تحریر : ملک محمد سلمان آئے دن جعلی ادویات کی وجہ سے اموات واقع ہورہی ہیں ۔ کبھی آپ نے غور کیا کہ اس مکروہ دھندے میں سارا قصوردواساز کمپنیوں کا نہیں ہے بلکہ ان موت کے سوداگروں میں مسیحا بھی شامل ہیں۔ جی ہاں بالکل ڈاکٹر کی ملی بھگت سے سب ہورہا ہے۔میڈیسن فروخت کرنے والی ایک کمپنی کے ترجمان کے بقول میڈیکل کے شعبے میں سب سے بھوکے ڈاکٹرز ہوتے ہیں جو ڈیمانڈ کرتے ہیں کہ ان کے کلینک کی فرنشنگ فارما کمپنیاں کروا کر دیں۔ کلینک میں اے سی سے لیکر میز اور دیگر اشیاء تک میڈیسن کمپنیاں فراہم کرتی ہیں جس کے بدلے میں یہی ڈاکٹرز ہمیں یہ کہتے ہیں کہ آپ ”بے غم” ہو جائیں کہ آپ کی میڈیسن جیسی بھی ہے ہم آپ کی سیلز ”آسمان ”تک پہنچائیں گے لیکن ہمیں آپ ”خوش رکھیں ”۔کاغذوں کے پیڈ سے لیکر بال پوائنٹ اور دیگر اشیاء تک یہ سب چیزیں لیتے ہیں ـ
اسسٹنٹ پروفیسر اور پروفیسر لیول کے ڈاکٹرز فارما کمپنیوں سے غیر ملکی دوروں کی ڈیمانڈ کرتے ہیں۔ پہلے ڈاکٹرفارما کمپنیوں سے صرف اپنے لیے” تفریحی ٹورز” کا مطالبہ کرتے تھے جبکہ اب ”فیملی وزٹ”ارینج کرنے کا مطالبہ ہوتا ہے اور ہم ان کا مطالبہ پورا کرتے ہیں اور یہ لوگ ہمارے مطالبات پورے کرتے ہیں اسی طرح ہمارا کاروبار چل رہا ہے۔
فارسوٹیکل کمپنی کا یہ انکشاف حرف حرف سچ ہے ،اس حقیقت کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ جس بھی ہسپتال یا کلینک پر چلے جائیں مریضوں سے زیادہ میڈیکل ریپ لائن بنائے ڈاکٹر سے ملنے کے منتظر ہوتے ہیں۔ہسپتال میں نصب ٹی وی سیٹ پر نظر پڑے، ایل سی ڈی ہو یا فریج ہر ایک پر کسی نہ کسی دوا ساز کمپنی کا مارکہ لگا ہوگا۔اس کے علاوہ کلینک کا اے سی، فرنیچر اور دیگر سازوسامان بھی کسی نہ کسی دوا ساز کمپنی کا سپانسر ہوتا ہے۔ بعض اطلاعات کے مطابق ڈاکٹر کے زیر استعمال کار بھی دوا ساز کمپنی کا تحفہ ہوتا ہے۔یہ معاملہ تو پرائیویٹ ہسپتالوں اور ڈاکٹروں کے نجی کلینک کا ہے۔ سرکاری ہسپتالوں کے منتظمین پر دوا ساز کمپنیوں کی عنایات کا شمار کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔
ایک دوا ساز کمپنی کے مینجر سے رابطہ کیا گیا تو اس نے بتایا کہ ادویات کی قیمت کامخصوص حصہ آپریشن کرنے والا ڈاکٹر کمپنی سے بطور کمیشن وصول کرتا ہے۔جب ڈاکٹر کی دوا ساز کمپنی سے پس پردہ لین دین ہوگا تو وہ ایسے ہی آلات اور ادویات تجویز کرے گا جس میں کمپنی من پسند ریٹ لگائے گی ۔
