تحریر: ڈاکٹر خالد فواد ایک بچی نے علمی میدان میں محنت و لگن اور شوق سے نمایاں کامیابی حاصل کی اور وہ اس قابل ہو گئی کہ انجینئرنگ کے شعبہ میں داخلہ لینے اور اعلیٰ تعلیم مکمل کرنے کی خواہشمند تھی مگر اس کے گھر والوں نے اسے یہ کہہ کر منع کر دیا کہ یہ شعبہ صرف مردوں کے ساتھ مختص ہے کہ لڑکے ہی صرف انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کر سکتے ہیں لڑکیاں ہر گز نہیں۔ عورت کیلئے کسی صورت درست نہیں کے وہ غیر محرم مردوں کے ساتھ تعمیراتی سائیڈز پر موجود ہو۔اس سے بھی بڑھ کر اسے یہ کہا گیا کہ عورت کی ذمہ داری و فریضہ صرف گھر میں موجودگی اور بچوں کی پیدائش و افزائش نسل اور خاوند کی خواہشات کا احترام و حفاظت یقینی بنانا ہے۔
لڑکی نے بہتیری کوششیں کیں کہ گھر والے راضی ہو جائیں اس کی تعلیم جاری رکھنے پر مگر پورا خاندان ایک ہی بات پر متفق ہوگیا اور اس پر مصر بھی ہوگئے کہ لڑکی انجینئرنگ کی ڈگری نہیں کرسکتی ۔اسی سبب بچی اپنے گائوں واپس پہنچی اور اس کی کزن کے ساتھ شادی کراد ی گئی کیونکہ والدین اور سسرالی یہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کی مال و دولت اور زمین کسی اجنبی و غریب فرد کو منتقل ہوجائے اسی لئے اپنے خاندان میں ہی شادی کرادی گئی۔ لڑکی کی چچازاد بھائی جو کہ معمولی لکھنا پڑھنا جانتاتھا اور وہ تجارت و بزنس میں مشغول تھا کے ساتھ شادی کے بعد انکے ہاں تین بیٹوں اور ایک بیٹی کی ولادت ہوئی ۔ماں ہمیشہ اپنے بچوں کے ساتھ مجالست اختیار کرتی اور ان کی تعلیمی و تدریسی امور میں معاونت کرتی تھی ۔اس بات کو بچے بڑی باریکی سے دیکھنے لگے کہ ان کی ماں تعلیم یافتہ ہے اور اس کے پاس علوم و معارف کے خزینے ہیں جس سے بچوں کو گاہے بگاہے مطلع کرتی ہے بنسبت والد کے کہ اس کے پاس ماں کی طرح تعلیم و تربیت اور ثقافت موجود نہ تھی کہ وہ بچوں کی رہنمائی کرے۔
وقت کے گزرنے کے ساتھ والد کی جہالت میں بتدریج اضافہ ہی ہوتا رہا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ اپنے گھر سے باہر رہنے لگا اور صبح و شام کاروبار میں مصروف عمل ہوگیا اس کے ساتھ اس نے بڑے بیٹے کو بھی تعلیم سے نکال کر اپنے ساتھ کاروبار میں رکھ لیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ بھی باپ کی طرح تعلیم و تعلم کی بجائے مال و دولت اور ثروت سے محبت کرنے لگا اس کے ساتھ ہی کچھ عرصہ بعد والد نے اپنا پورا کاروبار چھوڑ کر بچے کے حوالے کردیا اور خود دوسری شادی کرلی اور وہاں سے بھی اس کے تین بیٹیاں اور ایک بیٹا پیدا ہوا جس کے نتیجہ میں اس کے آٹھ بچے ہو گئے۔
Forced Marriage
چونکہ اب سارا کاروبار بڑا بیٹا کر رہا تھا تو باپ بیٹے سے نصف مال حاصل کرتاتھا اور بیٹا باقی کا نصف جمع کرتارہایہاں تک کے اس نے اپنے نام سے الگ کاروبار شروع کرلیا اور اب والد اپنے باقی سات بچوں کی کفالت کرنے سے عاجز ہوگیا ۔جس کے نتیجہ میں اس کے چار بچے تعلیم پوری نہ کرسکے مدارس کو خیرباد کہہ دیا تعلیمی اخراجات نہ ہونے کی وجہ سے جبکہ دوسری جانب پہلی تعلیم یافتہ بیوی حزن و ملال کی کیفیت کے ساتھ مجبور ہوگئی کہ وہ بچوں کی ورش کی خاطر کام کرے اور اس نے باوجود کمزوری و نقاہت کے سکول میں تدریس شروع کر دی۔
