اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے سابق ممبر شاہد حْسین اسد کے جعلی دستخطوں سے چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو شبرزیدی اور ممبر ان لینڈ ریونیو آپریشن سیما شکیل کے خلاف پراپرٹی بلڈرز و ڈویلپرز کی ملی بھگت سے ریئل اسٹیٹ سیکٹر میں 500 ارب روپے سے زائد مالیت کے ٹیکس فراڈ کیس کی تحقیقات کیلیے قومی احتساب بیورو (نیب)کو درخواست دیے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔
ایف بی آر اور تحقیقاتی اداروں نے سابق ممبر ایف بی آر شاہد حسین اسد کے جعلی دستخطوں سے لیٹر لکھنے والے کا سراغ لگانے کیلیے تحقیقات شروع کردی ہیں جبکہ چیئرمین ایف بی آر نے قانونی رائے اور جواب دینے کیلیے معاملہ ممبر لیگل کو بھجوادیا ہے۔ اس بارے میں چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ یہ لیٹر جعلی ہے اورشاہد حسین اسد سے ان کی اس حوالے سے بات ہوئی ہے، انہوں نے اس لیٹر سے لاتعلقی ظاہر کی ہے۔ اس بارے میں جب ایف بی آر کے سابق ممبر شاہد حسین اسد سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ یہ لیٹر انکے جعلی دستخطوں سے چیئرمین نیب کو لکھا گیا ہے۔
شاہد حسین اسد نے کہا کہ انکی چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی سے ٹیلی فون پر بات ہوئی ہے اور چیئرمین ایف بی آر کو بتایا کہ اس لیٹر پر ان کے دستخط جعلی ہیں لہٰذا انکا اس خط سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ایف بی آر کے ذرائع کا کہنا ہے کہ چندروز قبل ایک اہم ادارے کا اہلکار چیئرمین ایف بی آر سے ملاقات کیلیے آیا اور انہوں نے لفافہ کھول کر یہ لیٹر چیئرمین ایف بی آر کو دیا جس پر چیئرمین ایف بی آر نے معاملے کی انکوائری کا کہا اور لیٹر قانونی رائے کیلیے ایف بی آر کے ممبر لیگل کو بھجوادہا ہے۔
سابق ممبر ایف بی آر شاہد حسین اسد کے جعلی دستخطوں سے چیئرمین ایف بی آر اور ممبر ان لینڈ ریونیو آپریشن کے خلاف تحقیقات کیلیے قومی احتساب بیورو کے چیئرمین کو دی جانے والی درخواست کی کاپی میں چیئرمین ایف بی آر پر سنگین نوعیت کے الزامات عائد کیے گئے ہیں، درخواست کی کاپی وزیراعظم عمران خان،صدر پاکستان عارف علوی اور چیف جسٹس آف پاکستان کو بھجوائی گئی ہے۔
’’ایکسپریس ‘‘ کو دستیاب سابق ممبر ایف بی آر شاہد حْسین اسد کے جعلی دستخطوں سے بھجوائی جانیوالی درخواست میں الزام عائد کیا ہے کہ آئی ایم ایف کی جانب سے ایف بی آر کو پراپرٹی ڈویلپرز و بلڈرز کو فکسڈ ٹیکس اسکیم کے ذریعے ریلیف دینے کی مخالفت کے بعد ایف بی آر کے موجودہ چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی اور ممبر ان لینڈ ریونیو آپریشن سیما شکیل بڑے پراپرٹی ڈویلپرز کو اربوں روپے کا ریلیف دینے کیلیے ذاتی طور پر فیور دینے کی کوشش کررہے ہیں جس سے قومی خزانے کو بھاری نقصان پہنچنے کی توقع ہے۔
مذکورہ جعلی لیٹر میں کہا گیا ہے کہ آئی ایم ایف کی طرف سے ریئل اسٹیٹ سیکٹر کیلیے فکسڈ ٹیکس اسکیم مسترد کیے جانے کے بعد ایف بی آر نے 3دسمبر 2019 کو جاری کردہ جوریزڈکشن آرڈر نمبری 7(401)Jurisdiction/2019/280620-R کے ذریعے بلڈرز اور ڈویلپرز کے تمام کیس آر ٹی او اسلام آباد ، کارپوریٹ آر ٹی او لاہور اور ایل ٹی یو ٹو کراچی میں قائم کیے جانے والے تین خصوصی سرکلز کو ٹرانسفر کردیے ہیں اور اس حوالے سے سیکریٹری جوریزڈکشن محمد نواز کے دستخطوں سے جاری کردہ مذکورہ جوریزڈکشن آرڈر میں کہا گیا ہے کہ بلڈرز و ڈویلپرز کے تمام کیسز ان اسپیشل سرکلز کو منتقل کردیے گئے ہیں۔
شاہد حسین اسد کی جانب سے لکھے گئے لیٹر میں مزید کہا گیا ہے کہ مذکورہ آرڈر کے بعد لاہور،ملتان ،ساہیوال اور بہاولپور کے پراپرٹی ڈویلپرز و بلڈرز کے کیسوں کو صرف لاہور آفس دیکھے گا۔اسی طرح اسلام آباد، راولپنڈی، سیالکوٹ، فیصل آباد،پشاور،گوجرانوالہ اور سرگودھا کے پراپرٹی ڈویلپرز و بلڈرز کے کیس اب صرف آر ٹی او اسلام آباد دیکھے گا۔ لیٹر میں مزید بتایا گیا ہے کہ ملک بھر میں پراپرٹی بلڈرز اور ڈویلپرز کے بارہ ہزار کے لگ بھگ کیس ہیں اور یہ واضح نہیں ہے کہ ایک آفیسر کیسے تین ہزار سے چار ہزار بلڈرز و ڈویلپرز کے ٹیکس ایشوز کو ڈیل کرسکے گا جبکہ بلڈرز و ڈولپرز کے کیسوں میں انکم ٹیکس،سیلز ٹیکس اور ود لوڈنگ انکم ٹیکس سے متعلقہ ایشوز شامل ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک آفیسر تین سے چار ہزار کیسوں میں آڈٹ ،انفورسمنٹ واجبات اور ٹیکس کلکشن سے متعلقہ معاملات کی ایک ساتھ دیکھ بھال کرے۔
مذکورہ جعلی لیٹر میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ ایف بی آر کی طرف سے پراپرٹی کے تمام کیسوں کی جوریزڈکشن اسلام آباد، لاہور اور کراچی کے تین اسپیشل سرکلز میں منتقل کرنے کا ایک ہی مقصد نظر آتا ہے کہ کسی طرح پراپرٹی ڈویلپرز پر کم سے کم ٹیکس کیسے کیا جاسکتا ہے۔