بھارت میں پچھلے کئی سالوں سے مسلم نوجوانوں، دہشت گرد قرار دیکر جعلی پولیس مقابلوں میں ہلاک کرنے کا ظالمانہ سلسلہ جاری ہے جس کی روایت بھارتی ریاست گجرات میں نریندر مودی نے اپنے دور وزارت اعلیٰ کے دوران ڈالی۔ گجرات میں مودی کے زیر قیادت سفاک پولیس نے کئی انکاؤنٹرز کئے اور ان کا ہدف مسلم نوجوان ہی تھے۔ عشرت جہاں، سہراب الدین مودی کی ریاستی حکومت کی بربریت و سفاکیت کی بدترین مثالیں ہیں۔ دہلی میں بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر میں مارے گئے مسلمان نوجوانوں کے قتل میں ملوث پولیس افسروں کے خلاف آج تک کوئی کارروائی نہیں کی جاسکی۔ ہاشم پورہ میں 42 مسلمانوں کو ایک قطار میں کھڑا کر کے ان پر گولیاں برسانا اور ان کی لاشوں میں قریبی نہر میں پھینک دینے والے سکیورٹی فورسز کے اہلکاروںکو بھی سزا کے بجائے انعامات سے نوازا گیا، انہیں عہدے پر ترقیاں دی گئیں۔ بھارتی گجرات میں مسلمانوں کو جعلی پولیس مقابلوں میں مروانے والے مودی کے دست راست بھگوا لیڈر امیت شاہ کو مرکز میں مودی کے برسراقتدار آتے ہی بطور انعام بی جے پی کا صدر بنا دیا گیا۔ مسلمانوں کے قاتل کو عدالتوں سے بھی باعزت بری کروا لیا گیا۔ مدھیہ پردیش میں بھی مسلم نوجوانوں کے خلاف خونی کھیل کا مظاہرہ کیا گیا جعلی انکاؤنٹر کے ذریعے بھوپال کی سنٹرل جیل سے فرار ہونے والے آٹھ مسلم نوجوانوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا۔ وہ دہشت گردی کے جھوٹے الزامات کے تحت حوالات میں بند تھے اور ان کا تعلق مسلم تنظیم ”سیمی” سے بتایا گیا۔
کہا جاتا ہے کہ پولیس نے اپنا بھانڈا پھوٹنے کے ڈر سے ان کا قتل کروا دیا کیونکہ وہ دہشت گردی کے جھوٹے الزامات کے تحت قید تھے۔ اگر ایک ہندو جعلی پولیس مقابلے میں مارا گیا تھا تو اس میں ملوث بارہ پولیس اہلکاروں کو فوری جیل بھیج دیا جاتا ہے۔ عشرت جہاں، سہراب الدین اورنگ آباد کے تین مسلمانوں کو مار کر پولیس کی وردی پہنا کر ناگپور لایا جاتا ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ آر ایس ایس کے ہیڈ کوارٹر پر حملہ کرنے آرہے تھے۔ اس واقعے میں ملوث کسی بھی پولیس اہلکار کو سزا نہیں ہوئی۔
بھوپال کے آٹھوں قیدی جلد رہا ہونے والے تھے کہ انہیں باقاعدہ منصوبہ بندی سے جیل سے فرار بتا کر جعلی پولیس مقابلے کے ذریعے موت کی نیند سلا دیا گیا۔ یعنی مودی سرکار یہ بالکل نہیں چاہتی کہ مسلمان اس ملک میں باوقارطور پر زندہ رہیں ،کبھی فسادی کہہ کر، کبھی دہشت گرد کہہ کر تو کبھی داعش سے تعلق کا الزام لگا کر جیلوں میں ڈالا جا رہا ہے۔ جب وہ مسلمانوں کو بدنام کرنے میں ناکام رہے تو نیا طریقہ ڈھونڈ لیا گیا ہے۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ اب مسلمان انصاف کس سے مانگیں؟۔ ہندوستان میں مسلمانوں کیلئے کیسا ماحول تیار کیا گیا ہے اور کس طرح بے دریغ ان کا قتل کیا جا رہا ہے ؟۔مگر مسلمان رہنما اور تنظیمیں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔ کبھی حکومت منصوبے کے تحت تین طلاق کا مسئلہ اٹھا دیتی ہے، کبھی یکساں سول کوڈ اور لو جہاد کا ڈھندورا پیٹا جاتا ہے۔ دادری میں اخلاق کا بہیمانہ قتل کیا جاتا ہے تو کبھی گجرات کے مسلم کش فساد کو مظفر نگر میں دہرایا جاتا ہے۔
مذکورہ قیدیوں کے بارے میں کہا گیا کہ ان کا تعلق سیمی سے تھا۔ سیمی پر 2001ء میں امریکی حملے کے بعد پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ بھوپال میں جن کو ہلاک کیا گیا ان میں سے تین کا تعلق’ سیمی ‘سے تھا۔ وہ اس کے پروگراموں میں کبھی کبھی شریک ہوتے تھے۔ بہرحال سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے کہ کسی ایسی تنظیم کا سابق ممبر ہونا جرم نہیں جس پر پابندی لگی ہو۔ ‘سیمی ‘کی رکنیت آر ایس ایس کی طرح نہیں ہے جس کا ریکارڈ پولیس کے پاس نہ ہو۔ اگر پولیس کے پاس ‘سیمی ‘کے ضبط شدہ ریکارڈ میں کسی ملزم کے رکن ہونے اور ‘سیمی’ کے پروگرام کے تحت کسی قانون شکنی میں ملوث ہونے کا کوئی ثبوت ہے تو اس کو پیش کیا جانا چاہئے، ان لوگوں پر دہشت گردی کا الزام تھا لیکن وہ عرصہ سے جیل میں بند تھے مگر عدالت بھی انہیں قصوروار نہیں ٹھہرا سکی تھی۔
‘سیمی’ سٹوڈنٹس اسلامک موومنٹ آف انڈیا جو کبھی جماعت اسلامی کا حصہ تھی، مذکورہ تنظیم نے بابری مسجد کی شہادت کے بعد فرقہ پرست طاقتوں بالخصوص ہندو پریشد اور دوسری ہندو فرقہ پرستوں سے مقابلہ کیا۔ بعدازاں اس پر پابندی عائد کر دی گئی جبکہ اس سے کہیں زیادہ خطرناک سنگھ پریوار سے تعلق رکھنے والی ہندوتوا تنظیموں پر کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی۔
سوشل میڈیا پر مسلسل یہ بحث رہی کہ یہ انکائونٹر جعلی تھا یا اصلی۔ اس کے علاوہ قابل غور پہلو یہ بھی رہا کہ بھارتی میڈیا نے مسلم دشمنی اور تعصب کا مظاہرہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور ان قیدیوں کو دہشت گرد کا نام دیدیا حالانکہ ان میں سے کسی ایک کا بھی جرم ثابت نہیں ہوا تھا کیونکہ ان کا جرم اب تک ثابت نہیں ہو سکا تھا۔ بھارتی میڈیا کی جانبداری اس قدر بڑھ گئی ہے کہ جب معاملہ کسی مسلمان کا ہوتا ہے تو اسے دہشت گرد قرار دینے کا راگ الاپنا شروع کر دیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس گجرات مسلم کش فسادات میں ملوث ہندو دہشت گرد سادھوی پرگیہ کو ملزم ہی کہا جاتا ہے۔ اس پر بھی دہشت گردی کا الزام ہے لیکن کبھی کسی بھارتی نیوز چینل یا اخبارات نے اپنی سرخیوں میں اسے دہشت گرد کہا ہو۔ میڈیا کی اس جانبداری نے مسلمانوں میں بے چینی کی کیفیت پیدا کر رکھی ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ بھارتی الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا اپنی ذمہ داری پورے انصاف کے ساتھ ادا کرے اور تمام قیدیوں خواہ مسلمان ہو یا ان کا تعلق کسی دوسرے مذہب سے ہو ان کیلئے ایک ہی اصطلاح استعمال کی جائے۔
