تحریر : قدسیہ نورین ہمارے معاشرے کے بہت سے پہلو ابھی بھی ایسے ہیں جن کو صرف ایک طرف سے ہی دیکھا جاتا ہے آج کل بہت سارے نیوز چینلوں پر اور مختلف سوشل ویب سائٹس پر بہت سی ویڈیو وغیرہ ہیں جعلی پیروں کو پکڑا جا رہا ہے سوشل میڈیا پر ایسی ویڈیو اور نیوز نے کافی دھوم مچائی ہوئی ہے ان ویڈیو میں بعض پیر حضرات تو ایسے ہیں جن کو پہلا کلمہ تک نہیں آتا اور وہ خود کو اللہ کے ولی بتاتے ہیں عورتوں کی عزتوں کے ساتھ کھیلنا ان نام نہاد پیروں کے لئے عام سی بات ہے جس طرح آج کل ان کے خلاف سخت اقدام بھی کئے جا رہے ہے یہ ایک نہایت خوش آئن عمل ہے لوگوں میں اس سے مختلف آگاہی نہایت ضروری ہے۔
بہت سے لوگ ان جعلی پیروں پر تنقید بھی کررہے ہیں بہت ساری وڈیوز میں خواتین بھی نظر آتی ہیں جو سرعام اپنی عزت انکی جھولیوں میں ڈالتی نظر آ رہی ہیں ان خواتین کو بھی کڑی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اگرچہ عورت کی تعداد بانسبت مرد حضرات کم بھی ہے لیکن عورت پھر بھی نشانہ بن رہی ہے اب سوال یہاں پر یہ پیدا ہوتا ہے کہ عورت وہاں اپنی کم عقلی کی وجہ سے جاتی ہے۔
مجبوری سے یا پھر شوق سے ان نام نہاد جعلی پیروں کے پاس جانے والی عورتوں کے ساتھ ان کے شوہر ماں باپ یا ساس کی موجودگی کا اندازہ کر سکتے ہیں لیکن فرض کریں کہ عورت اکیلی جاتی ہے وہاں لیکن آخر جاتی کیوں ہے 80 فیصد عورتوں کے جانے کی وجہ انکی ایک ہی خواہش ہوتی ہے اور وہ ہے بیٹا پیروں کے پاس جانے درباروں پر منتیں مانگنے اور نجانے ایسے اور کون کون سے پہلو ہیں جن سے شاید ابھی ہم ناواقف ہیں ان سب کو کرنے کا مقصد ایک ہی ہے اور وہ بیٹا ہے ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں لاکھوں خواتین اپنا بچہ اسی وجہ سے ضائع کروا دیتی ہیں کہ وہ بیٹی ہے۔اور وہ مرد حضرات یا خواتین جو ان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔
Fake Pir
ایک دفعہ ضرور سوچیں یہ خواتین گھروں سے اپنی ساس یا اپنے اپنے شوہروں سے تنگ ہو کر مجبور ہو کر ان پیروں کے پاس جاتی ہے اور پھر بیٹے کی خواہش میں ہر حد سے گزر جاتی ہیں اور پھر بھی منتوں اور مرادوں سے مانگے گئے بیٹے کل کو کسی کی ماں بہن بیٹی کی عزتیں ان پیروں کی طرح لوٹتے ہیں اور یہاں ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ آخر ہمارے معاشرے میں ایسا کیوں ہوتا ہے۔
اس کی بنیادی وجوہات ہے جو کہ ہم مسلمان ہوتے ہوئے بھی قرآن و احادیث سے بہت دور ہو چکے ہے اور ان نام نہاد مسلمانوں کے ہاتھوں لٹ رہے ہیں آخر ایسا کب تک ہوتا رہے گا ہم مسلمان ہوتے ہوئے بھی یہ نہیں سوچتے کہ اسلام میں شرک کرنے والوں کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا ہے اور ہم لوگوں پھر بھی ان جعلی پیروں کے پاس جاتے ہے اپنی خواہشات پوری ہونے کے لئے ان کے آگے سجدے کرتے ہے۔
ہم یہ نہیں سوچتے کہ دینے والی اللہ تعالیٰ کی پاک ذات ہے یہ نام نہاد جعلی پیروں کے پاس جانے سے ہم گناہگار ہی ہوتے ہے اور یہ ہمارے ایمان کی کمزوری ہے جب تک ہم قرآن مجید اور احادیث کے مطابق زندگی نہیں گزراے گے تب تک ایسے واقعات ہوتے رہینگے۔