تحریر : میر افسرا مان، کالمسٹ ختم نبوت کی شک جو آئین ِپاکستان میں شامل تھی۔ اس کو نواز شریف کے حکم اور امریکا کی اشیر آباد پر ختم کرنے کی کوشش کے خلاف، لبیک یا رسولۖ اللہ پارٹی کے رہنمائوں نے کئی ہفتے پہلے فیض آباد پر احتجاجی دھرنا شروع کیاتھا۔ پر امن دھرنے کے شرکاء کا جائز مطالبہ ہے کہ وزیر قانون، جس نے یہ بل پارلیمنٹ میں پیش کیا اس کو وزارات قانون سے فارغ کیا جائے۔ تاکہ آیندہ کوئی بھی اس طے شدہ مسئلہ کو دوبارہ چھیڑنے کی کوشش نہ کرے۔ اس میں شک نہیں کہ دھرنے سے روالپنڈی اسلام آباد لوگوں کو اس تکلیف پہنچ رہی تھی۔ مگر اتنے بڑے مذہبی معاملے پر اگر کچھ دن لوگ تکلیف برادشت نہ کر سکیں تو یہ بھی سوچنے کی بات ہے۔ اس میں بھی شک نہیں کہ ایک نیک مقصد حاصل کرنے کے لیے دھرنے والوں کی طرف سے نازیبا اور گالیوں والی زبان استعمال کی گئی۔حکومت کو اس مسئلے کا ادراک کر کے مسئلہ دو دن میں حل کر سکتی تھی۔ مگر حکومت نے اس مسئلے کو جان بوج کر حل نہیں کیا۔
بلکہ حکومت کے وزیروں کی طرف سے بیانات داغے گئے کہ وزیر قانون استیفیٰ کیوں دے۔ نواز شریف کے داماد صفدر صاحب نے بیان دیا کہ دھرنے سے تو ایک تھانے دار بھی استیفیٰ نہیں دینا وزیر قانون کیوں استیفیٰ دے۔ کیا ن لیگ حکومت اس سے قبل ملک کی مسلح افواج کے خلاف اپنے غلط کاموں کی پادائش میں اپنی پارٹی کے ایک سینیٹر اور دوسری بار فوج کے خلاف ڈان لیک کیس میں وزیر اطلاعات اور دو افراد کو فارغ نہیں کر چکی۔تازہ غلطی ختم نبوت کی شک تبدیل کرنے پر بھی وزیر قانون کو فارغ کر سکتی تھی۔ خاص کر فیض آباد دھرنے اور ملک میں دوسری جگہوں پر احتجاج پر تو فوراً وزیر قانون کو فارغ کر کے ملک میں ان وامان قائم کر سکتی تھی۔ مگر کچھ حلقوں کے مطابق حکومت جان بوجھ کر اس معاملے کو الجھانا چاہتی تھی۔ کوئی مانے نہ مانے مگر نوازشریف کو یہ بات سمجھ آگئی ہے کہ پاکستان میں اب اس کی سیاست ختم ہو گئی ہے۔ بلکہ اس کو ملک کا لوٹا ہوا پیسہ بھی واپس غریب عوام کے خزانے میں داخل کرنا پڑے گا۔ اس پر نواز شریف ملک کی فوج اور اعلیٰ عدلیہ پر حملے کر رہا ہے۔ اس کا یجنڈا ہے کہ میں نہیں تو ملک نہیں۔ اس ایجنڈے پر عمل پیرا ہے کہ ملک میں افراتفری پیدا ہو اور وہ اپنے مخصوص مقاصد حاصل کر سکے۔ یہ معاملہ خاص کر نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ ایک طرف پارلیمنٹ میں ختم نبوت شک ختم کرنے کے لیے پیش کی گئی جس پر لے دے شروع ہوئی۔ جماعت اسلامی کے ممبر نے اس بل کے خلاف پانچ ترمیمیں پیش کیں۔ مگر اس کو اکژیت کی بنیاد پر بلڈوز کر دیا گیا اور ایک نہ سنی گئی۔ سینیٹ میں اس ترمیم کو جے یو آئی کے سینیٹر نے ٹیبل کیا۔
