تحریر : انعام الحق 29فروری 2016کو میں نے ممتاز قادری کی پھانسی پر عوام کے ردِ عمل کو دیکھتے ہوئے ایک تحریر لکھی جس کا عنوان تھا’’قادری کے جنت میں جانے پر عوام کا احتجاج‘‘۔تحریر کُچھ یوں تھی’’چار سال میں ایک بار آنے والی تاریخ29فروری کو حکومتِ وقت کی اجازت سے سابق گورنر سلمان تاثیر کے قتل کے مجرم ممتاز قادری کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔یہ سزاسوچ سمجھ کردی گئی،تاریخ کا تعین اور اگلے ہی دن عوام کے لئے پٹرولیم قیمتوں میں کمی کی خوشخبری اور پھرصدرِ پاکستان کے دستخط.۔پاکستانی عوام اور علمائ کی جانب سے اس سزا کو ظلم اور ممتاز قادری کو بے شمار لقب دئیے جا رہے ہیں۔سوچنے کی بات ہے کہ علمائ کہتے ہیں کہ وہ سیدھا جنت میں جائے گا۔
اگر ایسا ہے تو پھر احتجاج کس بات پر؟توڑ پھوڑ کیوں؟ملکی نظام کو درہم برہم کرنے کی دھمکیاں کیوں؟ہڑتالیں کیوں؟حکمرانوں کے لئے غلیظ گالیاںکیوںحیرانگی ہوتی ہے اس بات پر جسے شہید کہ رہے ہیں اُسکے شہید ہونے پر پاگل ہورہے ہیں۔‘‘یہ تحریر میں نے کسی اخبار یا کسی بھی ادارے کو شائع www.facebook.com/journalistinam پر ڈال دی۔بس پھر کیا تھا جعلی عاشقانِ رسول نے جس قسم کی زبان استعمال کی وہ میں بیان نہیں کر سکتا۔
اکثر پیغامات مجھے مٹانا پڑے .افسوس انتہائی افسوس!کہ خود کو عاشقان رسول کہتے ہیں جبکہ ارادے اسقدر خطرناک اور زبان اتنی پلید کہ بیان سے باہر.! میرے خیال سے ممتاز قادری کی سزا جعلی عاشقانِ رسول کے روٹی پانی کا انتظام کر گئی ہے۔جس طرح تیزی سے عوام کی نظروں میں علمائ اکرام گرتے جا رہے تھے ممتاز قادری کے تختہ دار پر لٹکتے ہی سب کو موقع مل گیا کہ عاشقانِ رسول کا نعرہ لگا کر سب کو دوبارہ سے اکٹھا کر لیا جائے اور ہاتھ سے نکلتی ہوئی اپنی عزتیں واپس حاصل کی جائیں۔
Mumtaz Qadri
چند علمائ شروع سے آج تک یہ بات کرتے رہے ہیں کہ ممتاز قادری نے جو فعل کیا وہ سِرے سے غلط تھا، اُسکو جو سزا ملی وہ ٹھیک ملی ہے۔قادری کی وفات پر عوام کے میڈیا پر حملے اور پر تشدد احتجاج نے یہ ثابت کردیا کہ عاشقانِ رسول کے قول اور فعل میں واضح تضاد تھا۔عین اُسی طرح جس طرح ممتاز قادری دُنیا کے سامنے ’’غلامی رسول میں موت بھی قبول ہے‘‘کے نعرے لگاتا تھا اور اندر کھاتے میں صدرِ مملکت کے سامنے خدارا معافی دے دی جائے کی درخواستیں بھیجتا رہا۔ میری ذاتی رائے کے مطابق سچا عاشقِ رسول وہ ہے جو رسول پاک (ص) کی سُنت پر عمل کرے اور رسولِ پاک (ص) کی سنت کے مطابق کسی بھی شخص کو یہ حق حاصل نہیں کہ کسی کو بھی گستاخِ رسول کہہ کر قتل کر دے۔
رسول پاک (ص) نے کبھی کسی کو اس بات کا حکم نہیں دیا کہ میری گستاخی کرنے والے کو قتل کر دو۔تو پھر یہ آج کے علمائ کس حق سے عام عوام پر یہ الزام لگا کر اُنہیں واجب القتل قرار دے دیتے ہیں؟حقیقی طور پر تو یہ رسولِ پاک (ص) کی نا فرمانی کر رہے ہیں ،اس لحاظ سے اصل گستاخِ رسول (ص) تو یہ لوگ خود ہیں۔گستاخِ رسول(ص) کا قانون نہ تو اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے اور نہ ہی اللہ کے رسول (ص) نے،جس قانون کے نام پر پاکستان میں قتل و غارت ہو رہا ہے وہ عام انسانوں کا خود ساختہ اور نام نہاد قانون ہے جس کی کوئی حیثیت نہیں۔
آدھے علمائ اس قانون کی حمایت کرتے ہیں اور آدھے مخالفت،لہٰذا سب سے ضروری بات یہ ہے کہ تمام علمائ مل کر اس قانون پر بحث کریں اور کسی ایک نتیجہ پر اتفاق کریں۔لیکن ایسا تاقیامت ممکن نہیں کیونکہ جہاں دین و دُنیا کا مقصد صرف مفاد ہو وہاں اتفاقِ رائے دو اشخاص کے درمیان بہت مشکل ہوتا ہے۔مولویوں کے درمیان اتفاق رائے کا ہونا ایسے ہی ہے جیسے دو سوتنوں کا یکجا ہونا۔