تحریر: فرخ شہباز وڑائچ تعلیم کسی بھی فرد یا معاشرے کو ترقی یافتہ بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔اگر ہم تاریخ کے اور اق پلٹیں تو ہمیں پتا چلتا ہے جن قوموں نے ترقی کی ان کی ترقی کا راز ان کے نظام تعلیم میں پوشیدہ ہے۔ بہت سے ترقی پذیر ممالک نے اپنے نظام تعلیم کو بہتر بنا کر خود کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل کر لیا ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ آج تک دنیا میں جتنی قوموں نے ترقی کی ہے صرف اورصر ف تعلیم کے بل بوتے پر کی ہے۔زمانہ قدیم کی مصری ، یونانی ، چینی ، عراقی اور سندھی تہذیبوں کی ترقی کا راز بھی تعلیم اور فن و ہنر میں پوشیدہ ہے۔اہرام مصر جیسے شاہکار کی ہزاروں سال پہلے تخلیق کو دنیا سمجھنے سے قاصر ہے۔اور عجائبات دنیا میں شامل کرنے پر مجبور ہے۔ یہ تخلیق اس دور کے محنتی مزدوروں اور انجینئر ز کے فن اور یقینی طور پر جیومیٹری کے علم کی بدولت ہی ممکن ہوا ہو گا۔
ارتقاء دنیاکاایک ہی بنیادی قانون ہے۔اور وہ ہے(of the fittest Survival )یعنی طاقت ور کا زندہ رہنا اور کمزوروں کا مٹا دیا جانا۔ یہ قانون دنیا کی تمام مخلوقات پر لاگو ہوتا ہے۔جن و انس ، حیوانات ، نباتات سبھی اس قانون کے پابند ہیں۔جانوروں ہی کی مثال لے لیں۔ بیالوجی کے عظیم سائنس دان ڈارون کے فلسفے کے مطابق دنیا کی تخلیق سے لے کر آج تک سینکڑوں ایسے جانور تھے جو حالات اور موسموں کی تبدیلی کے باعث اس دنیا سے بالکل ختم ہو گئے۔اورجو جانور بچ گئے انہیں زندہ رہنے کے لیے اپنی زندگی میں اور عادات میں نمایاں تبدیلیاں لانا پڑیں۔بالکل یہی معاملہ انسانوں کے ساتھ بھی تھا۔ دنیا میں صرف وہی قومیں زندہ رہیں جنہوں نے بدلتے حالات کے تقاضوں کے مطابق اپنے آپ کو مسلسل بدلا۔ہر لحاظ سے اپنے آپ کو جدید تر بنایا۔شاید اسی لیے ایسی قوموں کا نام آج تک زندہ ہے۔اور جو قومیں اپنے آپ کو حالات کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہ کر سکیں۔ ان کا نام ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مٹ گیا۔ یا تو مختلف جنگوں میں طاقت ورقوموں نے ان کا صفایا کر دیا یا پھر چند صدیوں بعد خود ہی ان قوموں کا وجود صفحہ ہستی سے مٹ گیا۔
Science
یہ قانون آج بھی اسی طرح سے لاگو ہوتا ہے جیسا کہ شروع دن سے لاگو ہوتا آرہا ہے۔مسلمانوں کی موجود ہ حالت اور ان کے ساتھ کیے جانے والے ہتک آمیز سلوک کی وجہ بھی یہی ہے کہ وہ تعلیمی لحاظ سے پستی کی جانب جا رہے ہیں۔ایک وقت تھا کہ دنیا میں مسلمانوں کا ڈنکا بجتا تھا۔جابر بن حیان ، بوعلی سینا، الراضی ، ابن الہیشم اور البیرونی ان عظیم مسلمان سائنسدانوں نے دنیا میں سائنس کی بنیادرکھی جس کے بعد جدید تعلیم کے انداز یکسر تبدیل ہو گئے۔اورا نہیں عظیم سائنسدانوں نے دنیا کو جدید علوم سے روشناس کروایا۔ مسلمانوں نے جدید نظریات کی بدولت ترقی کے مراحل طے کیے اور جدید علوم میں اپنا لوہا منوایا۔لیکن جیسے ہی مسلمانوں نے تعلیم سے دوری اختیار کی تو دوسری اقوام ان پر حاوی ہوگئیں۔اور ان سے انہی کے علوم چھین کر ترقی کر گئے۔اور آج وہ چاند پر بھی پہنچ گئے۔یقیناً علامہ اقبال نے اسی وقت کے لیے کہا تھا۔۔
