ون یونٹ کا خاتمہ ہی صوبائیت اور علیحدگی پسند تحریکوں کی پہلی وجہ بنا جس کے زمہ دار اس وقت کے آرمی چیف اور صدر جنرل ایوب خان تھے۔ بنگال کے سیاسی و مذہبی راہنماء صرف اور صرف اپنے حقوق کا تحفظ اور شناخت چاہتے تھے مگر ان کے مطالبے کے جواب میں انہیں کیا ملتا تشدد اور موت، 1971ء کے انتخابات کے نتائج کو اگر مان لیا جاتا تو شائد بنگال بنگلہ دیش نہ بنتا اور آج بھی پاکستان کی ایک اکائی ہوتا۔ لیکن مشرقی پاکستان کے خودسر اور نشے میں دھت رہنماء بنگالیوں کو حقارت سے دیکھتے اور انہیں بھوکے بنگالی کہہ کر پکارتے بنگالیوں کا کہنا تھا کہ مغربی بنگال کو بھی وفاق کے بجٹ سے اْتنا ہی حصہ دیا جائے جتنا کہ آبادی اور مسائل کے لحاظ سے لاہور اور کراچی کودیا جاتا مگراس طرف کے آقائوں کویہ بات گوارا نہ تھی۔
نعرہ لگا دیا گیا، ادھر تم ادھر ہم، اگر کسی کی آزادی اور حقوق کو سلب کیا جائے تو پھر کیا ہو گا۔ وہی ہو گا جو بنگالیوں نے کیا علیحدگی کی راہ لی اور ہتھیار اٹھا لئے۔کچھ ایساہی کھیل ان دنوں بلوچستان میں کھیلا جا رہا ہے۔ عام بلوچی کو جاہل و اجڈ سمجھ کر بات کرنا گوارا نہیں کی جاتی اور اگر کوئی سردار ہے تو اسے دلال سے زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ آخر بلوچ چاہتا کیا ہے۔ ویسی ہی ترقی جیسی لاہور، اسلام آباد اور کراچی میں ہو رہی ہے یا پھر وہی مراعات و سہولیات جیسی ان خوبصورت اور جدید شہروں کو دی جا رہی ہیں۔ بلوچ عوام کو کھانے پینے کی اشیاء دوسرے صوبوں سے زیادہ مہنگے داموں ملتی ہیں۔ زرائع آمدورفت کی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ سوئی کے مقام سے گیس نکلنی ہے مگر مقامی لوگوں کو یہ سہولت میسر نہیں۔ کہ اسے استعمال کر سکیں انڈسٹری کا وجود نہ ہونے کے برابر ہے بہت سے علاقوں میں بجلی ہے نہ پانی سڑکوں کا جہاں جال بچھا ہونا چاہئے تھا۔
وہاں بڑے شہروں کو ملانے والی چند سڑکوں کے علاوہ کوئی نئی سڑک نہیں بنائی گئی اک گوادر پورٹ سے ترقی کی امید لگائی گئی تھی اسے بھی 40 سال کے لئے سنگا پور کو دیدیا گیا ہے بلوچستان معدنیات سے مالا مال صوبہ ہے رب تعالیٰ کی خاص عنائتیں ہیں۔ اس صوبے پر یہاں سے سوئی گیس نکالی جاتی ہے سونا ہے خام تیل ہے قیمتی پتھر ہیں۔ اور سب سے اہم بحرہند پر واقع ہونے کے باعث پورے مڈل ایسٹ کے لئے ایک پل کی حیثیت رکھتا ہے۔ جسے عالمی تجارتی روٹ بنا دیا جائے تو کروڑوں ڈالر راہداری کی مد میں اکٹھے کئے جا سکتے ہیں۔
مگر اب سوچنے والی بات یہ ہے کہ یہ سب انعامات الیہہٰ ہونے کے باوجود بلوچستان پسماندہ کیوں ہے۔ اور وہاں علیحدگی کی تحریکیں تیزی سے جڑ کیوں پکڑ رہی ہیں۔ اس کی بڑی وجہ ہماری اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی گماشتوں کی ریشہ دیوانیاں ہیں۔ ہم اپنے فیصلے خود کرنے کی بجائے تیسری طاقت کے اشاروں پر ناچنے والی قوم بن چکے ہیں۔ جب سے اکبر بگٹی کو قتل کیا گیا اس کے پوتے براہمداغ بگٹی پہاڑوں میں چھپ گیا اور غیر ملکی آقائوں سے مل کر پاکستان سے علیحدگی کی تحریک کو مضبوط کرنے میں مصروف ہو گیا۔ اکبر بگٹی کے قتل کا واقعہ نیا نہیں ہے۔ اس سے قبل زوالفقار بھٹو کے دور میں عطاء اللہ مینگل کے بیٹے اسد اللہ مینگل کو مارا گیا۔