ہمارے ہاں ہر شعبہ زندگی میں لوٹ گھسوٹ کا رواج ہے۔ اوپر سے نیچے تک ہر جگہ انسانوں کو مختلف حیلوں اور طریقوں سے لوٹا جاتا ہے۔ ڈاکٹر ایک مسیحا کے طور پر جانے جاتے ہیں، جو مریضوں کا علاج کرکے انہیں زندہ رہنے کا حوصلہ دیتے ہیں۔ المیہ ہے کہ ڈاکٹر مجبور اور نادار مریضوںکو شفقت اور ہمدردی کے روپ میں لوٹ لیتے ہیں تو پھر غریب کے لیے جینے کا کوئی راستہ باقی نہیں رہتا۔جب کوئی انسان کسی مرض کا شکار ہو اور ڈاکٹر سے علاج کے علاوہ اس کے پاس کوئی متبادل راستہ بھی نہ ہوتو ایسے میں اس کے ساتھ یہ سلوک کیا جائے تو پھر انسانیت، ہمدردی، مسیحائی اور صلہ رحمی جیسے الفاظ کو ہماری لغت سے خارج کردینے کے علاوہ کوئی چارہ نظر نہیں آتا۔ ڈاکٹروں کی فیس کے بارے میں ہمارے ہاں کوئی قانون قاعدہ نہیں، جو جس قدر چاہے اپنی فیس خود مقرر کر لیتا ہے۔
اگر اعلیٰ حکام نے پاکستان میں صحت کے شعبے پر توجہ نہ دی، اور جگہ جگہ قائم نجی ہسپتالوںاور خاص طور پر عطائیوں کے جعلی کلینک جو کہ ”مذبحہ خانے” بنے ہوئے ہیں ،ان کو راہ راست پر نہ لائے تو وہ دن دور نہیں جب ڈاکٹر مسیحا کی بجائے سوداگر بن جائیں گے اور مریضوں کی زندگی کا سودا کرتے ہوئے نظر آئیں گے۔حکومتی اربا ب اختیار کو چاہیے کہ سرکاری طور پر قائم ہسپتالوں میں علاج کی سہولتوں کو ترقی دی جائے اور سرکاری ڈاکٹروں کو ہر گز نجی ہسپتال چلانے کی اجازت نہ ہوکیونکہ ڈاکٹر سرکاری ہسپتال میں آنے والے مریضوں کو اپنے نجی ہسپتالوں کی طرف ”ریفر” کردیتے ہیں اور غریب و بے سہارا مریضوں سے ہزاروں روپے بٹورتے ہیں۔ غریب مریض علاج کروانے کی بجائے درد برداشت کرتے ہوئے اللہ کوپیارے ہوجاتے ہیں، کیونکہ ان کے پاس ڈاکٹروں کو دینے کے لیے بھاری فیس نہیں ہوتی۔
جعلی ادویات کے استعمال سے اکثرمریض انتقال کرجاتے ہیں اوراس قتل عام کاکسی تھانے میں مقدمہ درج ہوتا ہے اور نہ کسی منصف کی طرف سے از خودنوٹس لیا جاتا ہے۔ جعلی ادویات کے سبب شرح اموات کے ہوشربااعدادو شمارغور طلب ہیں اس کے سدباب کیلئے سخت قانون سازی کی ضرورت ہے ۔جعلی ادویات فروخت کرنے والے میڈیکل سٹور کے لائسنس فی الفور معطل کیے جائیں اوران کو نشان عبرت بنایا جائے۔ارباب اختیار سے گزارش ہے کہ انتہائی غیر جانبداری سے اس المیہ کے ذمہ داروں کا تعین کریں اور موت کے ان سوداگروں کوعبرت ناک سزا دیں تا کہ عوام کی صحت کے ساتھ کھلواڑ کرنے والوں کو عبرت حاصل ہو۔شعبہ صحت میںپنجاب گورنمنٹ کی طرف سے جعلی ادویات کی روک تھام اورسرکاری ہسپتالوںمیں سہولیات کی فراہمی کیلئے کیے گئے اقدامات واقعی قابل تعریف ہیں۔شعبہ صحت میں بہتری کا کریڈٹ بلا شبہ وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف اور صوبائی وزیر صحت خواجہ سلمان رفیق اور عمران نذیر کو جاتا ہے۔وفاق اور دیگر صوبوں کو بھی پنجاب کی طرح اس مافیہ کے خلاف بلاتفریق سخت ایکشن لینا چاہئے تا کہ عوام کی صحت سے کھلواڑ کرنے والوں کو قراروقعی سزا دی جائے، عوام کو معیاری اور سستی ادویات کی فراہمی سے ریلیف ملے اوربیماریوں سے پاک صحت مند پاکستان کے خواب کی تکمیل ہو سکے۔