جعلی اکاؤنٹس کیس: سپریم کورٹ کا بلاول اور مراد علی شاہ کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم

Murad Ali Shah - Bilawal Bhutto

Murad Ali Shah – Bilawal Bhutto

اسلام آباد (جیوڈیسک) جعلی بینک اکاؤنٹس کے ذریعے منی لانڈرنگ کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے پیپلز پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ، ایڈووکیٹ فاروق ایچ نائیک، ان کے اہلخانہ اور اٹارنی جنرل انور منصور خان کے بھائی کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نکالنے کا حکم دیتے ہوئے جعلی بینک اکاؤنٹس کا معاملہ تحقیقات کے لیے قومی احتساب بیورو (نیب) کو بھیج دیا۔

عدالت عظمیٰ نے جعلی بینک اکاؤنٹس کا معاملہ نیب کو بھجواتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ ‘نیب 2 ماہ کے اندر جے آئی ٹی رپورٹ کی روشنی میں ازسر نو تفتیش کرے’۔

ساتھ ہی چیف جسٹس نے حکم دیا کہ ‘نیب بلاول بھٹو زرداری اور مرادعلی شاہ سے آزادانہ تحقیقات کر سکتا ہے اور تحقیقات کے بعد اگر ریفرنس بنتا ہو تو اسے دائر کیا جائے’۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس فیصل عرب پر مشتمل سپریم کورٹ بینچ نے آج جعلی بینک اکاؤنٹس کے ذریعے منی لانڈرنگ کیس کی سماعت کی۔

سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل نے عدالت عظمیٰ کو آگاہ کیا کہ ‘وفاقی کابینہ نے ای سی ایل میں ڈالے گئے 172 ناموں کا معاملہ جائزہ کمیٹی کو بھجوا دیا ہے اور 10 جنوری کو اس معاملے میں مزید پیشرفت متوقع ہے’۔

اس موقع پر اومنی گروپ کے وکیل نے کہا کہ ‘معاملہ کمیٹی کو بھجوا کر الجھا دیا گیا ہے، معلوم نہیں کمیٹی کب اقدامات کرے’۔

’ای سی ایل سے نام نکلنے کے باوجود کسی کو بھی تفتیش سے استثنیٰ حاصل نہیں‘

جس پر چیف جسٹس ثاقب نثار نے اومنی گروپ کے وکیل کی بات پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ‘ریمارکس دیئے کہ آپ کو مسئلہ ہے تو کابینہ کو چھوڑیں، میں ای سی ایل میں نام ڈال دیتا ہوں’۔

چیف جسٹس نے اومنی گروپ کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ‘آپ اصل کیس کی طرف نہیں آ رہے’۔

چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ ‘اومنی گروپ کے خلاف اتنا مواد آ چکا ہے کہ کوئی آنکھیں بند نہیں کر سکتا، اوپر سے چینی کی بوریاں بھی اٹھالی گئیں، یہ بتائیں کہ معاملہ اب کس کورٹ کو بھیجیں؟’

دوران سماعت چیف جسٹس نے جے آئی ٹی کے وکیل سے استفسار کیا کہ ‘پہلے یہ بتائیں کہ بلاول زرداری کو کیوں ملوث کیا گیا، وہ معصوم بچہ ہے، جو صرف اپنی والدہ کی لیگیسی کو آگے بڑھا رہا ہے، آپ نے اس کا نام بھی ای سی ایل میں ڈال دیا’۔

ساتھ ہی چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ‘کیا جے آئی ٹی نے بلاول زرداری کو بدنام کرنے کے لیے انہیں معاملے میں شامل کیا ہے یا کسی کے کہنے پر بلاول زرداری کو شامل کیا؟’

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ‘بلاول بھٹو زرداری کا کیریئر ابھی تک بے داغ ہے، ان کے والد اور پھوپھی کا تو اس معاملے میں کوئی کردار ہوگا لیکن بلاول کا کیا کردار ہے؟ جے آئی ٹی بلاول بھٹو زرداری سے متعلق مطمئن کرے’۔

