سولہ دسمبر کی تاریخ پھر ہمارے سامنے ہے۔ یہ دن دنیا کے دیگر بہت سے ممالک کیلئے بھی کوئی نہ کوئی تاریخی حیثیت ضرور رکھتا ہوگا لیکن پاکستان کیلئے یہ ایک المناک دن ثابت ہوا ہے۔ اِس دن پاکستانی قوم اِنتہائی دردناک اور روح فرسا سانحے سے دوچار ہوئی جب قائد کا پاکستان دولخت ہوا۔ سقوطِ ڈھاکہ کا سانحہ ایک ایسا درد ناک اور اندوہناک واقعہ ہے جس نے مسلمانانِ پاکستان کے قلوب و اذہان پر پڑے دوررس اثرات مرتب کیے۔
ایسے واقعات جو تاریخ اور جغرافیہ تک تبدیل کردیں یکدم ہی رونما نہیں ہوتے بلکہ ان کے پیچھے برسوں سے پکنے والا لاوا، سینوں میں پلنے والی نفرت، اِحساس محرومی اور ناانصافیوں کی ایک طویل داستان ہوتی ہے۔
ابتداء ہی سے دونوں بازوئوں کے درمیان ایسی بدگمانیاں پیدا ہو گئی تھیں جنہوں نے مشرقی اور مغربی پاکستان میں دُوریوں کی بنیاد ڈالی، پھر آنے والے دن اور ہر آنے والے حکمران سے ایسی غلطیاں دانستہ و نادانستہ سرزد ہوتی رہیں جنہوں نے زخموں کو ناسور بنا دیا اور پھر ہم نے اِس کا خمیازہ بھگتا۔
اِس سانحے میں نہ صرف دنیا کی سب سے بڑی اِسلامی ریاست پاکستان دولت ہوئی بلکہ ایک مسلمان مملکت کی طاقتور ترین فوج کو اِسلامی تاریخ کی بدترین ہزیمت کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ نوے ہزار سے زائد فوجی جوان دشمن کی قید میں چلے گئے جہاں اُنہوں نے کئی سال تک قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ یہی وہ جنگ تھی جس میں دوست اور دشمن کا کردار بھی کھل کر سامنے آیا۔ امریکا کا ساتواں بحری بیڑا آج تک ان سمندروں میں بھٹکتا پھر رہا ہے تاکہ اپنے دوست پاکستان کی مدد کر سکے۔
بہرکیف اِس سلسلہ میں جتنے بدنام ہمارے سیاست دان ہوئے اتنا ہی الزام امریکا پر بھی آیا۔ سقوط ڈھاکہ مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان ہونے والی ایک ایسی جنگ تھی جس میں مکتی باہنی کی مدد کیلئے پڑوسی ملک بھارت کھلی جارحیت کا مرتکب ٹھہرا اور پھر اس جنگ کے نتیجے میں مشرقی پاکستان آزاد ہو کر بنگلہ دیش بن گیا۔
Bangladesh
اس پوری جنگ کے دوران بھارت مکتی باہنی کو مالی، عسکری اور سفارتی مدد فراہم کرتا رہا اور بالآخر اس نے 16دسمبر 1971ء کو ڈھاکہ میں افواجِ پاکستان کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کیا۔ بنگلہ دیش کے قیام کی صورت میں پاکستان رقبے اور آبادی دونوں لحاظ سے بلادِ اسلامیہ کی سب سے بڑی ریاست کے اعزاز سے بھی محروم ہو گیا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ہم اس واقعے اور تاریخ کو یا تو بالکل فراموش کر بیٹھے ہیں یا بھولتے جا رہے ہیں۔
مشرقی پاکستان کا سقوط اور بنگلہ دیش کا قیام ایک مخصوص پس منظر اور لمبی تاریخ رکھتا ہے لیکن اِتنے برس گزر جانے کے بعد بھی صحیح حقائق عوام کے سامنے نہیں آ سکے اور نہ ہی مستقبل قریب میں آنے کی اُمید ہے۔ اگرچہ اِس سانحے میں بنیادی کردار بھارتی سازشوں کا تھا لیکن بڑا دخل سیاسی رہنمائوں کی غلط فہمیوں کا بھی تھا۔ سقوطِ ڈھاکہ کے مرکزی کرداروں کے راز آج بھی قومی مفاد کے نہاں خانوں میں چھپے ہوئے ہیں۔ ہم آج تک یہ فیصلہ نہیں کر سکے کہ اِس المیے کے اصل مجرم کون تھے، غلطیاں کیا تھیں اور کیوں دِلّوں میں اِتنی نفرتیں بڑھیں۔ اگر جمہوری روایات، تقاضوں اور اُصولوں کو زیرِ عمل لاتے ہوئے جیتنے والی جماعت عوامی لیگ کو اقتدار دے دیا جاتا جو یقینا مجیب الرحمن کا حق بھی تھا تو شاید یہ المناک سانحہ رونما نہ ہوتا اور یوں بلادِ اسلامیہ کی بڑی مملکت کے دونوں بازو قائم و دائم رہتے۔
سقوطِ ڈھاکہ کا المناک پہلو یہ ہے کہ ہم نے اس سانحے سے سیاسی اور فوجی اعتبار سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور آج پھر ہم دوبارہ اسی مقام پر کھڑے ہیں۔ آج وہی حالات پھر سے بلوچستان، خیبرپختونخواہ اور سندھ میں دہرائے جا رہے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ہم سولہ دسمبر والے دن کو عبرت کے طور پر مناتے اور اس طرح کی تدابیر اختیار کرتے کہ ایسا سانحہ دوبارہ وقوع پذیر نہ ہو۔ اِس دن ہم بنگلہ دیش کے لوگوں کو خیرسگالی کے پیغامات بھیجتے اور انہیں دوبارہ قریب لانے کی کوشش کرتے۔
حکمران حمود الرحمن کمیشن کی فائل کھولتے اور اس میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی وجوہات پر غور کرتے لیکن شاید ہم بے حس ہو چکے ہیں۔ بڑے سے بڑا سانحہ بھی گزر جائے ہم اگلے دن پھر اپنے معمولات کی زندگی میں کھو جاتے ہیں۔ جس طرح مشرقی اور مغربی جرمنی دوبارہ ایک ہو گئے ہیں اس طرح پاکستان اور بنگلہ دیش بھی ایک ہو سکتے ہیں مگر یہ اُسی صورت ممکن ہے کہ دونوں ملک ایک دوسرے کیلئے قربانی دیں اور خود غرضی کے خول سے باہر نکل آئیں۔