شناسائی سے تم بچنا شناخت مار دیتی ہے میرے شہر میں لوگو شرافت مار دیتی ہے میرے ہم سر لوگوں کا یہی کا روگ ہے ساقی انھیں احساس تنہائی میں فرصت مار دیتی ہے کسی کو مار دیتے ہیں کفر کی راہ میں غازی کسی عا لم کو مکتب کی امامت مار دیتی ہے یہ تو حا ل ہے میرے وطن کے کم نصیبوں کا انھیں اپنے ہی حصے کی یہ دولت مار دیتی ہے بڑا ہی زہر ہے اس شہر کے اونچے چباروں میں بڑے لوگوں کی محفل میں صداقت مار دیتی ہے کسی ظرف ہے ساگر ز باں کی تیز دھاری پر کسی کو اس کی ہی خاموش طعبیت مار دیتی ہے