اس صورتحال کے بعد لڑکی کا باپ پریشان اور متاسف ہواکہ اس نے اپنی بیٹی کو تعلیم انجینئرنگ کیوں مکمل نہ کرنے دی جبکہ نقصان و خسارے کے بعد کے افسوس کا کیا فائدہ ہے؟لڑکی کے باپ نے بچی کی شادی چچازاد کے ساتھ زمین کی حفاظت کے نقطہ نظر سے کرائی تھی جب کہ اب تو اس کے خاوند نے دوسری شادی کرلی جس کا بدیہی نتیجہ یہ ہوا کہ دوسری بیوی اپنے خاوند کے میراث میں حصہ دار ہوگئی اور اس کی اولاد بھی اس کے ساتھ اس نے خاوند سے بچوں اور اپنی حفاظت کیلئے مشکل حالات سے بچائو کیلئے زمین کے بڑاحصہ وصیتاً لکھ دے ان سب واقعات و حوادث کا مشاہدہ بچی کا والد کرتارہااور اپنے کئے پر نادم بھی تھا کہ اب وہ بیٹی کیلئے کچھ بھی خدمت کرنے سے قاصر ہے۔اسی طرح لڑکے کا والد بھی اس سب کیفیت کو دکھ و درد کے ساتھ دیکھتا رہااصلاح احوال کیلئے کچھ کام کرنے سے معزور تھا۔
اپنی آنکھوں سے دیکھتارہاہے کہ پوتے باہم زمین و زر کی وجہ سے دست و گریبان ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دیکھتے ہی دیکھتے زمین کے ساتھ اولاد سے بھی محروم ہو بیٹھا۔ معاشرے میں پنپنے اور پھلنے پھولنے والی تمام خرابیوں کی ذمہ داری والدین پر عائد ہوتی ہے جو خاندانی وجاہت کو پیش نظر رکھتے ہوئے بچوں اور بچیوں کو رسوم و رواج کی بھینٹ چڑھادیتی ہے۔یعنی ان کی شادیاں ان لوگوں کے ساتھ کرادی جاتی ہیں جو علمی واخلاقی اور تربیتی اعتبار سے خستہ حال ہوتے ہیں جس کے نتیجہ میں میاں بیوی کے مابین آئے روز جھگڑے اور انتشار و فساد قائم رہتاہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کی اولاد ماں باپ کے تعلق و معاملات کو دیکھتے ہوئے غلط و منفی تاثر حاصل کرتے ہیں اور اس کا بدیہی نتیجہ اولاد کے اخلاقی تربیت کے جنازہ نکلنے کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے اور اس سب کی ذمہ داری و مسئولیت لڑکا اور لڑکی کے والدین پر عائد ہوتی ہے جیساکہ حدیث میں وارد ہے”جس کسی نے برائی کو رواج دیا اور پھیلایا اس کا گناہ اور اس طریقہ پر چلنے والے سب لوگوں کاقیامت تک گناہ اس پر حساب کیا جائے گا۔
کیا اچھا ہوتا کہ وہ بچی اپنی تعلیم مکمل کرلیتی ،اس سے شادی کرتی جو خوف خدا رکھتا ہو،علم و فن کا احترام کرتاہو لیکن افسوس کی بات ہے کہ والد نے بچی کی خواہش کا احترام نہ کیا اورشادی کے مسئلہ میں کفو(برابری) دینی و اخلاقی اورعلمی و تربیتی صلاحیتوں کو مدنظر نہیں رکھا۔حنفی مسلک میں شرط ہے کہ شادی کے معاملہ میں برابری علمی و دینی اور تہذیبی و ثقافتی ضروری ہے اور اسی طرح اسلامی تعلیمات کی حقیقی و صحیح تعلیمات میں بھی یہی شرط ہے۔جیساکہ نبی کریمۖ کی حدیث ہے کہ جس کسی نے اپنی بیٹی کا نکاح کسی فاسق و فاجر سے کرایا تو اس نے اس کے ساتھ قطع تعلقی(رشتہ ختم) کرلی ہے ”بیشک اسلام انسانیت کی فلاح و بہبود اور خوشی کیلئے آیاہیاس لئے نہیں کہ ہر ایک اپنے گھر و خاندان کو انتشار و فساد کا گھوارہ بنادے کہ وہ اس کا احساس بھی نہ رکھتاہو۔دین اسلام کی غلط تفہیم و تشریح نے غیر مسلموں کے قلوب و اذہان میں نفرت پیدا کردی ہے مسلمانوں کے جاہلانہ طرز عمل سے اور ان کو روک دیا گیا ہے کہ وہ اسلام میں داخل ہوسکیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ شادی و نکاح کے معاملات کو اسلامی تعلیمات کی حقیقی روح کے ساتھ سمجھا جائے تاکہ معاشرے میں خاندانی انتشار و فساد کو روکنے میں معاون ثابت ہو سکے۔