جس پر جے آئے ٹی وکیل فیصل صدیقی نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ ‘جے آئی ٹی رپورٹ کے صفحہ 57 پر پارک لین کی ایک پراپرٹی کا ذکر ہے، جسے جعلی اکاؤنٹس سے خریدا گیا اور اس جائیداد میں بلاول بھٹو کے 25 فیصد شیئر ہیں’۔

جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ‘اگر شیئر ہیں تو کیسے ثابت ہوا کہ بلاول نے کوئی جرم کیا ہے؟ جائیداد کو منجمد کر دیتے ہیں لیکن اس بنیاد پر بلاول کا نام ای سی ایل میں نہیں ڈالا جا سکتا’۔

دوران سماعت ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے عدالت کے روبرو کہا کہ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کو شامل تفتیش کیے بغیر ان کا نام ای سی ایل میں ڈال دیا گیا۔

جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ‘مراد علی شاہ کی عزت نفس مجروح کی جا رہی ہے، دیکھ تو لیتے کہ وہ ایک صوبے کے وزیراعلیٰ ہیں، کس ملک میں ایسا ہوتا ہے کہ دوسرے بڑے صوبے کے وزیراعلیٰ کا نام ای سی ایل میں ڈالا جائے’۔

چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیئے کہ ‘صرف سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے بلاول بھٹو زرداری اور مرادعلی شاہ کے نام شامل کیے گئے’۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے اومنی گروپ کے وکیل منیر بھٹی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ‘جعلی اکاؤنٹس کا تعلق اومنی اور سیاستدانوں سے ہے، لیکن آپ مت سمجھیں کہ آپ کو مجرم ٹھہرائیں گے، ابھی مقدمہ انکوائری کے مراحل پر ہے،آپ جاکر اس کا دفاع کرسکتے ہیں’۔

ساتھ ہی چیف جسٹس نے کہا کہ ‘آپ عدالت کو تسلی کرائیں کہ آپ کا مؤکل کیسے دنوں میں ارب پتی بن گیا اور پیسے درختوں پر لگنے شروع ہوگئے، ہم نہیں کہتے کہ لانچوں کے ذریعے آئے’۔

اس موقع پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ‘اومنی گروپ کے وکیل منیر بھٹی سے استفسار کیا کہ آپ کے مؤکل کی کتنی ملیں ہیں’۔

جس پر وکیل نے جواب دیا کہ ‘میرے مؤکل کی 8 ملیں ہیں’۔

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ سبسڈی کے معاملے پر کوئی غیر قانونی کام نہیں کیا گیا۔

جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ ‘بھٹی صاحب سندھ حکومت چینی پر 2 روپے زیادہ سبسڈی دے رہی ہے’۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ‘پیسے کی بندر بانٹ پر اومنی گروپ نے شوگر ملیں لی ہیں ان کا کیا کریں؟’

جس پر وکیل اومنی گروپ نے کہا کہ ‘جے آئی ٹی کی طرف سے دیئے گئے اعدادوشمار ریکارڈ پر نہیں’۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ‘آپ کو تو معاملہ ٹرائل عدالت بھجوانے پر اصرار کرنا چاہیے، اگر ہم اس رپورٹ کو قبول کر لیں تو آپ کے پاس کوئی راستہ نہیں رہ جائے گا’۔

جس پر وکیل منیر بھٹی نے جواب دیا کہ ‘اس رپورٹ میں ہمارے فاروق ایچ نائیک پر بھی الزامات ہیں’۔

جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ‘فاروق ایچ نائیک ہمارے بھی تو ہیں،آپ ان کی فکر چھوڑیں’۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ‘مطمئن ہونا ہے کہ اومنی گروپ کا سیاستدانوں سے گٹھ جوڑ ہے یا نہیں’۔

