تحریر : عثمان غنی ہیجانی کیفیت برپا ہے، رستہ ہے کہ نظر نہیں آ رہا، افسوسناک پہلو یہ کہ غور و فکر کرنے والا باب بھی خاموش سے دوچار ہے، ایسی خاموشی کہ کوئی پہاڑ بھی اپنی جگہ سے لرز جائے تو بھی خاموشی کا یہ سکوت تارتار نہ ہو بقول شکیب جلالی آکے پتھر تو میرے صحن میں دو چار گرے جتنے اس پیڑکے پھل تھے ، پس دیوار گرے
کہاجاتاہے کہ Misfortunes,never come, aloneمصیبتیں کبھی تنہا نہیں آتیں، اپنے ساتھ مزید مصیبتوں کا نہ تھمنے والا سلسلہ بھی ساتھ لاتی ہیں، مصیبتوں کے ایک سلسلے کی ابتداء اسی کی دہائی کے اوائل سے شروع ہوگئی جب ہم نے انصارومہاجرین کے ”بھائی چارے ”کو فروغ دینے کے لیے اپنی ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا، کسی کی جنگ کو اپنی جنگ سمجھ کر (Proxy-war) پاکستان کو آگ وخون کی اندھیر نگری میں دھکیل دیا، جسکے ”ثمرات ” سے عوام آج تک مستفید ہو رہے ہیں ، ڈالروں کی چمک اور” شریعت” نافذ کرنے کی تمنانے بہت کچھ کرنے پر مجبور کردیا جو ہمیں نہیں کرنا چاہیے تھا ، ہوا کچھ یوں تھا کہ اپریل 1978ء میں سردار دائود کی حکومت فوجی انقلابی کی نذر ہوگئی تھی، اس انقلاب کے نتیجے میں برسراقتدار آنے والے نور محمد ترکئی کو پیپلزڈیمو کر یٹک پارٹی کی حمایت حاصل تھی، غور طلب نقطہ یہ ہے کہ اس تبدیلی سے افغانستان اور پاکستان کے درمیان مفاہمت کا عمل رک گیا تھا۔
یاد رہے کہ افغانسان وہ واحد ملک ہے جس نے اقوام متحدہ میں پاکستان کی شمولیت کے خلاف ووٹ دیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ انقلابی افغانستان کے وقت دونوں ملکوں کے درمیان معاہدہ پر مستعدی سے غور کیاجا رہا تھا اور پاکستان کے وزیر خارجہ اس سلسلے میں کابل روانہ ہونے کے لیے تیاریاں کر رہے تھے کہ افغانستا ن حکومت کی تختہ الٹ دیاگیاتھا، ستمبر 1979میں حفیظ اللہ امین کی قیادت میں ترکئی کاتختہ الٹ دیاگیا ، پھر افغانستان میں بدامنی کا سلسلہ چل نکلا۔ 5ستمبر 1979میں روسی قومیں وسیع پیمانے پر افغانستان میں داخل ہوئیں، انہوں نے امین کو اقتدار سے الگ کرکے ببرک کارسل کی حکومت قائم کردی حالات اس وقت تبدیل ہوئے جب روسی افواج کی افغانستان آمد کی وجہ سے خارجہ پالیسی کی ترجیحات کو بدلنا پڑا، کیونکہ مغربی سرحدوں پر روس کی عسکری موجودگی کے بعد اسے پاکستان کے نزدیک غیر معمولی سیاسی اہمیت حاصل ہو گئی تھی۔ روسی فوجوں کی افغانستان آمد سے 30لاکھ سے زائد افغان مہاجرین نے پاکستان میں پناہ لے لی جسکی وجہ سے پاکستان کو اقتصادی دبائو اور متعد د سیاسی وسماجی مسائل کاسامنا کرنا پڑا، روس کا الزام یہ تھا کہ پاکستان افغانستا ںکی خانہ جنگی میں براہ راست ملوث ہے اور وہ مجاہدین کو تربیت اور اسلحہ فراہم کررہا ہے لیکن اس کے پیچھے” شیطان بزرگ ”کاکہیں اہم رول تھا۔
United Nations
چنانچہ روس اس مسلسل جنگ کی ذمہ داری پاکستان پر عائد کرتارہا، ماسکو ریڈیو سے اس ضمن میںپورے زور وشور کے ساتھ پاکستان دشمن پروپیگنڈا کیا جاتا رہا مگر ہمارے بڑے کسی ”عظیم ”مقصد کو پورا کرنے میں مگن تھے، ابتداء میں روس کا رویہ دھمکی آمیز تھا اور محسوس پر ہوتا تھا کہ وہ پاکستان کو ”سبق ” سکھانے کے درپے ہے۔ ستمبر 1980میں اقوام متحدہ میں آغاشاہی اور گرومیکو کی ملاقات ہوئی جس میں موخر الذکرنے پاکستانی وزیر خارجہ سے احتجاج لہجے میں کہا”یوں محسوس ہوتا ہے کہ آپ ہمارے خلاف جنگ لڑنا چاہتے ہیں۔