دراصل بھارت میں جب سے بی جے پی مرکز میں برسراقتدار آئی ہے تب سے مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ کر دیا گیا ہے اور بھارتی خفیہ ایجنسی نے تو حد ہی پار کر دی ہے۔ مسلم نوجوانوں کو جبراً جیل سے باہر نکال کر جعلی پولیس مقابلے میں ہلاک کر کے عدالتی کارروائیوں کی بھی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔ خفیہ ایجنسی اور پولیس انتظامیہ کی ملی بھگت اور سازش سے بے گناہ مسلمانوں کے قتل کا سلسلہ جاری ہے۔ دوسری جانب اعلیٰ تعلیم یافتہ مسلم نوجوانوں کو جھوٹے الزامات کے تحت جیلوں میں ڈال رکھا ہے تاکہ ان کی کمر توڑ دی جائے اور وہ کبھی سر اٹھا کر جی نہ سکیں۔
گزشتہ روز انسانی حقوق کے عالمی دن پر کشمیری میڈیا سروس کے ریسرچ سیکشن نے ایک رپورٹ شائع کی جس میں بتایا گیا کہ ان ہلاکتوں میں 22 ہزار 8 سو 68 خواتین بیوہ ہوئیں جبکہ 1 لاکھ 7 ہزار 6 سو 74 بچے یتیم ہوئے۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ بھارتی فوج نے 11 ہزار 36 خواتین کے ساتھ زیادتی کی اور 1 لاکھ 8 ہزار 5 سو 82 رہائش گاہوں و دیگر عمارتوں کو نقصان پہنچایا جبکہ اسی دوران 8 ہزار سے زائد افراد کی دوران حراست گمشدگی بھی سامنے آئی ہے۔ رواں سال بھارتی پولیس کی جانب سے نوجوانوں، طالب علموں، حریت رہنماوں اور کارکنان سمیت 3 ہزار 66 کشمیریوں کو جیل میں ڈالا گیا۔
ایک رپورٹ ”گلٹ بائی ایسوسی ایشن” میں 2001ء سے لیکر اب تک جعلی پولیس مقابلوں میں مسلم نوجوانوں کی ہلاکتوں کے اعداد و شمار اکٹھے کئے گئے ہیں جس کے مطابق مسلمانوں کو جھوٹے الزامات کے تحت دہشت گرد قرار دیکر جیلوں میں ڈال دیا گیا ،جس پر کسی بھی مرکزی یا ریاستی حکومت نے کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ حیدر آباد، مکہ مسجد، مالیگائوں بم دھماکوں میں اندھا دھند مسلم نوجوانوں کی گرفتاریاں عمل میں لائی گئیں ،حالانکہ ان بم حملوں میں ہندو دہشت گرد ملوث پائے گئے۔ افسوس اصل ملزموں کے بے نقاب ہونے کے باوجود ابھی تک سینکڑورں مسلم نوجوان جیلوں میں قید ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہے ہیں۔ کالے قوانین کے تحت مسلمانوں کو گھروں سے اٹھا لیا جاتا ہے۔ بعدازاں نامعلوم مقامات پر منتقل کر دیا جاتا ہے۔ ادھر ان کے والدین، بہن بھائی برسوں انتظار میں گزار دیتے ہیں۔
‘سیمی’ مسلم تنظیم پر بھارتی سپریم کورٹ نے 2001ء میں پابندی عائد کر دی تھی آج بھی اس کا ہوّا کھڑا کر دیا جاتا ہے اور باقاعدہ منصوبہ بندی سے بے گناہ مسلمانوں کا تعلق ‘سیمی’ سے جوڑ دیا جاتا ہے۔