تحریر : پروفیسر رفعت مظہر ناموسِ رسالتۖ کے نام پر کچھ افراد لاہور سے چلے اور بغیر کسی رکاوٹ کے فیض آباد انٹرچینج پر پہنچ کر راولپنڈی سے اسلام آباد جانے کا راستہ روک کر بیٹھ رہے۔ 22 دنوں تک جُڑواں شہروں کے شہریوں کی زندگی اجیرن رہی لیکن سانحہ ماڈل ٹاؤن لاہور سے خوفزدہ حکومت اِن ڈیڑھ ، دو ہزار افراد کا دھرنا ختم نہ کروا سکی۔ یہ وہی لوگ تھے جو دینِ مبیں کے نام پر اکٹھے ہوئے لیکن اُن کا کوئی ایک عمل بھی دین سے مطابقت نہیں رکھتا تھا۔ دھرنے کا سربراہ خادم حسین رضوی ججوں اور سیاستدانوں کو ننگی اور گندی گالیوں سے نوازتا رہا لیکن حکمران خاموش ”ٹُک ٹُک دیدم ، دَم نہ کشیدم ”کی عملی تصویر بنے رہے۔ 22 دنوں بعد 2 ہزار افراد کا دھرنا ختم کرنے کے لیے پولیس ،ایف سی اور رینجرز کے 8 ہزار اہلکاروں نے ایکشن کیا اور عین اُس وقت جب ایکشن تقریباََ 95 فیصد مکمل ہو چکا تھا ،فورسز نے ایکشن روک دیااور دھرنے کے شرکاء ایک دفعہ پھر اکٹھے ہوگئے۔ اِس ایکشن کی ناکامی کے بعد فوج کی مداخلت سے ایک شرمناک معاہدہ عمل میں آیا جس میں دھرنے والوں کی تمام شرائط پر سَرِ تسلیم خم کر دیا گیا۔
یہ دھرنا خالصتاََ سیاسی تھا ،البتہ آڑ ناموسِ رسالتۖ کی لی گئی۔ خادم حسین رضوی نے بَرملا کہا کہ اُن کی جماعت پورے پاکستان سے عام انتخابات میں حصّہ لے گی۔ اِسی جماعت کا ایک حصّہ اشرف جلالی کی سربراہی میں تاحال مال روڈ پر دھرنا دیئے بیٹھا ہے۔ اُن کا مطالبہ رانا ثناء اللہ کا استعفےٰ ہے۔ اب دو ملّاؤں میں اقتدار کی جنگ جاری ہے اور دونوں باہم جوتم پیزار۔ اشرف جلالی کہتے ہیں کہ وہ تحریکِ لبّیک کے سربراہ ہیں جبکہ سربراہی کا یہ دعویٰ خادم حسین رضوی بھی کر رہے ہیں۔ اشرف جلالی نے کہا کہ اُن کی جماعت کا نام تحریکِ لبّیک یا رسول اللہۖ ہے ،جس کے وہ سربراہ ہیں اور اُنہوں نے ہی اسلام آباد ڈی چوک میں 3 نومبر تک دھرنا دیا اور حکومت سے اپنے مطالبات منوائے ،جن پر عمل درآمد ابھی باقی ہے جبکہ خادم حسین رضوی کی جماعت کا نام تحریکِ لبّیک ہے اور اُنہوں نے بعد میں دھرنا دیا اِس لیے ناموسِ رسالتۖ پر دیئے جانے والے دھرنے کا سارا کریڈٹ اُنہی کا حق ہے۔ اُدھر خادم حسین رضوی ، اشرف جلالی کی سربراہی سے یکسر انکاری ہیں اور اب نوبت ایک دوسرے کے خلاف فتوؤں تک پہنچ چکی ہے۔ خادم حسین رضوی وزیرِ قانون زاہد حامد کے استعفے کا سارا کریڈٹ سمیٹ رہے ہیںجبکہ اشرف جلالی کہتے ہیں کہ زاہد حامد تو ختمِ نبوتۖ کا بَرملا اظہار کر چکے ۔ جب اُن سے یہی سوال رانا ثنا ء اللہ کے بارے میں کیا گیا اور کہا گیا کہ رانا ثناء اللہ بھی ختمِ نبوت پر کامل یقین رکھتے ہیں تو جلالی صاحب نے کہا کہ اُنہیں یقین نہیں ،اِس لیے اُن کا استعفےٰ ضروری ہے۔ جب اشرف جلالی یہ بات کر رہے تھے تو ہمیں حضرت علامہ اقبال کا یہ شعر یاد آیا
میرے لیے تو اقرار باللساں بھی بہت ہزار شکر کہ مُلّا ہے صاحبِ تصدیق
اب اِن دو ”ملّاؤں” کی وجہ سے وطنِ عزیر بحرانوں کی زَد میں ہے اور اقوامِ عالم میں پاکستان کا امیج بُری طرح مجروح ہو چکا ہے۔ ایسی غلیظ سیاست کبھی دیکھی نہ سُنی ،لیکن ”خود کردہ را علاجِ نیست”کے مصداق سارا قصور تو اُن رہنماؤں کا ہے جو گزشتہ سات عشروں سے اقتدار کی جنگ میں مصروف ہیں،ملک وقوم کی تو کسی کو پرواہ ہی نہیں۔ اگر اِن کا مطمح نظر ملک وقوم کی بہتری ہوتا تو ایسے سانحے کبھی جنم ہی نہ لیتے۔ بھلا یہ کیسے ممکن تھا کہ ہزار ،دوہزار افراد حکومتی رِٹ کو چیلنج کرتے اور کامیاب بھی ہو جاتے۔ یہاں تو صورتِ حال یہ ہے کہ سیاستدان اِس انتظار میں رہتے ہیں کہ کب حکومت کوئی غلطی کرے اور حکومتی رِٹ چیلنج ہو اور کب اُس کا ساتھ دے کر وہ خود اقتدار پر قابض ہوں۔ دیکھا گیا ہے کہ جب ایسا کوئی بھی واقعہ ہوتا ہے تو سب سے پہلے حکومت سے استعفےٰ مانگا جاتا ہے۔ اِس دھرنے کے خاتمے پر بھی کپتان نے جھَٹ سے اپنا ”قبل اَزوقت انتخابات” کا نعرہ لگا دیا۔ اُن کا خیا ل ہے کہ شاید قبل اَز وقت انتخابات سے وہ وزیرِاعظم بن جائیں گے۔ وزیرِداخلہ احسن اقبال نے کہاکہ سارا پاکستان تو وزیرِاعظم بن سکتا ہے لیکن عمران خاںنہیں، ہمارا بھی یہی خیال ہے۔
تحریکِ لبّیک کے دھرنے سے یہ حقیقت بھی قوم پر عیاں ہو گئی کہ ہر کسی نے اِس دھرنے پر اپنا سیاسی محل تعمیر کرنے کی کوشش کرتے ہوئے منافقت کی انتہا کر دی البتہ پیپلزپارٹی کا کردار مثبت ومستحسن رہا۔ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری نے کہا کہ حکومت سے استعفےٰ طلب کرنا ہماری جماعت کے مفاد میں تھا لیکن ہم جمہوریت کی مضبوطی کے لیے کھڑے ہیں۔ حقیقت یہی ہے کہ پیپلزپارٹی نے اپنی تمامتر خامیوں ،خرابیوں اور کوتاہیوں کے باوجود ہمیشہ جمہوری قوتوں کا ساتھ دیا ہے۔ 2014ء کے ڈی چوک اسلام آباد میں عمران خاں اور طاہر القادری کے مشترکہ دھرنے کے دوران پیپلزپارٹی ڈَٹ کر نوازلیگ کے ساتھ کھڑی رہی۔ اُس وقت تمام جمہوری قوتیں نوازلیگ کے ساتھ تھیں ،شاید اِسی لیے امپائر کی انگلی کھڑی نہ ہوسکی۔
موجودہ دھرنے سے پہلے پیپلزپارٹی اور نوازلیگ میں بہت دوریاں پیدا ہو چکی تھیں پھر بھی پیپلزپارٹی نے دھرنے کی مخالفت کی اور بیرسٹر اعتزاز احسن نے تو بَرملا کہہ دیا ”انتخابی اصلاحات بِل پارلیمنٹ نے منظور کیا ، اِس کے سب ذمہ دار ہیں”۔ اُن حالات میں جب حکومت بُری طرح پھنس چکی تھی ،اعتزاز احسن کی اِس سچائی کی جتنی بھی تعریف کی جائے ،کم ہے ۔جبکہ دوسری طرف جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام (ف) سمیت کسی بھی مذہبی جماعت نے مثبت کردار ادا نہیں کیا۔ تحریکِ انصاف تو اِس بات سے ہی انکاری تھی کہ ختمِ نبوت کے قانون میں کسی تبدیلی میں اُن کا بھی کوئی کردار تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ حلف نامے میں تبدیلی تو الیکشن اصلاحات کا ایک جزو تھا (جس کے ساتھ ہر گز چھیڑچھاڑ نہیں کی جانی چاہیے تھی)۔ یہ اصلاحات پارلیمان کی سَب کمیٹی ،جس میں تمام دینی اور سیاسی جماعتیں شامل تھیں، نے تیار کیں۔ اِصلاحات کی ایک ایک شِق پر طویل بحث ومباحثہ ہوا۔ دو سالوں کے دوران اِس سَب کمیٹی کے 126 اجلاس ہوئے ، پھر کہیں جا کر الیکشن اصلاحات بِل تیار ہوا۔ اِس بِل کی ایک ایک کاپی تقریباََ دو ماہ تک اراکینِ پارلیمنٹ کے پاس رہی۔ پھر یہ بِل پارلیمنٹ سے منظور ہوا۔ جب یہ بِل سینٹ میں پہنچا تو جمعیت علمائے اسلام کے حافظ حمد اللہ نے اِس کی ختمِ نبوتۖ شِق میں تبدیلی کی نشاندہی کی ،جس کی نوازلیگ کے سینیٹر نے مخالفت نہیں بلکہ حمایت کی۔ چنانچہ یہ طے ہوا کہ خٹمِ نبوت بِل کو اپنی اصلی حالت میں لوٹا کر پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے دوبارہ منظور کروایا جائے گا اور یہ منظور کروا بھی لیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے اراکینِ پارلیمنٹ صرف ہاتھ کھڑے کرنے کے لیے ہیں؟۔ اگر تحریکِ انصاف سمیت کسی بھی سیاسی جماعت نے اِس بِل کا مطالعہ کیا ہوتا تو نوبت یہاں تک نہ پہنچتی ۔ منافقت کی انتہا یہ کہ سوائے پیپلزپارٹی کے کوئی بھی سیاسی یا مذہبی جماعت اِس غلطی کا بوجھ اُٹھانے کو تیار نہیں ۔ یہی نہیں بلکہ سارا ملبہ نوازلیگ پر ڈالنے کی تَگ ودَو بھی کی جا رہی ہے۔