جعلی پولیس مقابلے میں نقیب اللہ محسود کے قتل کو ایک سال بیت گیا

Naqeebullah Mehsud

Naqeebullah Mehsud

کراچی (جیوڈیسک) جعلی پولیس مقابلے میں شہری نقیب اللہ محسود کی موت کو آج ایک سال گزر گیا۔

گزشتہ برس 13 جنوری کو ملیر کے علاقے شاہ لطیف ٹاؤن میں سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے نوجوان نقیب اللہ محسود کو دیگر 3 افراد کے ہمراہ دہشت گرد قرار دے کر مقابلے میں مار دیا تھا۔

27 سالہ نقیب اللہ محسود کی موت کے بعد ان کی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں جس میں انہیں ایک ماڈل کے انداز میں دیکھا گیا اور پولیس کی جانب سے اسے دہشت گرد قرار دے کر مارا گیا تو سوشل میڈیا پر ایک نئی بحث چھڑ گئی۔

اس خبر نے پورے ملک کو اپنی جانب متوجہ کیا اور معاملہ ایک تحریک کی شکل اختیار کر گیا اور کراچی، اسلام آباد اور دیگر شہروں میں نقیب اللہ محسود کے حق اور پولیس کے خلاف احتجاج کیا گیا اور کئی روز دھرنا جاری رہا۔

سپریم کورٹ نے بھی جعلی مقابلے کا نوٹس لیا اور پھر ریٹائر ہوجانے والے سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار سمیت دیگر کے خلاف دو مقدمات درج کیے۔

موجودہ آئی جی گلگت بلتستان ثناء اللہ عباسی کی سربراہی میں ایک جے آئی ٹی بنائی گئی اور پھر ایڈیشنل آئی جی آفتاب پٹھان کی سربراہی میں دوسری کمیٹی بنائی گئی۔

بعدازاں تحقیقاتی کمیٹی کی جانب سے ابتدائی رپورٹ میں راؤ انوار کو معطل کرنے کی سفارش کے بعد انہیں عہدے سے ہٹا کر نام ای سی ایل میں شامل کردیا گیا۔

چیف جسٹس آف پاکستان کی جانب سے اس معاملے پر لیے گئے ازخود نوٹس کی سماعت اب بھی جاری ہے جب کہ دونوں کمیٹیوں نے نقیب اللہ کے خلاف کسی بھی قسم کے ثبوت ملنے کی تردید کی ہے۔

سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار اور ان کی ٹیم کی گرفتاری کے لیے بہت کوششیں کی گئیں اور کچھ اہلکار گرفتار بھی ہوئے تاہم راؤ انوار احمد نے خود ہی ڈرامائی انداز میں سپریم کورٹ پہنچ کر گرفتاری دی جس کے بعد انہیں کراچی منتقل کیا گیا۔

تاہم ایک برس بعد بھی اس کیس کو اب تک حتمی انجام تک نہیں پہنچایا جاسکا ہے اور تحقیقات اب بھی جاری ہیں لیکن اس کی رفتار بہت سُست ہے۔