تھے تو وہ آباء تمھارے ہی مگر تم کیا ہو ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ہو
حال ہی میں ایک تحقیق ہوئی جس کے مطابق دنیا کی 400بڑی جامعات میں پاکستان کی کوئی بھی یونیورسٹی شامل نہیں۔اس وقت صرف امریکہ میں5ہزار 758یونیورسٹیاں ہیں۔56کے لگ بھگ اسلامی ممالک میں کل 580جبکہ بھارت میں یونیورسٹیوں کی تعدا مجموعی طور پر اسلامی ممالک سے زائد یعنی 583ہے۔پاکستان میں 128جامعات تعلیمی میدان میں خدمات سر انجام دے رہی ہیں۔دنیا کی 400بہترین جامعات میں اسلامی ممالک میں سے سعودی عرب کی صرف ایک یونیورسٹی شامل ہے۔جبکہ اس فہرست میں امریکہ کی 6بھارت کی2یونیورسٹیاں شامل ہیں۔امریکی جریدے یو ایس نیوز اینڈ ورلڈ رپورٹ نے یہ درجہ بندی تعلیم اور کیرئیر پر تحقیق کرنے والے ایک بین الاقوامی ادارے سے کروائی ہے۔ جس میں دنیا کی یونیورسٹیوں کی عملی ساکھ ، فیکیلٹی اور طلبہ کا تناسب انٹر نیشنل فیکیلٹی اور دیگر معاملات کو میرٹ بنایا گیا ہے۔یہ رپورٹ ہمارے لیے باعث ندامت بھی ہے۔آج جب ہم اپنے پیارے نبی ۖ کے اس فرمان کو بھی بھول چکے ہیں۔” علم مومن کی گم شدہ میراث ہے”جہاں سے ملے لے لو۔شاید انہی تعلیمات کو نظر انداز کرنا ہمارے لیے عالم تمام میں رسوائی کا باعث بن رہا ہے۔ آج غیر مسلم قرآن پاک کے فرامین پر تحقیق اور عمل کر کے کامرانی کی منازل تک پہنچ چکے ہیں۔بد قسمتی سے مسلمان ممالک کے حکمرانوں کی ترجیح علم کی بجائے مال و دولت ہے۔دنیا وی عیاشیاں محلات او ر اسی قسم کے دیگر معمولات ان کی ترجیحات ہیں۔جب ہم ایشیا کی یونیورسٹیوں پر نظر ڈالتے ہیں تو چین جنوبی کوریا اور بھارت اپنی یونیورسٹیوں میں ملکی اور غیر ملکی طلبہ پر سب سے زیادہ سرمایہ کاری کرنے والوں میں سر فہرست نظر آتے ہیں۔جب قدیم ترین یونیورسٹیوں کی تحقیق ہوتی ہے تومصر کی ” جامعہ الا ز ہر ”دنیا کی مستند اور قدیم ترین یونیورسٹی ہے جو دسویں صدی میں قائم ہوئی۔اس کے بعد گیارھویں صدی میں بغداد کی ” آل نظامیہ ” یونیورسٹی قائم ہوئی۔اس کے بعد اسلامی خطہ میں کوئی مستند اور قابل ذکر یونیورسٹی قائم نہ ہو سکی۔دنیا کو جہالت کی تاریکیوں سے نکالنے اور علم کے نور سے منورکرنے والے خود تاریکیوں میں بھٹکنے لگے۔زوال کی داستان تب سے شروع ہے اور اب تک جاری ہے۔
اس دوران یورپی ممالک نے جوتعلیمی ادارے قائم کیے وہ علم کے مینار بن گئے۔اور پوری دنیا سے طلبہ علم کے حصو ل کے لیے وہاں جانے لگے۔یورپی ممالک کی ترقی کا راز شاید اسی میں مضمر ہے۔اسلامی ممالک میں جن ملکوں نے نمایاں کامیابی حاصل کی ان ممالک کے حکمرانوں نے تعلیم کو تر جیح اول بنایا۔” ڈاکٹر مہاتیر محمد نے ملائشیا میں بر سر اقتدار آکر ملائشیا کا تعلیمی بجٹ 25%تک بڑھا دیا تھا۔ جو ملائشیا کی تیز رفتار ترقی کا باعث بنالیکن ایک ہم ہیں کہ کان پر جوں تک نہیں رینگتی،کھوکھلے نعرے دن رات بلند ہورہے ہیں۔کوئی سوچنے والا نہیںزوال کی داستان آج بھی اسی طرح جاری ہے۔۔۔!