اسلام آباد (جیوڈیسک) حکومت نے ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں شامل کیے جانے والے 172 افراد کے ناموں کی فہرست جاری کردی۔
حکومت کی جانب سے جعلی اکاؤنٹس کی جے آئی ٹی رپورٹ میں جن افراد کے نام دیے گئے انہیں ای سی ایل میں شامل کرتے ہوئے فہرست جاری کردی جس میں آصف علی زرداری کا نام 24ویں نمبر پر ہے جب کہ بلاول بھٹو زرداری کا نام 27ویں اور فریال تالپور کا نام 36ویں نمبر پر ہے۔
وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کا نام فہرست میں 155ویں اور سابق وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کا نام 129ویں نمبر پر موجود ہے۔
فہرست میں رکن سندھ اسمبلی مکیش کمار چاولہ، سابق وزیر داخلہ سندھ سہیل انور سیال، سابق وزیر امتیاز شیخ کا نام بھی شامل ہے۔
فہرست میں سابق ڈی جی سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی منظور قادر، قائم مقام چیئرمین ایس ای سی پی طاہر محمود، ایس ای سی پی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر عابد حسین، ڈپٹی کمشنر ملیر قاضی جان محمد کے نام موجود ہیں۔
ای سی ایل فہرست میں عبدالغنی مجید اور کمال مجید سمیت اومنی گروپ کے 10 افراد کے نام شامل ہیں جن میں خواجہ سلمان یونس، محمد عارف خان، مصطفیٰ ذوالقرنین ماجد، نمر مجید خواجہ، نازلی مجید اور انور ماجد خواجہ کے نام بھی شامل ہیں۔
فہرست میں سندھ بینک کے صدر بلال شیخ، احسن طارق، منیجر ثروت عظیم، گروپ ہیڈ کریڈٹ ندیم الطاف جب کہ سمٹ بینک کے صدر احسان رضا درانی، آپریشنل منیجر سمٹ بینک محمد ناصر شیخ، نیشنل بینک کے صدر سید علی رضا، ہیڈ کارپورٹ مسعود کریم شیخ کے نام بھی شامل ہیں۔
یاد رہے کہ وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس کے دوران گزشتہ روز 172 افراد کے نام شامل کرنے کی منظوری دی گئی تھی۔
اس سے قبل 24 دسمبر کو جعلی بینک اکاؤنٹس کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی کے سربراہ احسان صادق نے سپریم کورٹ میں رپورٹ جمع کرائی تھی اور مذکورہ ناموں کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کی سفارش کی تھی۔
ایف آئی اے حکام کے مطابق منی لانڈنگ کیس 2015 میں پہلی دفعہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے اٹھایا گیا، اسٹیٹ بینک کی جانب سے ایف آئی اے کو مشکوک ترسیلات کی رپورٹ یعنی ایس ٹی آرز بھیجی گئیں۔
حکام کے دعوے کے مطابق جعلی اکاؤنٹس بینک منیجرز نے انتظامیہ اور انتظامیہ نے اومنی گروپ کے کہنے پر کھولے اور یہ تمام اکاؤنٹس 2013 سے 2015 کے دوران 6 سے 10 مہینوں کے لیے کھولے گئے جن کے ذریعے منی لانڈرنگ کی گئی اور دستیاب دستاویزات کے مطابق منی لانڈرنگ کی رقم 35ارب روپے ہے۔
مشکوک ترسیلات کی رپورٹ پر ڈائریکٹر ایف آئی اے سندھ کے حکم پر انکوائری ہوئی اور مارچ 2015 میں چار بینک اکاؤنٹس مشکوک ترسیلات میں ملوث پائے گئے۔
ایف آئی اے حکام کے دعوے کے مطابق تمام بینک اکاؤنٹس اومنی گروپ کے پائے گئے، انکوائری میں مقدمہ درج کرنے کی سفارش ہوئی تاہم مبینہ طور پر دباؤ کے باعث اس وقت کوئی مقدمہ نہ ہوا بلکہ انکوائری بھی روک دی گئی۔
دسمبر 2017 میں ایک بار پھر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے ایس ٹی آرز بھیجی گئیں، اس رپورٹ میں مشکوک ترسیلات جن اکاؤنٹس سے ہوئی ان کی تعداد 29 تھی جس میں سے سمٹ بینک کے 16، سندھ بینک کے 8 اور یو بی ایل کے 5 اکاؤنٹس ہیں۔
ان 29 اکاؤنٹس میں 2015 میں بھیجی گئی ایس ٹی آرز والے چار اکاؤنٹس بھی شامل تھے۔ 21 جنوری 2018 کو ایک بار پھر انکوائری کا آغاز کیا گیا۔
تحقیقات میں ابتداء میں صرف بینک ملازمین سے پوچھ گچھ کی گئی، انکوائری کے بعد زین ملک، اسلم مسعود، عارف خان، حسین لوائی، ناصر لوتھا، طحٰہ رضا، انور مجید، اے جی مجید سمیت دیگر کو نوٹس جاری کیے گئے جبکہ ان کا نام اسٹاپ لسٹ میں بھی ڈالا گیا۔
ایف آئی اے حکام کے مطابق تمام بینکوں سے ریکارڈ طلب کیے گئے لیکن انہیں ریکارڈ نہیں دیا گیا، سمٹ بینک نے صرف ایک اکاؤنٹ اے ون انٹرنیشنل کا ریکارڈ فراہم کیا جس پر مقدمہ درج کیا گیا۔
حکام نے مزید بتایا کہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے سمٹ بنک کو ایکوٹی جمع کروانے کا نوٹس دیا گیا، سمٹ بینک کے چیئرمین ناصر لوتھا کے اکاؤنٹس میں 7 ارب روپے بھیجے گئے، یہ رقم اے ون انٹرنیشنل کے اکاؤنٹ سے ناصر لوتھا کے اکاونٹ میں بھیجی گئی تھی۔
ناصر لوتھا نے یہ رقم ایکوٹی کے طور پر اسٹیٹ بینک میں جمع کروائی، ان 29 اکاؤنٹس میں 2 سے 3 کمپنیاں اور کچھ شخصیات رقم جمع کرواتی رہیں۔
حکام نے بتایا کہ تحقیقات کے بعد ایسا لگتا ہے کہ جو رقم جمع کروائی گئی وہ ناجائز ذرائع سے حاصل کی گئی، ان تمام تحقیقات کے بعد جعلی اکاؤنٹس اور منی لانڈرنگ کا مقدمہ درج کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
اومنی گروپ کے مالک انور مجید اور سمٹ بینک انتظامیہ پر جعلی اکاؤنٹس اور منی لاڈرنگ کا مقدمہ کیا گیا جبکہ دیگر افراد کو منی لانڈرنگ کی دفعات کے تحت اسی مقدمے میں شامل کیا گیا۔