ثابت ہوا، اس کے وجود سے جہاں ملت اسلامیہ کو پارہ پارہ کرنے کی کو شش کی گئی وہیں پر اس عقیدہ کے وجود سے اصل اسلام کی صورت کو مشتبہ بنانے کی ناکام کوشش بھی ہوئی۔
قرآن مجید میں مذکور لفظ ”الرسول”و ”النبی” ہیں اور اس پر حوار و کلام کا آغاز ہوا ہر ایک اپنے تئیں معنی الرسول اور النبی کا معنی بیان کرنے کی کوشش کی۔اس کلام کے اختتام پر یہ نتیجہ حاصل ہواکہ سب رسول نبی ہیں جبکہ سب نبی رسول نہیں ہیںکیوں کہ رسول اللہ رب العزت کی طرف سے نئی شریعت کو لے کر آتے ہیں اور اس کی دعوت دیتے ہیں جبکہ نبی سابقہ شریعت کی دعوت و تبلیغ کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں۔اسی لیے قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر کرتے ہوئے فرمایاکہ”نہیں ہیں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تم میں سے کسی کے باپ لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور نبوت کے سلسلہ کو ختم کرنے والے”اس آیت سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے آخری نبی ورسول ہیںاور جب آپ آخری نبی و رسول ہیں تو اس کا واضح مطلب یہ ہواکہ آپۖ کے بعد کوئی نبی و رسول نہیں آئے گا بلکہ آپ پر نبوت و رسالت کا سلسلہ منقطع فرمادیاگیاہے۔ یہ ایک عبث امر ہے اور اس کے ذریعہ دعوت اسلام کو نقصان پہنچانے اور جاہلیت کومضبوط بنانے اور اسلام کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے کی ایک سخت سازش یہ ہے کہ ختم نبوت کے مسلمہ عقیدہ کا انکار کیا جائے۔
Quran
مکار انگریزکی خباثت اس قدر مضبوط و طاقتور ثابت ہوئی ہے کہ جب وہ مسلمانوں سے ان کے مسلم فریضہ جہاد کی اہمیت و ثبات کے سبب جنگی میدان میں شکست سے دوچار ہوئے تو انہوں نے مسلمانوں کو داخلی طور پر کمزور کرنے کے لیے بعض ذاتی منفعت پسندوں اور جہلاء کے ذریعہ سے ختم نبوت کے انکار کا عقیدہ وضع کروایا تاکہ اس ذریعہ سے دین اسلام میں تحریف اور اہمیت جہاد کو مٹاسکے۔مسلمانوں کا اصل عقیدہ جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ سے لے کر آئے ہیںاور قرآن مجید میں جس کا بیان ہے وہ خالص و صحیح ہے اور عقل انسانی و اہل بصیرت کی نظر میں قابل قبول بھی ہے۔
عقیدہ ختم نبوت سے متعلق ہم نہیں دیکھتے کہ صحابہ کرام میں سے کسی نے بھی اس پر اشکال و اعتراض کیا ہو ۔صحیح احادیث میں وارد ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرو فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آئے کہ ہم اس وقت حلقہ کی شکل میں موجود تھے،آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ”میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نبی امی ہوں ،میں محمد نبی امی ہوں، میں محمد نبی امی ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں”حضرت ابوھریرہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ”میری مثال اور انبیا کی مثال جو مجھ سے قبل آئے ایسے ہیں کہ ایک انسان اچھا اور خوبصورت گھر تعمیر کرے الا یہ کہ اس کے ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ باقی رہ جاتی ہے پس لوگ اس کے گرد چکر لگاتے ہیں اور حیرت و تعجب کے ساتھ کہتے ہیں کہ کیایہاں اینٹ رکھ دی گئی ؟اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایاکہ میں ہی وہ اینٹ ہوں اور میں انبیاء کے سلسلہ کو ختم کرنے والا ہوں”۔یہ اور اس طرح کی دوسری احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مسلمانوں کا عقیدہ ختم نبوت مستقیم ہوتاہے۔کتاب مقدس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے متعلق خبروں سے یہود خوف زدہ تھے کہ آپ کی بعثت کے ساتھ نبوت کا سلسلہ منقطع ہوجائے گا۔
