اسلام آباد (جیوڈیسک) احتساب عدالت میں جعلی اکاؤنٹس کیس کی سماعت کے دوران دو ملزم خواتین نے گواہ بننے کی درخواست کر دی۔
سابق صدر آصف علی زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور جعلی اکاؤنٹس کیس میں پہلی مرتبہ احتساب عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔
جج ارشد ملک نے کیس کی سماعت کی تو اس موقع پر کرن اور نورین نامی 2 ملزم خواتین نے عدالت سے گواہ بننے کی درخواست کی۔
خواتین ملزمان نے کہا کہ ‘ہمارا نام ملزمان میں ہے لیکن ہم گواہی دینے کو تیار ہیں اور ہم نے چیئرمین نیب کو بھی درخوست لکھی ہے’۔
جج ارشد ملک نے خواتین ملزمان سے سوال کیا ‘کیا آپ وعدہ معاف گواہ بنیں گی؟’ جس پر دیگر ملزمان کے وکلا نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ وعدہ معاف گواہ بننے کا یہ کوئی اسٹیج نہیں ہے۔
فاضل جج نے نیب پراسیکیوٹر سردار مظفر عباسی سے استفسار کیا ‘خواتین کی درخواست پر آپ کیا کہتے ہیں؟’ جس پر انہوں نے کہا کہ ہمیں چیک کرنا ہوگا کہ کوئی درخواست نیب میں ہے یا نہیں۔
عدالت نے دونوں خواتین کو الگ الگ تحریری درخواستیں جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت 16 اپریل تک کے لیے ملتوی کردی۔
تفتیشی افسر محمد علی ابڑو نے عدالت کو بتایا کہ جعلی اکاؤنٹس کیس میں ملزمان کی تعداد 30 ہو گئی جن میں سے 8 عدالت میں پیش ہوئے، 16 ملزمان عدالت نہیں آئے جن میں سے 3 ملزمان ضمانت پر ہیں۔
غیر حاضر ملزمان کی جانب سے حاضری سے عارضی استثنیٰ کی درخواست دائر کی گئی جس پر عدالت نے انہیں 12 اپریل کو طلب کر لیا اور فاضل جج نے کہا کہ 12 اپریل کو صرف غیر حاضر ملزمان کی حاضری کے لیے سماعت کی جائے گی۔
اس سے قبل سماعت شروع ہوئی تو آصف زرداری کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے آصف زرداری اور فریال تالپور کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دائر کی۔
پیپلز پارٹی کے رہنما قمر زمان کائرہ، چوہدری منظور اور سہیل انور سیال بھی عدالت میں موجود ہیں۔
آصف زرداری نے جیالوں کو احتساب عدالت آنے سے روک دیا جب کہ اس موقع پر وفاقی پولیس کی جانب سے سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے۔
منی لانڈنگ کیس 2015 میں پہلی دفعہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے اُس وقت اٹھایا گیا، جب مرکزی بینک کی جانب سے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو مشکوک ترسیلات کی رپورٹ یعنی ایس ٹی آرز بھیجی گئیں۔
ایف آئی اے نے ایک اکاؤنٹ سے مشکوک منتقلی کا مقدمہ درج کیا جس کے بعد کئی جعلی اکاؤنٹس سامنے آئے جن سے مشکوک منتقلیاں کی گئیں۔
معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچا تو اعلیٰ عدالت نے اس کی تحقیقات کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم ( جے آئی ٹی) تشکیل دی جس نے گزشتہ برس 24 دسمبر کو عدالت عظمیٰ میں اپنی رپورٹ جمع کرائی جس میں 172 افراد کے نام سامنے آئے۔
جے آئی ٹی نے سابق صدر آصف علی زرداری اور اومنی گروپ کو جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے فوائد حاصل کرنے کا ذمہ دار قرار دیا اور ان کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کی سفارش کی۔
اس کیس میں سابق صدر آصف علی زرداری، ان کی ہمشیرہ فریال تالپور سے بھی تفتیش کی گئی جب کہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی تحریری طور پر جے آئی ٹی کو اپنا جواب بھیجا جب کہ اومنی گروپ کے سربراہ انور مجید اور نجی بینک کے سربراہ حسین لوائی ایف آئی اے کی حراست میں ہیں۔
سپریم کورٹ نے 7 جنوری 2019 کو اپنے فیصلے میں نیب کو حکم دیا کہ وہ جعلی اکاؤنٹس کی از سر نو تفتیش کرے اور 2 ماہ میں مکمل رپورٹ پیش کرے جب کہ عدالت نے جے آئی ٹی رپورٹ بھی نیب کو بجھجوانے کا حکم دیا۔
اعلیٰ عدالت نے حکم دیا کہ تفتیش کے بعد اگر کوئی کیس بنتا ہے تو بنایا جائے۔
نیب نے 7 جنوری کو ہی جعلی اکاؤنٹس کیس کی تحقیقات کے لیے کمبائنڈ انویسٹی گیشن ٹیم (سی آئی ٹی) تشکیل دی جس کی سربراہی ڈی جی نیب راولپنڈی کو دی گئی۔
آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری نے 20 مارچ کو نیب کی کمائنڈ انویسٹی گیشن کے سامنے پیش ہو کر بیان ریکارڈ کرایا۔
نیب راولپنڈی نے جعلی اکاؤنٹس کیس میں تین ریفرنسز تیار کر کے نیب ہیڈ کوارٹر بھجوائے اور چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال کی زیر صدارت نیب ایگزیکٹو بورڈ نے 2 اپریل کو جعلی اکاؤنٹس کیس میں پہلا ریفرنس اومنی گروپ کے چیف ایگزیکٹو عبدالغنی مجید اور دیگر کے خلاف دائر کرنے کی منظوری دی۔