تحریر : مجید احمد جائی پاکستان دو نمبری میں پہلے نمبر پر آ گیا۔ خبر تھی کہ ایٹم بم گِرا تھا۔ جس نے میرے تن بدن میں آگ لگا دی۔ میرا روں روں جل اٹھا۔ میرے ساتھ ساتھ ہر اُس ذی شعور انسان کے ایسا ساتھ ہوا ہو گا جو اس ملک میں امن چاہتے ہیں اور ایمانداری، میانہ راوی کی زندگی بسر کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ کتنی بدنامی ہے، کتنی شرمناک خبر ہے۔ پاک ملک پر دو نمبری کا لیبل لگنا ڈوب مرنے کا مقام ہے۔ نیک نامی کے لئے جدوجہد نہیں کر سکتے، توناں سہی، مگر بدنامی کا باعث تو نہ بنیں۔ افسوس ہم شارٹ کٹ میں لگ گئے ہیں۔ جس میں بظاہر فائدہ ہی فائدہ نظر آتا ہے، لیکن آخرت کرب ناک، درد ناک، وحشت بھری ہوگی۔ ہم مخالفوں کے ساتھ مل کر اپنی ہی جڑیں کاٹ رہے ہیں۔ ہم سے بڑا پاگل، بے وقوف کون ہو گا جس ملک میںہم آزادی کے ساتھ رہتے ہیں۔ اسی کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑنا چاہتے ہیں۔
آج میرا دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔ روئے بھی کیوں ناں۔ ہم دونمبری میں تو سر فہرست آگئے مگر اس ملک کی نیک نامی کے لئے کچھ نہ کر سکے۔ دنیا کی خبر نہیں ہے لیکن اس پاک اسلامی ملک میں اوپر سے نیچے تک کرپشن ہی کرپشن ہے۔ ہم رشوت لیتے بھی ہیں اور رشوت دیتے بھی ہیں۔ حرام کھاتے بھی ہیں اور کھلاتے بھی ہیں۔ سرکاری دفاتر ہوں یا نجی سبھی میں رشوت کو نذرانے سمجھ کر حلال گردانتے ہیں۔ بچوں کے لئے مٹھائی کا نام دیتے ہیں۔ چیڑاسی سے لیکر اعلیٰ عہدے دار تک سبھی ایک ہی گنگا میں نہا رہے ہیں۔ خود کھائو ہمیں بھی کھلائو کے فارمولے پر عمل ہو رہا ہے۔ واسطہ بالواسطہ دونمبری کر رہے ہیں۔ دو نمبری میں جو ساتھ نہ دے اسکا جینا حرام کر دیتے ہیں۔ الزامات لگا کر نوکری سے فارغ کروایا جاتا ہے۔ بے ایمانی کا لیبل اس کے ماتھے پر لگا دیا جاتا ہے۔ غدار کا لقب دے کر ساری زندگی جیلوں میں بند کر دیا جاتا ہے۔
عدلیہ، قانون، تھانے، واپڈہ، اسکول، مدارس، فیکڑیاں، ملیں، این جی اوز، کھیل ان میں کوئی ایک تو بتائیں جہاں رشوت نہ لی جاتی ہو، جہاں رشوت کے بغیر کام کیے جاتے ہوں۔ ملک کے کونے کونے میں دونمبری کا گھوڑا ڈور رہا ہے۔ ہر بندہ راتوں رات امیر کبیر بننا چاہتا ہے۔ اپنے فرائض سے غافل، بے ایمانی کر رہے ہیں۔ سبھی کو چھوڑ کر صرف ادوایات کو لیا جائے تو شرم سے پانی پانی ہو جاتا ہوں۔ میری آنکھیں ایسے ایسے مناظر دیکھتی ہیں کہ لکھنے سے قاصر ہوں۔ میرے پاک ملک میں ہزاروں کلینک ایسے ہیں جو جعلی لائسنس کے ساتھ دو نمبر ادویات دھڑا دھڑ فروخت کر رہے ہیں۔ ڈاکٹروں کو کمیشن دیا جاتا ہے، تاکہ وہ صرف اور صرف انہی کی ادویات کا انتخاب کریں۔ عطائی نام نہاد ڈاکٹر موت بانٹ رہے ہیں۔ زندگی بچانے والے اصل میں موت کے سوداگر ہیں۔
Drugs