افغانستان میں روسی فوجوں کی یلغار کے فوراًبعد پاکستان نے اس مسئلے کے مذاکراتی حل کے لیے کوششیں شروع کر دیں پاکستان کا موقف مگریہ تھا کہ روس افغانستان سے اپنی فوجیں واپس بلالے، مستقبل میںعدم مداخلت کی ضمانت دے اور افغان مہاجرین واپس چلے جائیں، اس ضمن میں سب سے پہلے اسلامی ممالک کی تنظیم نے روس کی مذمت کرتے ہوئے اس مسئلہ پر ایک کمیٹی تشکیل دی جو اسلام آباد اورکابل کے وزیر خارجہ اور تنظیم کے سیکرٹری جنرل پر مشتمل تھی ‘تاہم یہ کمیٹی کوئی قابل ذکر کردار ادا نہ کرسکی۔ مسلم ممالک کی تنظیم ( او آئی سی ) کی طرف سے قائم کی گئی وزراء خارجہ کی کمیٹی کی ناکامی کے بعد افغان مسئلے کو اقوام متحدہ کے سامنے پیش کیاگیا ، جس میں 1980میں ایک قرار داد پیش کی گئی۔
اس قرار داد میں مسئلے کا پرامن حل روسی فوجوں کی واپسی، افغانستان کی آزادی کی بحالی اورمہاجرین کی واپسی پر زور دیاگیا ، اس مسئلے نے بگڑنے میں دن دگنی رات چگنی ترقی کی ہے اب صورتحال خاصی کشیدہ ہوگئی ہے ، افغان مہاجرین کی پاکستان میں موجودگی کے معاہدہ کی تاریخی 30جون تھی، جسکے اختتام پذیر ہونے پر اس کی مدت میں چھ ماہ کی توسیع کااعلان کردیاگیا ہے ، پشاور کا اسلام آباد سے مطالبہ یہ ہے کہ 30جون کے بعدافغان مہاجرین کی میزبانی کرنے سے ہم قاصر ہیں، کابل کی خواہش یہ ہے کہ رجسٹرڈ افغان مہاجرین ، جن کی تعداد 15لاکھ ہے، کو 2020تک رہنے کی اجازت دی جائے۔
Afghan Refugees
اقوام متحدہ میں پاکستانی سفیر ملیحہ لودھی نے بھی عالمی برادری پرزور دیا ہے کہ وہ افغان مہاجرین کی واپسی کے سلسلے میں اپنے وعدے پر عمل کریں، ادھر اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین ( UNHCR) کے ہائی کمشنر Filippo-Grandiکاکہنا ہے کہ پاکستان میں 15لاکھ سے زائد افغان مہاجرین رجسٹرڈ ہیں، اگر وہ اپنے رضا کرانہ طور پر واپسی کا اعلان کریں تو انہیں فی خاندان تین لاکھ روپے بطور امداد دیے جائیں گے۔ تین دہائیاں قبل ہم نے بھائی چارے کو فروغ دینے کے لیے افغانستان کے باسیوں کو اپنی سرزمین پر پناہ دی۔
ہر طرح کی سہولتیں باہم پہنچائیں ، اس اُمید پر کہ جیسے ہی افغانستان میں جنگ کی صورتحال بہترہوگی، پناہ گرین واپس چلے جائیں گے لیکن اس کے متبادل پاکستان کو ایک سستی لیبراور جفاکش طبقہ ملا اور دوسری طرف کلا شنکوف کلچر، اسمگلنگ ، بدامنی وغیرہ جیسی سوغاتیں ملیں، موجودہ حالات میں 15 لاکھ پناہ گرین رجسٹرڈ ہیں اور اس کے دو گناہ کاہمارے پاس ریکارڈ ہی نہیں، اگر 15لاکھ پناہ گزینوں کو واپس بھیج بھی دیں کو باقی غیر رجسٹرڈ تعداد کاکیاہوگا، وزیر داخلہ نادرا سے شناختی کارڈ رجسٹرڈ کرانے کا کہہ رہے ہیں اور موبائل کمپنیوں سے سموں کی تصدیق کا ،اس سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ جن کے شناختی کارڈ جعلی ہیں یا ابھی تک ریکارڈ بن ہی نہیں پایا ، ان کی تصدیق کس طرح ہو پائے گی اور جو غیر ملکی سمیںاس سرزمین پر استعمال ہو رہی ہیںاُن کی روک تھام کیسے ممکن ہو پائے گی ،نقلی کاموں کی اصل الجھنوں جواب شاید کسی کے پاس نہیں۔