تحریر : میر شاہد حسین میں کیسے لکھوں اور کیوں کر لکھوں کہ آج میرا قلم بھی لکھنے میں میرا ساتھ نہیں دے رہا۔ جذبات یہ مجھ سے کہہ رہے ہیں کہ احساس کی تو کوئی بھی زبان نہیں ہوتی۔ تم لکھو گے تو کون سی زبان میں لکھو گے؟ اور پھر اگر تم لکھ بھی لو تو بھی اسے کون سمجھ پائے گا۔ پھر اچانک اندر سے آواز آئی کہ جیسے کوئی کہہ رہا ہو کوئی سمجھے یا نہ سمجھے تمہیں لکھنا ہے کہ تمہارا فرض لکھنا ہے ۔پھر میں نے اپنی تمام صلاحیتیں اور توانائیاں جمع کرکے ایک ہی جملہ لکھا جس کے بعد میرا قلم چل نکلا اور وہ تھا …سقوط ڈھاکہ تو اب ہوا ہے۔
میں تاریخ کا ایک طالب علم ہوں اور میں نے تاریخ میں پڑھا تھا کہ 16دسمبر 1971ء میں پاکستان دو لخت ہوا اور جسے سقوط ڈھاکہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ پاکستان ایک ملک ہی نہیں بلکہ ایک نظریہ تھا جس کو ختم کرنے کی ایک نہیں بلکہ کئی بار کوششیں کی گئیں لیکن اسے دو لخت کرکے بھی ختم نہ کیا جا سکا۔
Motiur Rahman Nizami
آج بنگلہ دیش کو وجود میں آئے 44سال ہونے کو آرہے ہیں لیکن اس نظریہ کو بار بار پھانسی دے کر بھی کچلا نہیں جا سکا۔نظریہ پاکستان کا ساتھ دینے کے جرم میں پھانسی پانے والوں میں عبدالقادر ملا، قمر الزماں چوہدری، پروفیسر غلام اعظم، علی احسن مجاہد کے بعد اب جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے امیر مطیع الرحمن نظامی بھی شامل ہو گئے۔
یہ وہ نظریہ پاکستان کے سپاہی تھے جنہوں نے ہتھیار نہیں ڈالے اور نہ ہی اپنے نظریات پر کوئی سودے بازی کی، کوئی رحم کی اپیل دائر نہیں کی…سولیوں پر جھول گئے لیکن ماتھے پر کوئی شکن نمودار نہیں ہوئی… کیونکہ یہ نیازی تھے اور نہ ہی کمانڈو تھے۔لیکن نظریہ پاکستان کا حلف اٹھانے والے نظریہ پاکستان کیا جانیں۔ پاکستان کو دو لخت تو کیا جاسکتا ہے لیکن نظریہ کو پھانسی کے ذریعے ختم نہیں کیا سکتا۔
Amir Motiur Rahman
مطیع الرحمن کی پھانسی صرف ایک فرد کی پھانسی نہیں ہے بلکہ 57اسلامی ملکوں کے منہ پر طمانچہ ہے۔ اس پھانسی نے اقوام متحدہ، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور نام نہاد انسانی حقوق کے اداروں کو بھی بے نقاب کر دیا ہے۔ معاملہ اسلام کا ہو تو یہ اسی طرح منہ چھپائے بیٹھے رہتے ہیں۔
مجھے آج بنگلہ دیش کی حکومت سے کوئی گلہ ہے اور نہ ہی پاکستان کی حکومت سے ہے۔ مجھے تو بس گلہ ہے اپنی اسلام پسند عوام سے کہ جنہوں نے پاکستان بنایا تھا اور اس کے لیے ان کے باپ دادا نے قربانیاں دیں تھیں۔
اپنی عوام کی بے حسی اور خاموشی کو دیکھ کر مجھے آج ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے واقعی سقوط ڈھاکہ تو اب ہوا ہے۔
پتا اب اس کا بدل گیا ہے وہ جسم و جاں سے نکل گیا ہے کوئی جو پوچھے کہاں ملے گا کہو کہ ‘جنت محل’ گیا ہے (نجیب ایوبی)