اسلام کے خلاف سازشیں کرنے والے اور اللہ تعالیٰ ،اپنے ضمیر اور لوگوں پر جھوٹ بولنے والے بہت زیادہ ہیں ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلے ہی واضح فرمادیا تھا کہ میری امت میں جھوٹے لوگ ظاہر ہوں گے اور وہ یہ سمجھتے ہوں گے کہ وہ نبی ہے اور میں نبوت کے سلسلہ کو ختم کرنے والا ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں”دین کی تکمیل درحقیقت نبوت ورسالت کے سلسلہ کی تکمیل ہی ہے ،جیسے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایاہے کہ”آج کے دن ہم نے تمہارے لیے دین کو مکمل کردیا ہے اور تم پر اپنی نعمتیں پوری کردی اور ہم نے اسلام کو تمہارے لیے دین کے طور پر پسند کرلیا”یہودیت کے منہج اور اسلوب شریعت میں روحانیات پر اکتفا کیا جاتاہے اور طبائع انسانی سے روگردانی اختیار کی جاتی ہے۔حضرت عیسی جو کہ اللہ کی کتاب انجیل کے ساتھ مبعوث ہوئے اس میں بہت پہلے سے ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کی خوشخبری دی جس کا ذکر قرآن میں بھی موجود ہے”میں خوشخبری دیتاہوں کے میرے بعد ایک رسول آئے گا جس کا نام احمد ہوگا”۔مگر بعض کم فہم اور سازشی ذہنوں نے عربی زبان پر کم گرفت و عبور کی وجہ سے اس سے یہ نتیجہ نکالا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد رسول کا ظہور تو ممکن نہیں لیکن نبی ظاہر ہوتے رہیں گے کیوں کہ اس آیت میں خوشخبری رسول کی دی گئی ہے نہ کہ نبی کے ظہور کی۔
ایسی بہت سی جھوٹی روایات نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر گھڑی گئی ہیں اور یہ ایک سوچی سمجھی سازش کے ساتھ مسلمانوں کو جہاد اور کائنات میں غوروفکر اور اس کی قیادت کو سنبھالنے جیسے عظیم فرائض سے دور کرنے کی سازش کے طور پر یہ تصورات و عقائد پیداکیے گئے۔ اس سازشی منصوبہ بندی سے بعض جہلاء یہ سمجھ بیٹھے کہ اسلام ناقص ہے اور اس میں تعدیل و توظیف کی ضرورت ہے ،وہ اس ذریعہ سے اسلام کے ثوابت کے ساتھ کھیلنے اور قران و احادیث کی آیات کی غلط تاویل کرنے کے راستوں کی کھوج لگانے لگے،افسوس ہے کہ یہ لوگ عربی زبان کی حقیقت کو سمجھنے سے عاری اور اس کی بلاغت و اسلوب بیان کو سمجھنے میں ناکام و عاری ہیں،اس لیے وہ کوئی درست و مبنی برحق نتیجہ حاصل کرنے سے عاجز رہے ہیںظلم یہ کہ انہوں نے آیات کو جامد ٹھہرانے کی کو شش کی تاکہ اس ذریعہ سے یہ بددیانت و خائن لوگ انگریز و اسلام دشمنوں کی چوری و سرکشی اور ان کے ظلم و ستم کے سلسلہ میں ان کی مدد کرسکیں۔اسلام کی غلط تعبیر پیش کی جبکہ یہ مسلمہ بات ہے کے اللہ ہی کے لیے حکم و امر ہے پہلے بھی اور بعد میں بھی اور دشمنان اسلام ہمیشہ کی طرح تاقیامت ذلیل و رسوا اور ناکام و نامراد ہوں گے۔مسلمان اس امر کے محتاج و ضرورت مند ہیں کے دین کی درست تفہیم حاصل کریں ناکہ وہ کسی نئی خودساختہ جھوٹے دھوکے باز و فراڈی مدعی نبوت کے ظہور انتظار میں ذلت و تاریک کی دلدل میں داخل ہوں۔
Dr.Khalid Fuaad
تحریر: ڈاکٹر خالد فواد الازہری (چئیرمین بعثہ الازہریہ) [email protected]