تحریر: قاری محمد یعقوب شیخ مشرقی پاکستان کی علیحدگی بہت بڑا سانحہ، المیہ اور داستان غم ہے، جو بھلانے سے نہیں بھولتی، یہ واقعہ اچانک اور ایک دم منظر عام پر نہیں آیا اس کیلئے تیاریاں، عیاریاں اور سازشیں بہت پہلے سے جاری تھیں، اس مکروہ اور سیاہ سازش میں ایک آدھ آدمی، قوت یا طاقت کا ہاتھ نہیں، یہ اجتماعی کوشش، پورا ٹیم ورک ہے، بیرونی ہتھکنڈوں سے زیادہ اندرونی ہاتھ کارفرما ہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ مسلمان میدان عمل میں غیروں سے شکست خوردہ نہیں ہوتا کیونکہ کامیابی و کامرانی اس کا مقدر ہے زوال و پستی نہیں۔ مسلمانوں کو جہاں کہیں شکست و ہزیمت کا سامنا ہوا تو پس پردہ اپنوں کا ہاتھ تھا جو غیروں سے ملا ہوا تھا۔
اپنے لوگ غیروں کے بننے کے بجائے غیرت مند بنیں، قومی، ملی اور اسلامی غیرت کا ثبوت دیں تو امت مسلمہ کو سیاہ راتیں اور تاریک دن نہ دیکھنے پڑیں جن کا مشاہدہ 1971ء میں سقوط ڈھاکہ کی شکل میں کیا گیا کہ پاکستان دولخت اور جدا جدا ہو گیا، یہ شکست بڑی افسوس ناک ہے جس سے ہمارا ایک بازو ہم سے الگ نہیں ہوا بلکہ آدھا جسم جدا ہوا ہے، یہ جدائی دونوں طرف کے مسلمانوں کو بے چین کر رہی ہے۔ مشرق و مغرب کا ملاپ کیسے ممکن ہے؟ سرحدی حد بندیوں کا خاتمہ کیسے ہو گا؟ بے چینی سکون میں کیسے تبدیل ہو گی؟ یہ موضوع اور میدان حکومت اور اس کے زیرانتظام اداروں کا ہے یا مذہبی و سیاسی جماعتوں، تنظیموں اور پارٹیوں کا کہ وہ خلیج اور فاصلے کو دور کریں ایثار و قربانی والا جذبہ پیش کریں تاآنکہ دونوں ملکوں کے حالات اور تعلقات میں بہتری آئے، لیکن! ہم تو ابھی تک اس دلدل سے نہیں نکلے کہ یہ شکست فوجی تھی یا سیاسی؟ قصور کمانڈروں کا تھا یا سیاستدانوں کا؟ غلطی مدبرین کی تھی یا مفکرین کی؟ شکست صرف شکست ہی ہوتی ہے،نہ فوجی ہوتی ہے نہ سیاسی۔ شکست تو قوموں، ملکوں اور ملتوں کو ہوتی ہے۔ بنگلہ دیش میں تو ہمیں شکست ہوئی نہیں، دلائی گئی ہے۔
یہ المناک واقعہ اچانک نہیں پیش آیا بلکہ اس کی پلاننگ پہلے سے کی گئی تھی۔ اس میں مزید سیاہی اقتدار کا شوق رکھنے والوں نے بھر دی اور پاکستان کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا۔ انہوں نے کرسی نہیں چھوڑی، ملک توڑ دیا، مشرق و مغرب کو تقسیم کر ڈالا ایک عظیم ملک کا بٹوارہ کر ڈالا۔ جنرل نیازی سے اتفاق و اختلاف کی بحث کو علیحدہ رکھتے ہوئے ان کے بقول: مشرقی پاکستان کی علیحدگی ایک بین الاقوامی سازش تھی، لیکن کوئی باہر کی سازش تب تک کامیاب نہیں ہوتی جب تک ملک کے اندر سے تعاون نہ ملے۔ اس میں اپنوں کا ہاتھ زیادہ ہے، ہم ہارے نہیں ہرائے گئے ہیں، پاکستان ٹوٹا نہیں توڑا گیا ہے، اس میں اہم کردار یحییٰ، بھٹو اور مجیب کا ہے۔ ان کے ساتھ ان کے خوشامدی اور مددگار بھی تھے۔ ہر ایک کی کمیٹی تھی جو ان کی مدد کر رہی تھی۔