جس پر وکیل منیر بھٹی نے کہا کہ ‘عدالت کو دیا گیا تاثر درست نہیں، عدالت اجازت دے کہ اصل تصویر پیش کر سکوں’۔

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ‘اومنی گروپ نے شوگر ملیں قانون اور طریقہ کار کے مطابق خریدیں، یہ غلط ہے کہ اومنی کا سندھ حکومت یا کسی کوئی گٹھ جوڑ ہے’۔

جس پر جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیئے کہ ‘جب ریفرنس دائر ہوگا تو اپنا دفاع کرلینا’۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ‘یہ تفتیشی رپورٹ ہے اور اس پر فریقین کا جواب دیکھنا ہے’۔

دوران سماعت اومنی گروپ کے سربراہ انور مجید کے وکیل شاہد حامد نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ‘سپریم کورٹ نے اس مقدمے کی سست روی پر از خود نوٹس لیا تھا، اب تو یہ تفتیش ہوگئی ہے، لہذا اس کو نمٹا دیں’۔

جس پر چیف جسٹس نے شاہد حامد سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ‘کیا ہم اتنے سادہ ہیں، ہم اس مقدمے کو ختم نہیں کریں گے بلکہ آگے بھی چلائیں گے’۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ‘اومنی گروپ تین تین بینک کھا گیا ہے، یہ ضمانت کے لیے رکھی گئی اربوں روپے کی چینی بھی بیچ کر کھا گئے، صرف یہی ایک بہت بڑا جرم ہے’۔

ساتھ ہی جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ ‘میں نے اومنی گروپ سے متعلق کیس سندھ کے ایک دیانتدار پولیس افسر کے کہنے پر شروع کیا تھا، اس افسر نے مجھے بتایا تھا کہ کس طریقے سے لوٹ مار کی جا رہی ہے، بعد میں کسی وقت پر اس پولیس افسر کے نام کا انکشاف بھی کردوں گا’۔

سماعت کے آخر میں چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ‘اعتراض ہے کہ جے آئی ٹی نے اپنے مینڈیٹ سے تجاوز کیا، جے آئی ٹی کی سفارش پر اعتراض ہے تو ہم نیب کو معاملہ بھیج دیتے ہیں’۔

اس کے ساتھ ہی عدالت عظمیٰ نے جعلی بینک اکاؤنٹس کا معاملہ نیب کو بھجواتے ہوئے جے آئی ٹی رپورٹ کی روشنی میں 2 ماہ کے اندر تحقیقات کا حکم دے دیا۔

ایف آئی اے حکام کے مطابق منی لانڈنگ کیس 2015 میں پہلی دفعہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے اُس وقت اٹھایا گیا، جب مرکزی بینک کی جانب سے ایف آئی اے کو مشکوک ترسیلات کی رپورٹ یعنی ایس ٹی آرز بھیجی گئیں۔

حکام کے دعوے کے مطابق بینک منیجرز نے انتظامیہ اور انتظامیہ نے اومنی گروپ کے کہنے پر جعلی اکاؤنٹس کھولے۔ یہ تمام اکاؤنٹس 2013 سے 2015 کے دوران 6 سے 10 مہینوں کے لیے کھولے گئے جن کے ذریعے منی لانڈرنگ کی گئی، دستیاب دستاویزات کے مطابق منی لانڈرنگ کی رقم 35ارب روپے ہے۔

مشکوک ترسیلات کی رپورٹ پر ڈائریکٹر ایف آئی اے سندھ کے حکم پر انکوائری ہوئی اور مارچ 2015 میں چار بینک اکاؤنٹس مشکوک ترسیلات میں ملوث پائے گئے۔

ایف آئی اے حکام کے دعوے کے مطابق تمام بینک اکاؤنٹس اومنی گروپ کے پائے گئے، انکوائری میں مقدمہ درج کرنے کی سفارش ہوئی تاہم مبینہ طور پر دباؤ کے باعث اس وقت کوئی مقدمہ نہ ہوا بلکہ انکوائری بھی روک دی گئی۔