اپنی مخصوص پالیسی پر عمل کرتے ہوئے ملک کے احساس معاملے پرپہلے نواز شریف نے اپنے دامادسے پارلیمنٹ میں یہ بیان دلوایا گیا کہ فوج اور سول ملازمتوں میں سے قادیانیوں کو نکالا جائے۔ اس کے بعد پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ جو ماڈل ٹائون میں١٤ افراد کے قتل کے الزام کاسامنا کرنے والوں میں شامل ہے سے بیان دلوایا گیا کہ قادیانی مسلمان اور ہمارے بھائی ہیں بس صرف علماء کو کچھ اختلاف ہے۔ راناء ثنا اللہ ایک قانون دان ہیں اور اچھی طرح سمجھتے بھی ہیں کہ ١٩٧٤ء کے آئین میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا ہے۔ جانتے بوجھتے ہوئے پھر بھی انہوں نے ایسا بیان کیوں دیا؟ان کے خلاف ملک میں احتجاج شروع ہوا۔ کئی دنوں سے حکومت کے بیان آرہے تھے کہ ہم دھرنے والوں پر کسی قسم کا تشدد کرنے کے قائل نہیں۔ اسی قسم کے سپریم کورٹ نے بھی ریکارکس دیے تھے۔ بلا آخر حکومت نے کورٹ کے حکم پر فیض آباد دھرنے والوں کو اُٹھانے کے لیے آپریشن کلین اپ شروع کیا۔
کیا ہی اچھا ہوتا کہ دھرنے والوں کا جائز مطالبہ، جس کو ملک کی ساری دینی جماعتوں کی حمایت حاصل تھی مان لیا جاتا اور وزیر قانون کو فارغ کر دیا جا تا۔مگر ن لیگ کی حکومت جو پل پل میں نواز شریف سے ہدایا ت لی رہی ہے جس نے جان بوجھ کر معاملہ خراب کیا۔ دھرنے والوں کے خلاف کریک ڈائون شروع کیا۔ اخباری اطلاع کے مطابق کریک دائون میں ٨٥٠٠ سیکورٹی اہلکار شریک ہوئے۔اس کاروائی میں اسلام آباد، پنجاب، آزاد کشمیر پالیس اور ایف سی والے شامل ہیں۔ موبائل سروس کئی دنوں سے بند کی ہوئی ہے۔ ایک دن پہلے کھانے پینے کی رسد روک دی گئی ۔دھرنے والے پر آنس گیس کے شل پھینکے گئے۔ دھرنے والے یہی آنسو گیس کے شل واپس سیکورٹی والوں پر پھینکتی رہے۔ واٹر کین استعمال کی گئی۔ربر کی گولیاں چلائی گئی۔ لاٹھی چارج کیا گیا۔ کئی کارکنوں کو گرفتار کر لیا۔ صبح سے آنکھ مچولی شروع ہے۔ دھرنے والے پیچھے ہٹے تو ان کے خیموں کو آگ لگا دی۔ کینٹینر میں بیٹھے لیبیک یا رسولۖ اللہ کے روں دواں علامہ خادم حسین رضوی صاحب تک پولیس گرفتار کرنے کے لیے نہیں پہنچ سکی۔ پہلے پولیس نے مظاہرین کو پیچھے دکیل دیا۔
