تحریر : اختر سردار چودھری ہم کو اپریل فول کے حوالے سے تین مختلف قسم کے واقعات ملتے ہیں ۔جن سے یکم اپریل کو جھوٹ کا دن منانے کے بارے میں علم ہوتا ہے کہ اس کی ابتدا کیسے ہوئی ۔ پہلے ان کا مختصر ذکرکہاجاتاہے کہ۔ اپریل لاطینی زبان کے لفظ اپریلس یا اپرائر سے ماخوذ ہے ۔ مطلب ہے پھولوں کا کھلنا ، قدیم رومی قوم موسم بہار کی آمد پر شراب کے دیوتا کی یا دیوی کی پرستش کرتی اور اسے خوش کرنے کے لئے اوٹ پٹانگ حرکتیں کرتے،ترنگ میں آتے اور جھوٹ بولتے۔ آگے چل کر یہ دن اپریل فول کہلایا ۔انسائیکلو پیڈیا لا روس میں اس کی ایک وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ جب یہودیوں نے یسوح (حضرت عیسی علیہ السلام) کو گرفتار کر لیا اور رومیوں کی عدالت میں پیش کیا تو رومیوں اور یہودیوں کی طرف سے ان کے ساتھ مذاق ، تمسخر ، استہزاء اور ٹھٹھا کیا گیا ، بائبل میں اس واقعہ کو یوں نقل کیا گیا ہے کہ جب لوگ حضرت عیسی علیہ السلام کو گرفتار کئے ہوئے تھے تو وہ ان کا ٹھٹھا اڑاتے اور ان کی آنکھیں بند کر کے منہ پر طمانچے مارتے تھے اور ان سے یہ پوچھتے تھے کہ بتاؤ کہ کس نے تم کو مارا (معاذاللہ)آگے چل کر یہ اپریل فول بن گیااور اب یہ دن عیسائی بھی مناتے ہیں مسلمانوں کی طرح جیسا کہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جب عیسائی فوج نے اسپین کو فتح کیا تو اس وقت اسپین کی زمین پر مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا ۔جو مسلمان مل جاتااسے قتل کر دیا جاتا۔
جو مسلمان زندہ بچ گئے وہ اپنے علاقے چھوڑ کر دوسرے علاقوں میںجابسے اور اپنے نام عیسائیوں جیسے رکھ لئے ۔اب مسلمانوں کو باہر نکالنے کی تراکیب سوچی جانے لگیں ۔منصوبہ بنایا گیا۔پورے ملک میں اعلان ہوا کہ یکم اپریل کو تمام مسلمان غرناطہ میں اکٹھے ہوجائیں تاکہ انہیں انکے ممالک بھیج دیا جائے جہاں وہ جانا چاہیں۔اس طرح حکومت نے تمام مسلمانوں کو ایک جگہ اکٹھا کرلیا ۔یہ کوئی پانچ سو برس پہلے یکم اپریل کا دن تھا جب تمام مسلمانوں کو بحری جہاز میں بٹھا یا گیا جسے سمندر میں لے جاکر ڈبو دیا گیااس طرح سپین سے مسلمانوں کا صفایا ہو گیا۔ اس کے بعد اسپین میں خوب جشن منایا گیا کہ ہم نے کس طرح اپنے دشمنوں کو بیوقوف بنایا ۔اس دن کی یاد میں اپریل فول کا دن منایا جانے لگا۔یہ تین واقعات ہیں جو مشہور ہیں جو اس دن کی ابتدا کے متعلق ملتے ہیں ۔ اپریل فول 1508 سے 1539 تک صرف یورپ میں منایا جاتا تھا اور اٹھارویں صدی میں برطانیہ میں منانے لگے اور اب چند سالوں سے پوری دنیا میں جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔
اپریل فول کا تذکرہ سب سے پہلے ایک انگریزی اخبار ڈریک نیوز لیٹر سے ملتا ہے یکم اپریل 1846ء کو اپریل فول کے موقع پر یورپ میں جو واقعات رونما ہوئے ان میں سے ایک اہم اور مشہور واقعہ یہ ہے کہ 31مارچ کو ایک انگریزی اخبار میں یہ خبر آئی کہ کل شہر کے زراعتی فارم پر گدھوں کی عام نمائش ہوگی اور میلہ ہو گا تو لوگ خوش و خرم وہاں جمع ہوئے اور نمائش کا انتظار کرنے لگے ۔ جب لوگ انتظار کر کر کے تھک گئے تو پوچھنے پر بتایا گیا کہ جو لوگ نمائش دیکھنے آئے ہیں وہی گدھے ہیں۔ ایسے بے شمار واقعات ہیں جن کو ہر سال 2 اپریل کی اخبارات میں دیکھا جا سکتا ہے جن سے پتہ چلتا ہے کہ اس دن جھوٹ بول کر کیسے لوگوں کو پریشان کیا جاتا ہے ۔ اگر اسلامی نقطہ نظر سے دیکھیں تو اپریل فول منانا جائز نہیں ہے ۔کیونکہ اسلامی تعلیمات میں جھوٹ بولنا بہت بڑا گناہ ہے، جھوٹے پر اللہ کی لعنت ہے،یہ منافقت کی نشانی ہے،اور اپریل فول میں تو ایک تو جھوٹ بولا جاتا ہے اوپر سے اس پر فخر بھی کیا جاتا ہے ۔اس کی خوشی منائی جاتی ہے۔ اس رسم اپریل فول میں جھوٹ بولا جاتا ہے دوسروں کا مذاق اڑایا جاتا ہے،دھوکہ دیا جاتا ہے،غیر مسلموں کی مشابہت اختیار کی جاتی ہے ،تکبر کیا جاتا ہے ۔جھوٹ بول کر دوسروں کو پریشان کیا جاتا ہے ۔ رسول اکرم نے فرمایا ہے کہ سچ بولنا نیکی ہے اور نیکی جنت لے جاتی ہے اور جھوٹ بولنا گناہ ہے اور گناہ جہنم کی طرف لے جاتا ہے۔
ALLAH
دوسری حدیث میں ہے جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی وہ انہی میں سے ہے ۔ تیسری حدیث میں ہے کہ تمہارے خون، تمہارے مال اور تمہاری عزت ایک دوسرے پر حرام ہے۔اسی طرح آپ نے فرمایا ہے کہ کسی شخص کے شرانگیز ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ کسی مسلمان بھائی کو حقیر جان لے مسلمان مسلمان کا بھائی ہے وہ اس پر ظلم نہیں ڈھاتا وہ اسے رسوا نہیں کرتا اور نہ وہ اسے حقیر جانتا ہے ۔اور یہ سب برائیاں ایک اپریل فول منانے میں موجود ہیں۔ اس دن کومنانے سے دشمنانِ اسلام کی خوشیوں میں شرکت کا گمان ہوتا ہے اور سب سے بڑھ کر انسان گناہ ِ کبیرہ یعنی جھوٹ کا مرتکب ہوتا ہے ۔اب رہ گئی پاکستان معاشرے کی بات کہ اس میں اس جھوٹ کے عالمی دن کو کیوں منایا جاتا ہے ۔اس کی بہت سی وجوہات ہیں ۔مختصر یہ کہ خوشی کے لیے ،حالانکہ جھوٹ بول کر خوشی منانے کا کیا جواز ہے ،لیکن ہمارے معاشرے میں جھوٹ بول کر ہی خوشی منائی جاتی ہے ،روزی روٹی کمائی جاتی ہے ،کاروبار کیے جاتے ہیں سیاست و صحافت چمکائی جاتی ہے ۔دوسروں کو بے وقوف بنا کر ہم لذت حاصل کرتے ہیں ،خوشی حاصل کرتے ہیں۔
یہ بھی کہنا ہے کہ جھوٹ بولنا اب ہمارے معاشرے میں گنا ہ ہی نہیں سمجھا جاتا ۔حالانکہ صادق کے ایک فرمان کا مفہوم ہے کہ مسلمان گناہ گار ہو سکتا ہے لیکن وہ جھوٹ نہیں بول سکتا ۔ہمارے سیاست دان روز ہم سے جھوٹ بولتے ہیں یعنی روز ہمارے ساتھ اپریل فول مناتے ہیں ۔اسی طرح ہمارے صحافی بھائی ،اینکر پرسن،کالم نویس ،بھی ہر روزہم عوام کے ساتھ اپریل فول مناتے ہیں ،اس کو چھوڑیں عوام بھی جہاں جہاں بس چلتا ہے ایک دوسرے سے ہر روز اپریل فول مناتی ہے ،عام آدمی بھی جھوٹ بولتے ہیں۔ اب مجھے یاد نہیں ہے لیکن کسی اخبار میں پڑھا تھا کہ پاکستان میں سب سے زیادہ جھوٹ بولا جاتا ہے ۔جس نے یہ روپورٹ لکھی تھی اسے شائد علم نہیں تھا کہ پاکستانی جھوٹ بول کر خوش بھی ہوتے ہیں اس لیے پاکستانیوں کے لیے تو ہر دن ہی اپریل فول ہے۔ دو نمبر مال دے کر ،زیادہ پیسے لے کر ،ملاوٹ والی چیزیں بیچ کر ،جھوٹے مقدمات بنا کر ،ایک دوسرے سے ہر روز اپریل فول ہی مناتے ہیں ۔اس لیے یہ دن ان کو منانا چاہیے جہاں جھوٹ نہیں بولا جاتا چلو ایک دن جھوٹ بول کر دل پشوری کر لیں۔اور یہ حقیت بھی ہے کہ جن کی نقل میں ہم اپریل فول مناتے ہیں وہ کم جھوٹ بولتے ہیں ۔پاکستان میں تو اس دن کو منانا اس دن کی تو ہین ہے ۔کیونکہ یہاں تو ہر روز منایا جاتا ہے،سب سے منایا جاتا ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ مغرب خصوصاً اہل یورپ افرادِ معاشرہ کے ساتھ عملی مذاق اور دوسروں کوبے وقوف بنانے کی غرض سے ایک مخصوص دن میں یہ تہوار مناتے ہیں ۔جھوٹ کے دن پورا سچ !یہ ہے کہ ہمارے ہاں ہر ر وز یہ دن منایا جاتا ہے۔
ہم بات کر رہے تھے کہ پاکستانی معاشرے کی کہ اس میں اس جھوٹ کے عالمی دن کو کیوں منایا جاتا ہے ۔اس کی ایک وجہ تو اوپر لکھی ہے عارضی خوشی حاصل کرنے کے لیے اس کے علاوہ دوسروں کو حقیر جاننابھی اس کی ایک وجہ ہے ۔اپریل فول میں ایسے کام کیے جاتے ہیں جن میں انہیں حقیر جانا گیا ہے بلکہ انہیں حقیر سمجھناہی ان سے مذاق کرنے پر ابھارتا ہے لوگوں کو احمق قرار دینا۔ ہم خود دوسروں سے اعلی خیال کرتے ہیں ۔اس خامی سے کم ہی بچے ہوں گے ہمارے سیاست دان ،صحافت ،اور عام آدمی بھی دوسروں کو گھٹیا ہی خیال کرتا ہے جیسے جھوٹ نے ہمارے معاشروں کو برباد کر دیا ہے ایسے ہی تکبر ہے اور اس رسم اپریل فول میں یہ دونوں برائیاں پائی جاتی ہیں ۔آج ہمارے معاشرے میں یہ اپریل فول منانے کی وباء دیگر بہت سی وبائوں کی طرح پھیلتی جا رہی ہے ہمارے نوجوانوں کی اکثریت اسے بغیر سوچے سمجھے قبول کر رہی ہے،اس کی ایک وجہ مغرب کی پیروی بھی ہے کیونکہ ہمارے نوجوانوں کی اکثریت مغرب سے متاثر ہے ،ہمارے نوجوان خود کو جدت پسند کہلانے کے لیے بھی یہ دن منا رہے ہیں ۔لیکن یہ حقیقت ہے کہ ہمارے نوجوان سپین میں مسلمانوں کے قتل عام یا حضرت عیسی علیہ السلام والے واقعہ کی یاد میں یہ دن نہیں مناتی ۔ہمارے ذرائع ابلاغ سے اگر مناسب طریقے سے عوام کے لیے آگاہی مہم چلائی جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان سے اس رسم بد کا خاتمہ نہ کیا جا سکے آخر میں قرآن پاک کی سورة الحجرات کی ایک آیت کا مفہوم ۔اے ایمان والوں کوئی قوم کسی کا مذاق نہ اڑائے ممکن ہے وہ(جن کا مذاق اڑایا جاتا ہے)ان سے بہتر ہوں ،نہ عورتیں ہی دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں ممکن ہے وہ ان سے بہتر ہوں ۔آپس میں ایک دوسرے کو عیب نہ لگائو ،نہ کسی کو برے لقب دو اسلام لانے کے بعد فسق بہت ہی برا نام ہے جس نے توبہ نہ کی وہی ظالم لوگ ہیں۔