ادھر ہم، ادھر تم

Chaudhry Nisar Ali Khan

Chaudhry Nisar Ali Khan

تحریر : قادر خان افغان
یوم سانحہ سقوط پاکستان، یوم سانحہ پشاور بھی گذر گیا، جی بھر کر اس پر بھی ماتم کر لیا گیا۔ دونوں سانحات میں قدر مشترک ایک ہی بات تھی کہ ذمے داروں کے تعین کیلئے قائم کردہ کمیشن رپورٹ کو قوم کے سامنے نہیں لایا گیا۔ اس دھول میں سانحہ کوئٹہ نے دل کے زخم ہرے کر دیئے کہ اس رپورٹ میں صوبائی حکومت کے خلاف مکمل چارج شیٹ ہے لیکن صوبائی وزیر داخلہ یہ کہتے ہیں کہ یہ کمیشن کی رپورٹ ہے، کوئی عدالتی فیصلہ نہیں۔ پاکستان میں کئی سانحات ہوئے لیکن کسی کمیشن کی رپورٹس کبھی بھی حکومت کی جانب سے عوام تک نہیں پہنچی، دسمبر کا مہینہ بڑا ستم گر نکلا، شہید جنید جمشید سمیت کئی خاندانوں کو بھی اپنے ساتھ لے گیا، شہید جنید جمشید کو جہاں ہمارا الیکٹرونک میڈیا گلوکار ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہا ، وہاں انھوں نے جنید جمشید شہید کے لئے، شہادت کا لفظ استعمال نہیں کیا۔

شہید جنید جمشید کی موت تو رضا الہی سے مقرر تھی ، لیکن جس طرح شہید جنید جمشید کی شہادت پر مٹھائیاں تقسیم کیں گئیں ، مسلک کے نام پر لعن طعن کیا گیا ، اس نے دل کو بہت تکلیف پہنچائی ، میرے سامنے سانحہ پشاور تھا ، کہ بڑی سیاسی قیادت وہاں شہید بچوں کے والدین سے یک جہتی کیلئے نہیں گئی ، تحریک انصاف کے” حکمران” عمران خان نیازی تو سانحہ پشاور کے بعد ہنی مون منا رہے تھے ، اس لئے سانحہ پشاور کے ورثا نے جو ان کے ساتھ سلوک کیا ، وہ انتہائی جذباتی لمحات تھے ،کسی کو کسی سے کیا گلہ کرنا ۔ میں سانحہ پشاور کا نوحہ لکھنا چاہتا تھا لیکن میں نوحہ لکھ نہ سکا ۔ سانحہ سقوط مشرقی پاکستان پر ہمیشہ لکھتا رہا ہوں ، بھارت انتہا پسند مودی سرکار نے ایک بار پھر اعتراف جرم کیا کہ اس نے پاکستان کا بازو کاٹنے میں بنگلہ دیش بنانے والوں کی مدد کی ، بھارت نے پھر بھڑک ماری کہ وہ پاکستان کے دس ٹکڑے کردے گا ، ہم نے بھی بیان دے دیا کہ بھارت ایک سو دس ٹکڑوں میں تقسیم ہو جائے گا۔

