تحریر : سید انور محمود کسی زمانے میں پیر دین دار اور اللہ کے نیک بندے ہوتے تھے جو انصاف پر مبنی نظریات کا پرچار کرتے تھے۔ ان کی تعلیمات، سوچ، عمل اور زندگی سچائی اور اللہ کے بندوں کی بھلائی کے لیے ہوتی تھی، ان کی تعلیم روحانیت پسندی اور صوفی ازم تھی، جس میں رواداری بھی تھی لیکن مادیت پرستی ذرا بھی نہیں تھی، یہ ہی وجہ تھی کہ ان صوفیوں اور درگاہوں کا معاشرئے کے سدھار اور مذہبی بیداری میں اہم کردارہوتا تھا۔ لیکن اب پیری مریدی اور گدی نشینی خالص کاروباربن گے ہیں۔ سچائی یا روحانیت کا آج کے گدی نشینوں سے کوئی واسطہ نہیں۔ سچائی کی جگہ جھوٹ نے اور روحانیت کی جگہ لالچ اور ہوس نے لے لی ہے۔آج پاکستان میں دھوکے باز اور لالچی پیری مریدی اور گدی نشینی کو سب سے زیادہ منافع بخش کاروبار قرار دیتے ہیں، اس کےلیے ان دھوکے بازو کا نہ تو تعلیم یافتہ ہونا ضروری اور نہ ہی کسی سرمایہ کاری کی ضرورت ہوتی ہے۔جعلی پیر حقیقی تصوف اور اس کی تعلیمات کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتا، وہ اپنی چرب زبانی اور جھوٹ کے بل پر لوگوں کو لوٹتا ہے۔ان جعلی پیروں کی ترقی کا راز یہ ہے کہ یہ ضرورت مندوں کے اندھے اعتقاد کا پورا پورا فائدہ اٹھانا جانتے ہیں ۔جعلی پیروں پر اندھے اعتقاد کی ایک سچی کہانی مجھ سے بھی سن لیں، یہ کہانی سال 2010 کی ہے جومیں نے 20 جنوری 2013 کواپنے ایک مضمون ’’اسلام آباد کے دھرنے نے ہمیں پیر بنادیا‘‘، میں لکھی تھی، آج اس مضمون میں بھی اس کہانی کو لکھنے کی ضرورت ہے۔
کہانی کچھ یوں ہے کہ‘‘کچھ سال پہلے کراچی کے علاقے لانڈھی کا رہنے والا نوجوان جاوید اپنی والدہ کے ساتھ عمرہ کرنے جب سعودی عرب پہنچا تو جدہ میں میری اس سے ملاقات ہوئی، مجھے جاوید سیدھا سادھا نوجوان لگا، اس نے بتایا کہ وہ کپڑے سینے جانتا ہے لہذا اپنی والدہ کو واپس بھیج کر یہاں غیرقانونی رکرکام کرے گا کیونکہ میرے پیر صاحب کا مشورہ تھا کہ سمندرپار جاوں لہذامیں نے اپنی امی کو بتایا تو امی نے بہنوں کےلیے رکھا ہوا زیور بیچ کر انتظام کیا۔ پھر جاوید کی والدہ واپس آگیں اور جاوید سے کبھی کبھی راستے میں ملاقات ہوجاتی۔ایک دن جب جاوید سے ملاقات ہوئی تو اُس نے بتایا کہ بارہ ربیع الاول کی وجہ سے وہ رات کو مدینہ منورہ جارہا۔ میں نے کہا تم یہاں غیرقانونی ہو راستے کی چیک پوسٹ پر پکڑئے جاوگے۔ جاوید نے بتایا کہ اس نے اپنے پیرصاحب سے بات کرلی ہے اور انہوں نے اجازت دے دی ہے اور اب کوئی مجھے نہیں پکڑئے گا۔ ایک ہفتہ بعد وہ صاحب جن کے ساتھ جاوید رہتا تھا میرے پاس آئے اور بتایا کہ مدینہ منورہ جاتے ہوئے جاوید چیک پوسٹ پر پکڑا گیا اور چاردن جدہ کی جیل میں رہنے کے بعد کل ہی پاکستان پہنچاہے۔ ان صاحب نے کہا کہ جاوید نے بتایا کہ آپ پاکستان جانے والے ہیں اسلیے آپ سے درخواست کی ہے کہ اسکا سامان جو ایک بیگ میں اپنے ساتھ لیتے آیں۔ کچھ دن بعد میں کراچی پہنچا تو جاوید کا بیگ بھی میرے ہمراہ تھا۔ دو دن بعد جب جاوید اپنا بیگ لینے میرے پاس آیا تو میں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تم اپنی بہنوں کا زیور بیچ کر سعودی عرب گے تھےاب کیسے پورا کروگے ۔ اُس نے کہا جب سے میں واپس آیا ہوں میری والدہ اور بہنیں مستقل رورہی ہیں اور مجھے ابھی تک کوئی کام بھی نہیں ملا ہے۔ میں نے غصے میں پوچھا اور وہ تماراپیر اب کیا کہتا ہے، وہ بولا میرے پیر صاحب کا کہنا ہے کہ فکر مت کرو میں تمارے لیے دعا کرونگا۔ اور جاتے جاتے بولا میں اپنے پیر صاحب پر مکمل بھروسہ کرتا ہوں مگر لگتا ہے آپکا ایمان کمزور ہے جب ہی میرئے پیر صاحب پر غصہ کررہے ہیں‘‘۔
Sargodha Killing