دسمبر 2017 میں ایک بار پھر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے ایس ٹی آرز بھیجی گئیں، اس رپورٹ میں جن اکاؤنٹس سے مشکوک ترسیلات ہوئی ان کی تعداد 29 تھی جس میں سے سمٹ بینک کے 16، سندھ بینک کے 8 اور یو بی ایل کے 5 اکاؤنٹس شامل ہیں۔

ان 29 اکاؤنٹس میں 2015 میں بھیجی گئی ایس ٹی آرز والے چار اکاؤنٹس بھی شامل تھے، جس کے بعد 21 جنوری 2018 کو ایک بار پھر انکوائری کا آغاز کیا گیا۔

تحقیقات میں ابتداء میں صرف بینک ملازمین سے پوچھ گچھ کی گئی، تاہم انکوائری کے بعد زین ملک، اسلم مسعود، عارف خان، حسین لوائی، ناصر لوتھا، طحٰہ رضا، انور مجید، اے جی مجید سمیت دیگر کو نوٹس جاری کیے گئے جبکہ ان کا نام اسٹاپ لسٹ میں بھی ڈالا گیا۔

ایف آئی اے حکام کے مطابق تمام بینکوں سے ریکارڈ طلب کیے گئے لیکن انہیں ریکارڈ نہیں دیا گیا، سمٹ بینک نے صرف ایک اکاؤنٹ اے ون انٹرنیشنل کا ریکارڈ فراہم کیا جس پر مقدمہ درج کیا گیا۔

حکام نے مزید بتایا کہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے سمٹ بنک کو ایکوٹی جمع کروانے کا نوٹس دیا گیا، سمٹ بینک کے چیئرمین ناصر لوتھا کے اکاؤنٹس میں 7 ارب روپے بھیجے گئے، یہ رقم اے ون انٹرنیشنل کے اکاؤنٹ سے ناصر لوتھا کے اکاونٹ میں بھیجی گئی تھی، انہوں نے یہ رقم ایکوٹی کے طور پر اسٹیٹ بینک میں جمع کروائی۔

حکام نے بتایا کہ تحقیقات کے بعد ایسا لگتا ہے کہ جو رقم جمع کروائی گئی وہ ناجائز ذرائع سے حاصل کی گئی، ان تمام تحقیقات کے بعد جعلی اکاؤنٹس اور منی لانڈرنگ کا مقدمہ درج کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

اومنی گروپ سربراہ انور مجید اور ان کے صاحبزادے عبدالغنی مجید، نمر مجید کے علاوہ نجی بینک کے سربراہ حسین لوائی بھی اسی کیس میں گرفتار ہیں۔

دوسری جانب سپریم کورٹ نے بھی میگا منی لانڈرنگ کیس کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے جے آئی ٹی تشکیل دی۔

مذکورہ کیس میں سابق صدر آصف علی زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور سے بھی تفتیش کی گئی جب کہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی تحریری طور پر جے آئی ٹی کو اپنا جواب بھیجا۔

گذشتہ ماہ 24 دسمبر کو عدالت عظمیٰ میں جمع کروائی گئی اپنی رپورٹ میں جے آئی ٹی نے سابق صدر آصف علی زرداری اور اومنی گروپ کو جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے فوائد حاصل کرنے کا ذمہ دار قرار دے دیا جس پر عدالت نے اومنی گروپ کی جائیدادوں کو منجمد کرنے کے احکامات جاری کردیے۔

دوسری جانب جے آئی ٹی رپورٹ میں شامل 172 افراد کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں ڈال دیئے گئے، جن میں انور مجید، ان کے اہلخانہ، آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری سمیت پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کے نام شامل ہیں۔