بلوچستان میں جاری علیحدگی پسند تحریکوں کی قیادت پانچ گروہوں یا جماعتوں کے پاس ہے۔ جن میں بلوچستان لبریشن آرمی، جنڈولہ، پاداری، نیشنل لبریشن فرنٹ، اور پاپولر فرنٹ شامل ہیں۔ ان جماعتوں کو منظم و متحرک کرنے میں جن سیاسی جماعتوں کا عملی کردار ہے ان میں بلوچستان نیشنل پارٹی، جمہوری وطن پارٹی، نیشنل پارٹی، بلوچستان نیشنل موومنٹ، بلوچ ریپبلکن پارٹی، بلوچ نیشنل فرنٹ، بلوچ پیپلزپارٹی، قلات سٹیٹ نیشنل پارٹی، بلوچستان سٹوڈنٹ آرگنائزیشن، اور عوامی پارٹی شامل ہیں۔ان تحریکوں نے اپنے عسکری یا مسلح گروپ بھی تشکیل دئیے ہوئے ہیں۔ اور جن بلوچ رہنمائوں کی قیادت ان تحریکوں کو حاصل ہے ان میں براہمداغ بگٹی، گل خان بلوچ، غلام محمدبلوچ، عبدالحئی بلوچ، حمیدبلوچ، میرنورالدین مینگل، پرنس کریم آغا خان یوسف عزیز مگسی، شیر محمد مری، اختر مینگل، اور عطاء اللہ مینگل شامل ہیں۔ 1948ء میں احمد یار خان نے علیحدگی کی پہلی تحریک چلائی اس کے بعد شیر محمد بجرانی، نواب خیر بخش مری، نواب اکبر بگٹی اور آخر میں میر بلوچ مری نے 2004ء میں علیحدگی کی تحریک چلائی۔
Asma Jahangir
عاصمہ جہانگیر نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے سینکڑوں بلوچی اپنے گھروں سے غائب ہیں جن کا آج تک کچھ اتا پتا نہیں ہے اسی طرح ایک بڑی تعداد کو گولیوں کا نشانہ بنا کر مار دیا گیا۔ ایف سی بلوچستان میں بلیک واٹر کا کردار ادا کر رہی ہے۔ چلیں مان لیا کہ فراریوں کے مطالبات تسلیم نہیں کئے جا سکتے کیونکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کے مطالبات کی فہرست بھی طویل ہو گئی ہے۔
اب وہ سرے سے پاکستان کے جھنڈے کے ہی خلاف ہو چکے ہیں۔ مگر پھر بھی ان سے مذاکرات کی راہ ہموار کی جا سکتی ہے۔ تاکہ غیر سندھی اساتذہ، وکلائ، اور سٹوڈنٹس کو بیہیمانہ موت مرنے سے بچایا جا سکے۔ آمنے سامنے بیٹھ کر بلوچی سرداروں اور سیاسی جماعتوں کی بات سنی جائے تاکہ کسی بہتر حل کی طرف جایا جا سکے۔ ورنہ بلوچستان میں جو علیحدگی کے نعرے لگ رہے ہیں۔ بہت جلد ان کے سچ ہونے کی آوازیں بھی آنے لگیں گی۔ اور سقوط ڈھاکہ کے بعد بلوچستان کی علیحدگی کا عمل ہم اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے۔ اس کے بعد پاکستان کے مزید ٹکڑے ہونے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔ تمام ایجنسیوں اور حکمرانوں سے التجا ہے کہ بلوچستان کو دوسرا مغربی پاکستان ہونے سے بچایا جائے۔ ورنہ تاریخ کے چہرے پر ایک اور بدنما داغ لگ جائیگا۔
M.A.TABASSUM
تحریر:ایم اے تبسم email: matabassum81@gmail.com, 0300-4709102