سڑکوں پر، پارکوں میں، لاری اڈوں پر، نشہ کرنے والے انجکشن لگاتے نظر آتے ہیں۔ شراب کھلے عام بک رہی ہے۔ کوئی روکنے والا نہیں، کوئی روک ٹوک نہیںہے۔ بھلا کون روکے گا جن کو یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے وہی تو اس دھندے میں نہا رہے ہیں۔ مجرموں کو ان کی سر پرستی حاصل ہے۔ نہ ان کو کوئی ڈر ہے، نہ ان کے لئے کوئی قانون، کوئی جیل ہے۔ کراچی میں گزشتہ دنوں کچی شراب سے کتنی جانیں ضائع ہوئیں۔ کراچی میں ہی نہیں پاک وطن کے ہر گلی ،ہر محلے میں شراب بک رہی ہے۔ اسے مختلف نام دے دیئے گئے ہیں۔ میڈیکل اسٹوز پر دستیاب ہے۔کوئی نہیں روک نہیں سکتا۔ پاک ملک میں ملٹی نیشنل کمپینیاں جعلسازی میں اپنا ثانی نہیں رکھتی۔ جعلی ادویات مارکیٹ میں فروخت کروا ررہی ہیں اور دگنا منافع بھی حاصل کر رہی ہیں۔ ڈاکٹروں، میڈیکل اسٹوز والوں، ڈسٹری بیوٹرز کو مراعات پیش کر کے اپنی ادویات فروخت کروا رہی ہیں۔ جن کے استعمال سے شرح اموات بڑھ گئی ہے۔ آئے روز موت کا کالا سانپ ڈس رہا ہے۔
افسوس ڈاکٹر جن کو قوم،مسیحا کہتی ہے مسیحا سے قصائی بن گئے ہیں۔ سانسوں کی قمیتیں وصول کر رہے ہیں۔ جائیدادئیں، محلات، گاڑیاں بنا چکے ہیں۔ جو ان کے پاس زندگی بچانے کی غرض سے آتا ہے اسے موت کا تحفہ دیا جاتا ہے۔ قانون بنانے والے قانون بنا کر لمبی تان کر سو گئے ہیں۔ غریب مر رہے ہیں، مرنے دیں۔ مریض تڑپ رہے ہیں، تڑپتے رہیں، سسکتے رہیں۔ کوئی فکر نہیںہے۔ موت ڈندناتی پھرتی ہے، موت ناچ رہی ہے تماشائی صرف تماشہ دیکھ رہے ہیں۔ حکومیتں کاغذی کاروائی کر کے سُرخرو ہیں۔ سب اچھا ہے، کا الارم الانپا جاتا ہے۔ جعلی ادویات سبھی کے سامنے بک رہی ہیں۔ فروخت کرنے والے ڈھٹائی سے سینہ تان کر بیٹھے ہیں، ان کو کوئی ڈر،خوف نہیں ہے۔ بڑوں کے زیر سایہ ہیں، کوئی کچھ کرے بھی توکچھ نہیں کر سکتا۔ سرکاری ڈاکٹرز ہسپتالوں میں کم اپنے کلینک پر زیادہ نظر آتے ہیں۔ ہسپتالوں میں ادویات ملتی نہیں اور ان کے کلینک بھرے پڑے ہیں۔ ان آنکھوں نے دیکھا ہے سرکاری ہسپتالوں سے دوائیاں چرا کر لے جاتے ہوئے۔اپنے کلینک پر منہ مانگی رقم وصول کرکے علاج کرتے ہیں۔
جگہ جگہ عطائی ڈاکٹر ڈیرے جمائے بیٹھے ہیںجو موت بانٹ رہے ہیں۔ ان کے ہاتھوں کتنے زندگی کی بازی ہار گئے ہیں۔ ہر شاخ پہ اُلو بیٹھا ہے کے مصداق چپے چپے پر دونمبر لوگ ڈھٹائی سے بیٹھے کاروبار چمکا رہے ہیں۔کون پوچھے کس کو فرصت ہے میرا وطن عظیم ہے۔ ہمارے بزرگوں نے قربانیاں دے کر حاصل کیا ہے اور ہم اس کی حفاظت کرنے کی بجائے اس کوصفحہ ہستی سے مٹانے میں لگے ہیں۔ مجرمانہ حرکات کے مرتکب لوگوں کو سزائیں دلوانے کی بجائے ان کا ساتھ دے رہے ہیں۔ دشمن میلی آنکھ سے دیکھ رہا ہے۔ یورپ ہم پہ ہنس رہا ہے۔ یورپ نے ہمارے آبائواجداد سے سیکھ کر ترقی کر لی اور ہم ترقی کی راہیں بھول گئے۔اخوت و بھائی چارہ کو بھول گئے۔ اپنے پیارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان بھول کر شیطان کے ہمنوا ہو گئے۔ تبدیلی تب تک نہیں آئے گی جب تک ہم خود کو نہیں بدلیں گے۔ ہم خود کو اس وقت تک نہیں بدل سکتے جب تک جھوٹ، رشوت ، دو نمبری کے جراثیموں پر سچ، ایمانداری کا اسپرے نہیں کر لیتے۔ جھوٹ چھوڑ دو، سب بُرائیاں نیکیوں میں بدل جائیں گی۔ ہم ترقی میں صف اول میں آ جائے گا نہ کہ دونمبری میں۔ ہمارے ملک پر دونمبری کا لگا کالک اتارنا ہو گا۔ تمام نفرتیں تمام خامیاں دور کر کے ترقی سے ہمکنار کرنا ہو گا۔