کاش یہ سب لوگ ملک و ملت کیلئے اس طرح سوچتے جس طرح علامہ اقبال اور قائداعظم نے سوچا اور کیا تھا، اور جس کیلئے مسلمانوں نے جدوجہد کی اور قربانیوں کی لازوال داستانیں پیش کر ڈالیں۔ کاش! یہ سب لوگ مسلمانوں کی قربانیوں کے ساتھ ساتھ ان قراردادوں کو بھی پڑھ لیتے جو حصول پاکستان کیلئے اصولی حیثیت رکھتی ہیں۔ 23مارچ 1940ء کو لاہور میں جو قرارداد پیش کی گئی آج کی نوجوان نسل کا اس سے آگاہ ہونا بہت ضروری ہے۔ وہ قرارداد یہ تھی، جغرافیائی لحاظ سے باہم متصل یونٹوں کی خطوں کی صورت میں حد بندی کی جائے اور یہ خطے کی ضرورت کے مطابق علاقائی ردوبدل کر کے اس طرح قائم کئے جائیں۔
کہ ان علاقوں کو جہاں مسلمانوں کی آزاد مملکتوں کی صورت میں اکٹھا کر دیا جائے (یعنی مشرقی اور مغربی پاکستان) جن کے اندر شامل ہونے والی اکائیاں خودمختار اور حاکمیت کی حامل ہوں۔ ان اکائیوں اور علاقوں کے دستور میں اقلیتوں کے مذہبی، ثقافتی، اقتصادی، سیاسی، انتظامی حقوق و مفادات کی حفاظت کیلئے ان کے مشورے سے موثر تحفظات رکھے جائیں۔ اس طرح کے تحفظات کے ذریعے سے ہندوستان کے ان حصوں میں جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں، ان کی حفاظت کا بندوبست کیا جائے۔ جس طرح اس قرارداد کی روح کو کچلا گیا اسی طرح قرارداد دہلی کی روح کو بھی تڑپایا گیا ہے، جس میں واحد آزاد مملکت کا مطالبہ تھا جو 9اپریل 1946ء کو ایک اجلاس میں منظر عام پر آئی جو قائداعظم کی زیرصدارت منعقد ہوا۔
(1)وہ علاقے یعنی شمال مشرق میں بنگال اور آسام، شمال مغرب میں پنجاب، صوبہ سرحد، سندھ اور بلوچستان جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں (یعنی پاکستان کے علاقے) انہیں ایک آزاد اور خود مختار مملکت کا درجہ دیا جائے، اس سلسلہ میں یقین دہانی کرائی جائے اور پاکستان کی تشکیل کے سلسلہ میں اس پر بلاتاخیر فوری طور پر عملدرآمد کیا جائے۔ (2)ہندوستان اور پاکستان کے عوام کیلئے دو آئین ساز مجالس تشکیل دی جائیں تاآنکہ دونوں اپنے اپنے آئین تیار کریں۔ (3)ہندوستان اور پاکستان کی اقلیتوں کو کل ہند مسلم لیگ کی قرارداد لاہور 23مارچ 1940ء کی روشنی میں تحفظات فراہم کئے جائیں۔ (4)مرکز میں عارضی حکومت کے قیام کے سلسلے میں مسلم لیگ کے تعاون کے حصول کیلئے ضروری ہے کہ مسلم لیگ کے مطالبے یعنی پاکستان کی تشکیل کے سلسلے میں بلاتاخیر فوری طور پر عملدرآمد کیا جائے۔
Partition Hind