سرگودھا میں یکم اوردو اپریل کی درمیانی رات کو جعلی پیر محمد گلزار عبدالوحید کے ہاتوں بیس افراد کے قتل کا واقعہ روحانیت کا نہیں بلکہ مریدوں کا اپنے جعلی پیر پر اندھے اعتقاد اور پیر کی حوانیت، جہالت اور مادہ پرستی کا نتیجہ ہے۔ بیس افراد کے قاتل ملزم عبدالوحید نے دعویٰ کیا ہے کہ مقتولین نے میرے پیر کو زہر دے کر قتل کیا تھا ، مجھے بھی مارنا چاہتے تھے ۔ قتل کی وجہ صرف اورصرف دربار کی گدی نشینی ہے۔ عبدالوحید کے ہاتھوں قتل ہونے والے افراد کی عمریں 30 سے 40 سال کے درمیان تھیں جبکہ ان میں بزنس گریجویٹ، پولیس اہلکار اور سابق ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ کا بیٹا بھی شامل تھا۔صوفی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد پیروں یا زندہ اولیا پر اس قدر اندھا اعتقاد رکھتے ہیں کہ ان کا ماننا ہے کہ یہ افراد خدا سے براہ راست اُن کے لیے سفارش کر سکتے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ مقتولین کے رشتہ دار قاتل عبدالوحید پر اس حد تک اندھا اعتقاد رکھتے ہیں کہ انہوں نے اُس کے خلاف الزامات دائر کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ دوسری طرف اس علاقے کے ایک شخص اسماعیل کا کہنا ہے کہ درگاہ میں مشکوک سرگرمیاں ہوتی تھیں اور اس میں ایک پولیس کانسٹیبل، سابق ڈی ایس پی کا بیٹا اور علاقے کا ایک بااثر شخص عبدالوحید کے ساتھیوں میں شامل تھے، لہذا اہل علاقہ میں سے کسی نے بھی درگاہ میں جاری مشکوک سرگرمیوں کی شکایت درج کرانے کی ہمت نہیں کی۔
ویسے تو پورا پاکستان ہی عام لوگوں کے کمزور عقائد کی وجہ ان جعلی پیروں کی شکار گاہ ہے لیکن دیہی علاقوں میں جعلی پیروں کا کاروبار عروج پر ہے۔ دیہی علاقوں میں پیر پرستی عام ہے اور صوفی بزرگوں کے عقیدت مند ان کے مزارات پر نذرانے چڑھاتے اور نیازیں دیتے ہیں۔ مزاروں کے متولی ان لوگوں کی جہالت اور عقیدت سے خوب فائدہ اٹھاتے ہیں۔بعض جعلی پیر اور عامل علاج کے نام پر آنے والے مریضوں یا مریدوں کو تشدد کا نشانہ بنانے اور مختلف ازیتیں دینے سے بھی گریز نہیں کرتے۔بیس لوگوں کا قاتل عبدالوحید بھی یہ ہی کیا کرتا تھا، اور ایسا ہی اس نے بیس لوگوں کو قتل کرتے وقت کیا، خبروں کے مطابق اس نے تمام بیس مقتولین کو ازیتیں دیکر ہی مارا ہے۔ ایسے جعلی پیروں اور عاملوں کے بارے میں خبریں اکثرمیڈیا میں آتی رہتی ہیں لیکن اندھے اعتقاد کی وجہ سے ہر مرید کی سوچ یہ ہی ہوتی ہے کہ اسکا پیر ایسا نہیں ہے۔بلاشبہ پیری مریدی ہمارے کلچر کا حصہ سمجھی جاتی ہے مگر ملک کے بہت سے علاقوں میں اس کی آڑ میں جعل ساز مکر و فریب کا بازار گرم رکھے ہوئے ہیں۔جعلی عاملوں اور جادوگروں کو بھی ملک بھر میں سادہ لوح لوگوں کے استحصال کی کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے۔ حکومت کی یہ ذمہ داری ہے اس مکروہ سلسلے کو قانوناً روکے جانے کے علاوہ اس کے بارے میں عوام کو ذرائع ابلاغ کے توسط سے آگہی فراہم کرنے کا مؤثر بندوبست کرئے۔
آخر میں اپنے پڑھنے والے دوستوں سے گذارش ہے کہ وہ ان جعلی اور دھوکے باز پیروں سے بچیں۔ اگر جعلی پیروں کے جعلی تعویز گنڈوں نے ہی لوگوں کو شفا ملتی ہوتی تو پھر ہسپتالوں اور ڈاکٹروں کا مصرف کیا ہے؟ ہمارئے بہت سارئے مسائل ہیں جسکا حل صرف حکومت کے پاس ہے، مثلاً بے روزگاری، تعلیم ، انصاف کا حصول ان سب کا حل کسی بھی پیر کے پاس نہیں ہے ، وہ صرف اپنی چرب زبانی اور شعبدئے بازی سے آپکو دھوکا دئے رہا ہوتا ہے۔ ان سب کا حل صرف اور صرف حکومت کے پاس ہے لہذا پیروں کے پاس جاکر اپنا نقصان کرنے کے بجائے حکومت سے احتجاج کریں۔ ایک آخری بات یہ کہ ہمارئے بہت سے مسائل تو ایسے ہوتے ہیں کہ ہم اگر گھر کے کسی بزرگ سے بات کرلیں تو وہ مسلئے کو حل کردیتے ہیں یا پھر حل بتادیتے ہیں، اس بات پر عمل کیجیے گا یقین کریں آپکو کبھی کسی پیر کے پاس جانے کی ضرورت نہیں پڑئے گی۔ آخر میں دعا ہے کہ سرگودھا کے مقتولوں کو اللہ تعالی کی معغفرت نصیب ہو اور ان کے لواحقین کو صبر عطا ہو۔