میں یہاں یہ سوچ رہا تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے نوجوان چیئرمین کے بارے میں لکھوں کہ ان کے قدم سانحہ پشاور کے ساتھ یک جہتی کیلئے کیوں نہیں اٹھے ، انکے قدم تو ہندو انہ رسم کے مطابق ان کے دیوتائوں کی آرتھی اتارنے کے لئے تو اٹھ رہے تھے ، ہندو مذہب کے بھگوان کی پوجا تو کررہے تھے ، لیکن کیا انھیں اسلامی روایات نہیں آتی کہ فاتحہ کیلئے سانحہ پشاور کے عظیم خاندانوں کے ساتھ اظہار یک جہتی کے چلے جاتے ، جماعت دعوت اسلامی کے مرکز جاکر بہت اچھا کام کیا ۔ دلی خوشی ہوئ، لیکن کیا ہی اچھا ہوتا کہ دارالعلوم کراچی میں شہید جنید جمشید کے جنازے میں بھی شرکت کرلیتے۔یا پھر اپنے نانا کے نعرے پر عمل کررہے تھے کہ ادِھرہم ، ادُھر تم۔۔ میں کچھ نہیں لکھ سکا ، میں تحریک انصاف کے اس رویئے کو بھی دیکھ رہا تھا کہ 80لاکھ ووٹ لینے والوں کی جب مرضی ہوتی ہے ، ایوان میں آتے ہیں ، جب مرضی ہوتی ہے ، بائیکاٹ کردیتے ہیں، اس بار اپنی مرضی سے آئے ڈاکٹر طاہر القادری نے بالکل درست کہا کہ اب کفن پہنایا جارہا ہے۔ فاتحہ تو پہلے ہی پڑھ چکے ہیں۔پاکستانی سیاست کے جمہوری نظام پر لکھتے ہوئے اب کراہت محسوس ہوتی ہے کہ بے حس عوام پر اللہ تعالی کی پکڑ کب ہوگی اور ہمیں اپنے ہمارے کی سزا کب ملے گی ۔ عذاب الہی کا انتظار ہی تو ہے کہ ہم نے ایسے سیاست دانوں کو حکمران بنا دیا ہے ، جنھیں اپنے علاوہ پاکستان کی ہی نہیں بلکہ پوری مسلم امہ کی فکر نہیں۔میرے سامنے ایران کے سنیئرجنرل غفاری ، جو پاسداران انقلاب کی قیادت کرنے کے ساتھ ساتھ16ملیشیائوں کے بھی سربراہ ہیں ، کا حکم نامہ تھا ، جو مملکت شام کے خون آشام بشار الاسد کی بربریت کی تاریخ تاتاریوں کے مظالم کو بھی شرما رہا تھا۔

جنرل غفاری کا حکم تھا کہ “حلب میں محصور تمام افراد کو اجتماعی طور پرموت کے گھاٹ اتار دیا جائے۔”یہ بیان شامی ذرائع ابلاغ میں شائع ہوا۔ حلب میں محصور ، مسلمان ہیں کہ کفار؟ ، لیکن انسان تو ہیں ، پہلے ان پر کم ظلم ہوا ہے کہ نہتے شہریوں پر بمباریاں کرکے پورے حلب کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی ، مسلمانوں کے علاقوں کے محاصرے کر کے انھیں بلی ، کتوں، پتے کھانے پر مجبور کیا گیا ۔ یہاں تک کہ مسلمانوں نے علمائوں سے فتوی مانگ لیا ہے کہ شامی و ایرانی جنگجوئوں کی جانب سے ان کی گھر کی عزتوں و حرمت کو قائم رکھنے کیلئے انھیں اپنی بیٹی ، بیویوں اور مائوں سمیت اپنی خواتین کی عزت و ناموس بچانے کے لئے اپنے ہاتھوں سے مارنے کا فتوی جاری کردیا جائے۔

Pakistan

Pakistan

میرے لئے صرف کشمیر پاکستان کا اٹوٹ انگ نہیں ہے بلکہ مسلم امہ کا ہر خطہ پاکستان کی شہہ رگ ہے ، کیونکہ پاکستان کا حصول ، کسی دیوی دیوتائوں کی آرتھی اتارنے کیلئے نہیں ،پاکستان کا قیام لسانیت ، صوبائیت کیلئے نہیں بلکہ ایک ایسی اسلامی ریاست کے نام پر وجود میں لایا گیا ، جہاں قرآن کریم کے احکام و اصولوں کے تحت مسلم غیر مسلم کے مفادات کا تحفظ کیا جائے ، پاکستان اس لئے حاصل نہیں کیا گیا تھا اگر کوئی مسلمان ہونا چاہتا ہے تو اُسے پہلے18سال کا ہونا ضروری ہے ، تمام مذاہب کی کتابوں کا پڑھنا ضروری ہے ،18سال سے کم عمر اسلام قبول کرنے والا ، سندھی قانون کے مطابق مسلمان نہیں بن سکتا ۔ آج علم ہوا ہے کہ اس متنازع بل کو دوبارہ زیر غور لایا جا رہا ہے ۔ جبری تبدیلی مذہب کیلئے غیر مسلموں کے تحفظ کیلئے سخت سے سخت قوانین بنائیں جائیں ، یہ قانون بھی بنا دیا جائے کہ سندھ میں ہندو دلت کی تعداد ، برہمن سے زیادہ ہیں ، اس لئے منارٹی نشست پر دلت ہی کو منتخب کیا جائے گا ۔ اگر بلاول چاہیں تو برہمن کو بھی لاڑکانہ سے آرتھی اتار کر اپنی آبائی نشست سے جتوا سکتے ہیں ، لیکن ہندو دلتوں کے آواز اور ان کے ساتھ مسلسل نا انصافیوں کے خلاف پی پی پی کب قانون سازی کرے گی۔