ان قراردادوں پر عمل نہ ہوتا اور پاکستان معرض وجود میں نہ آتا تو ہم بھارت کی خواہش کے مطابق ایک قومی نظریہ کی بنیاد پر متحدہ ہندوستان کے باسی ہوتے اور غلامی کی بدترین زندگی بسر کر رہے ہوتے اور حقوق کے ساتھ ساتھ عزتیں بھی پامال کروا رہے ہوتے۔ تقسیم ہند کے وقت جو حد بندی کمیشن قائم کئے گئے ان کی نااہلی اور کمیشن کے صدر ریڈ کلف کی بددیانتی نے مسلمانوں کی اکثریت کے چند اہم اضلاع انڈیا میں شامل کر دیئے اور ضلع گورداسپور جہاں مسلمانوں کی اکثریت تھی بھارت کو دے دیا، اس طرح بھارت کو کشمیر تک رسائی کا راستہ مل گیا اور اس نے کشمیر پر قبضہ جما لیا۔
اس کے باوجود ہندو سورمائوں کو سکون نہ آیا، وہ چین سے نہ بیٹھے، انہوں نے اس تقسیم کو (جو مسلمانوں کے ساتھ ناانصافی تھی) گئوماتا کے دو ٹکڑے کرنا قرار دیا۔ ان کے غنڈوں، لٹیروں کے مسلح دستوں نے قتل و غارت شروع کر دی، لوٹ مار اور اغوا کے اتنے زیادہ واقعات ہوئے کہ تاریخ بھی شرما گئی۔ ایک لاکھ سے زیادہ مسلمان شہید اور ایک کروڑ سے زائد مسلمان بے گھر اور بے در ہوئے، مال و متاع چھن گیا مگر پاکستان مل گیا۔ مسلمانوں کو منزل مل گئی، ہدف حاصل ہو گیا، اللہ کا کرم تھا، علامہ اقبال کی فکر اور تصور تھا، قائداعظم کی جدوجہد اور مسلمانوں کی قربانیاں تھیں کہ ہند کے سینے پر دو قومی نظریہ کا پرچم سربلند ہوا۔
وہ دو قومی نظریہ جس کے متعلق قائداعظم نے جامع انداز میں کچھ اس طرح روشنی ڈالی: ”ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان اختلاف بہت گہرا اور ناقابل تنسیخ ہے، ہم مسلمان اپنی تابندہ تہذیب اور تمدن کے لحاظ سے ایک قوم ہیں۔ زبان و ادب، فنون لطیفہ، فن تعمیرات، نام اور نام رکھنے کا طریقہ کار، اقدار اور تناسب کا شعور، قانونی اور اخلاق ضابطے، رسوم اور جنتری، تاریخ و روایات اور رجحانات و امنگیں، ہر ایک لحاظ سے ہمارا اپنا انفرادی زاویۂ نگاہ اور فلسفہ حیات ہے۔ بین الاقوامی قانون کی ہر تعریف کے مطابق ہم ایک قوم ہیں۔اس ایک قوم کو تقسیم کرنے اور پاکستان کو توڑنے کیلئے ہندوستان نے سردھڑ کی بازی لگا دی، بنگلہ دیش میں سازشوں کے جال بنے، نفرتوں کی فضا کو فروغ دیا، بنگالی بھائیوں کو سرسبز و شاداب اور خوبصورت باغ اور خواب دکھائے۔ ان کی ابلیسی چالوں میں جہاں بنگلہ دیش آیا۔