پھر کینٹینر سے اعلانات ہوتے رہے کہ واپس اپنی جگہوں پر آجائے۔ کارکن واپس کینٹینر کے ارد گرد واپس آگئے۔ کینٹینرسے علماء ،دین اپنی تقریوں سے کارکنوں کے حوصلے بڑھا رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ملک بھر سے خبریں جمع کی جا رہیں ہیں۔ آیا آیا دین آیا ،تاج دار ختم نبوت اور لبیک لبیک کے نعرے لگائے جا رہے ہیں۔ کارکن ان نعروں کا جواب دے رہے ہیں ۔ مری روڈ فیض آباد کے قریب سابق وزیر دخلہ کے گھر پر پتھرائو کیا گیا۔ گھر کے سامنے آنسو شل فائر کرنے والی گاڑی سے مظا ہرین پر شل پھینکے گئے۔ کئی مظاہرین کو گرفتار کر لیا گیا۔ اسی کے قرین مظاہریں اور سیکورٹی افراد ذکمی ہوئے جنہیں پم اور بے نظیر ہسپتال میں طبی امداد کے لیے داخل کیا گیا۔ایک پولیس والے کو مظاہرین نے پکڑ لیا اور اس پر تشدد کیا گیا۔ کینٹینر سے ایک کارکن کے شہید ہونے کی بھی خبر بھی نشر کی گئی۔ مشتعل کارکنوں نے پولیس کی پانچ گاڑیوں آگ لگا دی۔٩٢ٹی وی نے خبر دی کہ اس کی نشریات روالپنڈی، اسلام آباد اور لاہور وغیرہ میں بند کر دی گئیں ہیں۔یہ خبر بھی آئی ہے کہ حکومت نے فوج کو بلانے کی سمری تیار کر لی ہے۔
فوج کو اہم عمارات پر سیکورٹی کے لیے لگایا جائے گا۔ لاہور میں مظاہرین صوبائی پارلیمنٹ کے طرف بڑھنے کی خبر بھی سوشل میڈیا پر نشر کی گئی۔ لاہور میں وکلا نے بھی احتجاجی مظاہرہ کیا۔ سوشل میڈیا پر مختلف ویڈیو سے خبریں آرہی ہیں ۔ اے کے انفارمیشن لائیو،میڈیالایئو ویڈیو،امتیاظ علی ویڈیو اور جلال میڈیا لائیو وغیرہ کے ذریعے پوسٹ آ رہی ہیں کہ ملک کے سارے شہروں میں فیض آباد کے دھرنے کے خلاف حکومت کے آپریشن پر شدیداحتجاج ہو رہا ہے۔ یہ خبر بھی آئی ہے کہ پیر سیال صاحب گرفتاری دینے کے لیے جیل کے دروازے پر پہنچ گئے۔ کراچی،اندرون سندھ، پنجاب، خیبر پختونخواہ، کھاریاں، گوجرنوالہ اور پورے ملک میں فیض آباد دھرنے کے خلاف کاروائی پر حکومت کے مخالف احتجاج شروع ہو گیا ہے۔ ملک کے سیاست دانوں کے بیانات آ رہے ہیں کہ حکومت کو راجہ ظفرالحق رپورٹ عام کر دینی چاہیے۔ اس رپورٹ کی روشنی میں جو لوگ بھی ختم نبوت کی شک کوسازش سے ختم کرنے میں شامل ہیں۔ان کے خلاف کاروائی کر کے اس کو کیفِ کرادر تک پہنچایا جائے۔وزیر قانون کا استیفیٰ لیا جائے انہیں گھر بھیجا جائے۔ دھرنے والوں کے مطابق پہلے وہ ڈکٹیٹر مشرف کے ساتھ شریک ہو کر دین کے خلاف قانون سازی میں شامل تھا۔اب نواز حکومت میں رہ کر دوبارا دین کے خلاف سازش کی ہے اس کو ضرور سزا ملنے چاہییے۔ اس کے بعد دھرنے والوں کو اپنا احتجاج ختم کر دینا چاہیے۔ اس سے ملک میں امن و آمان قائم ہو جائے گا جو اس وقت ملک کے لیے اہم ہے۔ اس تحریر تک تو دھرنا جاری ہے۔