وزیر اعظم میاں نوازشریف بھی بلاول زرداری سے پیچھے نہیں رہے، انھوں پاکستان کی سر زمین پر لعنت بھیجنے والے اسلام کے لعنتی کردارقادیانی ڈاکٹر عبدالسلام کے نام پر قائد اعظم یونیورسٹی کے ایک کیمپس کو منسوب کرنے کی منظوری کے ساتھ ساتھ ، احمدی جماعت سے تعلق رکھنے والے اس سائنسدان کے نام پر اسکالر شپ دینے کا اعلان کردیا ۔کتنا عجیب المیہ ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح کی جب نماز جنازہ پڑھائی جا رہی تھی ، پاکستان کے وزیر خارجہ ظفر اللہ خان ، جو قادیانی تھے، انھوں نے جنازے میں شرکت میں انکار کرتے ہوئے ، غیر مسلم مندوبین کے ساتھ بیٹھنے کو ترجیح دی ، جب ان سے وجہ پوچھی گئی تو اس کا کہنا تھا کہ “یوں سمجھ لیں کہ میں مسلم ملک کا کافر وزیر ہوں یا کافر ملک کا مسلمان وزیر ہوں۔ پاکستان کے قیام سے قبل مقدمہ بہاول پور میں احمدی جماعت سے تعلق رکھنے والوں کو غیر مسلم قرار دیا جا چکا تھا ۔ بعد ازاں پاکستان بننے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے باقاعدہ قانون پاس کرکے انھیں اپنے مسلک و مذہب تک محدود کردیا۔ اس قانون کے پاس ہونے کے بعد احمدی ڈاکٹر عبد السلام نے پاکستان چھوڑ دیا ، وزیر اعظم نے لیٹر لکھ بلایا تو جواب ملا کہ میں ایسے ملک کے ایوان اور سر زمین پر لعنت بھیجتا ہوں ، جہاں ہمارے خلاف فیصلہ ہوا۔ اب قادیانی ڈاکٹر عبدالاسلام ، نہ تو پاکستانی رہے ، نہ ہی مسلمان ۔۔ انھوں نے نوبل انعام حاصل کیا تو مغرب کا تو وطرہ ہی یہی ہے کہ وہ ایسے لوگوں کو سر پر بیٹھاتا ہے ، جس سے اسلام و پاکستان کی سبکی ہو ، اور وہ پاکستان میں ان کے مفادات کے سفیر بنیں ۔یہ سب کچھ منتشر ذہن کا لکھا ہوا نہیں ، بلکہ اس غور و فکر کے بعد لکھا اظہاریہ ہے کہ میں نوحہ کیوں نہ لکھ سکا ۔اسلئے کہ ہم نے قرآن کریم کو ریشمی جُزدانوں میں سجا کر اوطاق کی زینت بنا دیا ہے۔

اگر ہم اس بات پر عمل کرتے کہ اللہ کی رسی قرآن کریم کو مضبوطی تھام لیں تو کبھی انتشار کا شکار نہ ہوتے ، ہماری سیاست کا محور صہونیت کا ایجاد کردہ نظام جمہوریت نہ ہوتا ۔ فرقوں مسالک کی بنیاد پرجنازوں اور شہادتوں پر سیاست نہ کی جاتی، اراکین سندھ اسمبلی کو علم ہوتا کہ اسلام قبول کرنے کیلئے عمر کی کوئی حد مقرر نہیں ، حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی مثال سامنے رکھتے۔بلاول ، پتھروں کے اُن بتوں کی آرتھی و پوجا نہ کرتے ، جو ہندو برادری کیلئے محترم ہیں لیکن امت ِمسلم کے شرک، وزیر اعظم صاحب پاکستان تسلیم نہ کرنے والے اور نبی آخری الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کو کس خدمات کا صلہ دے رہے ہیں ، ساری عمر تو وہ غیر مسلموں کی خدمت کرتا رہا ، اس سے فائدہ مغرب نے اٹھایا اور اس آنجہانی کے نام سے بانی پاکستان کی روح کو شرما دینے والا اقدام نہ کرتے ۔ایران کے سنیئر جنرل کی کبھی ہمت نہ ہوتی کہ وہ حلب میں بے گناہ انسانوں کے اجتماعی قتل کا حکم دیتا۔شائد یہ نعرہ سب نے اپنا لیا ہے کہ ادھر ہم اُدھر تم۔۔۔ !!

Qadir Khan

Qadir Khan

تحریر : قادر خان افغان