وہاں قصور ان لوگوں کا بھی ہے جن کا تذکرہ میں نے سابقہ سطور میں کیا ہے۔ ان غلطیوں اور گناہوں کے نتیجہ میں بنگلہ دیش ہم سے جدا ہوا۔ ہندوستان میں جشن کا سماں تھا اور وزیراعظم اندراگاندھی کی زبان پر یہ الفاظ تھے: آج ہم نے دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے۔ عارضی، وقتی اور حادثاتی واقعات سے نظریہ نہیں ڈوبتا، نظریۂ اسلام، نظریۂ پاکستان تو قیامت تک کیلئے ہے۔ اس نظریہ نے تمام نظریات کو ختم کرنا ہے خود پروان چڑھنا اور غالب ہونا ہے، یہ آیا ہی غلبہ کیلئے ہے۔ کچھ لوگ لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ کو پاکستان کا مطلب و مقصد اور نظریہ قرار نہیں دیتے تو وہ بہت ہی بھول اور فریب والی زندگی میں مبتلا ہیں۔ وہ کسی سوچ کے حامل اور کسی نظریہ کے قائل نہیں وہ فکری طور پر آزاد اور نظریاتی اعتبار سے بے لباس ہیں، ان کی آواز تو ان کے حلق سے باہر نہیں نکلتی، یہ دبی آوازوں والے نظریۂ پاکستان کے مقابلے میں جلد ہی دب جائیں گے۔
نظریۂ پاکستان کی آواز روزبروز بلند ہو رہی ہے، آج اندرا گاندھی زندہ ہوتی تو مینار پاکستان پر ہونے والے اجتماعات کا منظر دیکھتی اور بطور خاص 4,5دسمبر کو ہونے والے جماعة الدعوة کے مرکزی اجتماع اور اس میں ہونے والی قومی کانفرنس جس کا عنوان نظریۂ پاکستان ہی بقائے پاکستان ہے، تھا یہ نظریہ اب کتابوں، فائلوں اور اداروں کی چار دیواریوںسے نکل کر ہر گائوں، گوٹھ اور محفل و مجلس کا موضوع بن چکا ہے۔ امیر جماعة الدعوة پاکستان نے تو نظریۂ پاکستان رابطہ کونسل کا اعلان بھی کر دیا ہے، اس پلیٹ فارم پر تمام جماعتوں کو یکجا کیا جائے گا، علامہ اقبال کے تصور اور قائداعظم کے خواب کے مطابق پاکستان کی تکمیل ہو گی۔
Solidarity
اس سلسلہ میں منظم مہم کا آغاز تو پہلے ہی ہو چکا ہے، کونسل کی تشکیل کیلئے مشوروں کا سلسلہ جاری ہے، کونسل کے قیام کا اعلان مینار پاکستان پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے حافظ محمد سعید صاحب کر چکے ہیں اور ان کے خطبہ جمعة المبارک میں بھی اس کا اعادہ کیا گیا۔4,5دسمبر کو مینار پاکستان پر نظریۂ پاکستان، بقائے پاکستان، استحکام پاکستان کیلئے جمع ہونے والے لاکھوں فرزندان اسلام سے جو روح پرور منظر دیکھنے کو ملا یقینا وہ ہندوستان کیلئے مایوسی اور موت کے پیغام سے کم نہیں۔ مینار پاکستان کی سرزمین پر لاکھوں فرزندان اسلام کے سجدہ نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ نظریۂ پاکستان اور اس نظریہ کے محافظ زندہ ہیں۔ یہ بات بھی روز روشن کی طرح واضح ہے کہ مینار پاکستان کی زمین پر اتنا بڑا سجدہ نہیں ہوا، یہ اجتماعی سجدہ یہ اللہ کے حضور سر جھکانا صرف اس لئے ہے کہ اسلام اور ملک دشمن قوتوں کے مقابلے میں سربلند کیا جائے، ان کا مقابلہ کیا جائے، پاکستان کی تکمیل کی جائے، کشمیر، گورداسپور، حیدرآباد، جونا گڑھ واپس لیا جائے اور مشرقی و مغربی پاکستان میں یکجہتی پیدا کر کے ہندوستان سے حساب برابر کیا جائے۔