لیّہ (جیوڈیسک) ایک سروے کے دوران ڈان کے علم میں یہ بات آئی کہ ضلع لیّہ میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) سے فائدہ اُٹھانے والوں کو موبائل فون کے جعلی سم کارڈز کے ذریعے نقد امداد سے محروم کردیا گیا ہے۔
غریب اور ضرورتمند افراد جن زیادہ تر خواتین شامل تھیں، رقم کی ادائیگی کے عمل میں ملوث حکام کی وجہ سے اس ضلع کے درجنوں لوگ اپنی نقد امداد سے محروم کردیے گئے۔
پیپلزپارٹی کی حکومت کی جانب سے پاکستان سے غربت کے خاتمے کے پروگرام کے تحت معاشی طور پر پسماندہ لوگوں کی امداد کے لیے یہ پروگرام شروع کیا تھا، اور اس کے فارم پارٹی کے عوامی نمائندوں کے ذریعے غریب لوگوں میں تقسیم کیے گئے تھے۔ بعد میں ان فارموں کی تصدیق ایک غیرسرکاری تنظیم کی جانب سے کیے جانے والے سروے کے دوران کی گئی تھی۔
ضلع لیّہ میں اس اسکیم سے فائدہ اُٹھانے والوں میں خواتین کی تعداد زیادہ تھی۔ حکومت نے اسے ایک ہزار روپے نقد امداد کی فراہمی سے شروع کیا تھا، جو ہر تین مہینے بعد ادا کی جاتی تھی۔ بعد میں مسلم لیگ نون کی حکومت نے اس رقم میں فی ماہ دو سو روپے کا اضافہ کردیا تھا۔
سب سے پہلے محکمہ ڈاک کے تعاون سے نقد امداد بذریعہ منی آرڈر مستحقین کے دروازے تک پہنچائی گئی۔ لیکن شکایات بڑھتی گئیں کہ رقم ڈاکیے کی جانب سے پہنچائی نہیں کی گئی۔ حکومت نے اس اسکیم کے پائلٹ پروجیکٹ کا پہلا مرحلہ شروع کیا تو پنجاب سے ضلع لیّہ کو منتخب کیا گیا تھا۔
اس ضلع میں اب تک اب تک 59 ہزار دو سو پچاس افراد نے فائدہ اُٹھایا ہے۔ان میں چوبارہ تحصیل سے سات ہزار سات سو اسّی، کروڑ لعل عیسان سے سولہ ہزار نو سو اٹھاون اور لیّہ تحصیل سے چونتیس ہزار پانچ سو بارہ افراد شامل ہیں۔
بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے فائدہ اُٹھانے والوں کی تصدیق نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ ریگولیشن اتھارٹی (نادرا) کے آفس کے ذریعے کی کی گئی، جہاں یوبی ایل بینک اور ایک موبائل کمپنی کے کاؤنٹر بھی قائم کیے گئے تھے۔