تحریر : انجینئر افتخار چودھری تیرہ مارچ ٢٠١٨ کی روشن صبح اس وقت تاریک ہو گئی جب بہو اور بھانجی عظمی کمرے میں چیختی چلاتی آئی اور وہ منحوس خبر دی جس سے منہ چھپائے کئی دن سے پوری فیملی پھر رہی تھی۔چودھری امتیاز احمد گجر میرے بڑے بھائی اس دنیا سے چلے گئے۔انا للہ و انا الیہ راجعون۔مجھ سے دو سال بڑے بھائی امتیاز ١٩٥٣ میں ہری پور کے گائوں نلہ میں پیدا ہوئے گھر میں پہلی نرینہ اولاد تھے۔ بڑے پیارے بھولے تھے ایک بار گول ٹوپی جو پورے منہ کو ڈھانپ لیتی ہے رو رہے تھے۔ماموں نے ماہئیا گایا کوٹھہ چویا ای ٹوپی وچوں منہ کڈ کے بھولا رویا ای۔ کہتے ہیں چڑیالا جہاں ہماری رہائیش تھی ماں چشمے سے پانی بھر کر واپس آئی تو دیکھا دو سانپ ان کے ساتھ کھیل رہے تھے۔انہوں نے چیخ ماری تو بھاگ گئے۔دیہاتی بچے سانپوں سے کھیل کر بڑے ہوتے ہیں۔خضدار بلوچستان میں تھے بھٹو دور کا آپریش ہو رہا تھا کہتے تھے یار سانپوں سے آنکھ مچولی جاری ہے۔ان سے بڑی بہن ممتاز اختر تھیں جنہیں والد صاحب کہتے تھے کہ میری شہزادی ہے جس نے پانچ بھای ہاتھوں کھلائے ہیں۔باجی کی عمر دراز ہو ہری پور کی ڈسٹرکٹ کونسل کی دو بار ممبر منتحب ہو چکی ہیں۔بھائی جان بڑے وجیہ و شکیل تھے۔ان سے جڑی یادیں چھوٹا بھائی کیسے بھول سکتا ہے۔گیارہ مارچ کو ہم دلدار افتخار کی شادی سے فارغ ہوئے تھے۔یہ شادی بھائی کے بغیر تھی اس لئے کہ وہ بستر مرگ پر پڑے تھے۔انہیں ہیپاٹائٹس سی تھا جو آخری سٹیج پر تھا۔میرے اللہ نے ہم سے نگینہ بھائی چھینا۔ہزارہ کے لوگوں کی بد قسمتی ہے کہ وہ پیدا تو اس خوبصورت دھرتی میں ہوتے ہیں لیکن ان کی روٹی کہیں اور لکھی ہوتی ہے۔والد محترم بھی اپنے بڑے بھائی چودھری عبدالغفار کے ساتھ گجرانوالہ آ گئے۔تایا جان پولیس میں تھے اور تھانے دار تھے۔ایک تھانے دار نے چھوٹے بھائی کو بلایا پہلے قلعہ دیدار سنگھ پھر کامونکی بعد میں کچے دروازے گجرانوالہ میں نوکری پارٹنر شپ کر کے دی۔پچاس کی دہائی میں چوہان میٹیل ورکس بنایا یہ کارخانہ گجرانوالہ کی مضافاتی آبادی باغبانپورے کی اس گلی میں قائم کیا گیا جہاں والد صاحب نے باقیماندہ زندگی گزاری۔اور وہ گلی اب چودھری برخوردار والی گلی کہلاتی ہے۔
ہم دونوں بھائی ایم سی پرائمری اسکول نمبر ٥ میں داخل ہوئے۔وہ مجھ سے دو جماعتیں آگے تھے۔نرم مزاج اور نرم خو بھائی کا ساتھ ایک ترکھے کھلنڈرے بلکہ دوسرے معنوں میں ایک لڑاکے بھائی کا تھا۔گلی محلے کے لڑکے کبھی بھائی کو تنگ کرتے تو کہا کرتے تھے میں اپنے چھوٹے بھرا نوں دساں گا۔مجھ سے شکائت کرتے کہ فلاں لڑکے نے مجھے تنگ کیا ہے۔اس کے بعد کا کام میرا ہوتا تھا۔شیدو کشمیری کی شکائت لگی تو اس کا کھنہ کھول دیا کسی اور سے لڑائی ہوئی تو میں آگے۔ہمارا بچپن شرارتوں میں گزر گیا۔وہ دن کبھی نہیں بھول سکتا رمضان کے دنوں میں سیڑھیوں کے نیچے بنے چولہے کے پاس ہم چھ بہن بھائی ماں کے گرد بیٹھے اپنی اپنی روٹی کیا انتظار کرتے بھائی لفظوں کا استعمال خوب جانتے تھے کہتے پہلیاں پنج روٹیاں ابرار دیاں باقی بعد میں، سب کی۔اوپرتلے کے بھائیوں میں بہت ضد چلتی ہے اور یہ شائد ساری عمر پر محیط ہو جاتی ہے۔جب کبھی گھر میں مطالبہ کیا کہ نئی کاپی درکار ہے تو بھائی خاموشی سے کہہ دیتے یہ لے لو اس میں چند صفحے موجود ہیں۔اوپر تلے کے تھے ان کے استعمال شدہ کپڑے کسی غریب کے پاس جانے سے پہلے مجھ غریب سے ہو کر گزرتے نئی پینٹ کا مطالبہ کرتا تو اپنی پرانی لے آتے فراز کا پہلا شعر یہ ہے اور کے کپڑے آئے ہیں بازار سے اک سیل میں اور میرے جوڑا آیا ہے قیدی کے کمبل جیل سے ۔ابتدائی تعلیم گورنمنٹ پرائمری اسکول نمبر ٥ محلہ باغبانپورہ میں حاصل کی۔پڑھائی میں اچھے تھے۔
میٹرک عطا محمد اسلامیہ ہائی اسکول سے فرسٹ ڈویزن میں کیا ایف اے گورنمنٹ کالج گجرانوالہ اور بعد میں فوج میں بھرتی ہو گئے۔والد صاحب نے سندھ میں زمینیں خریدیں تو ان کا ہاتھ بٹانے چلے گئے ہماری زندگی کے وہ چند سال ایسے تھے جیسے کوئی قحط سالی نے گھر بسیرا کر لیا ہو۔قبلہ والد صاحب شہر کے معروف لوگوں یں سے تھے بی ڈی ممبر ایوب خان دور میں مصالحتی کمیٹی کے چیئرمین بھی رہے ہمارا اپنا ایک چھوٹا سا کارخانہ تھا ہم گجر ہیں اور چوہان ہماری گوت ہے اسی کے نام پر چوہان میٹل ورکس کی بنیاد رکھی۔سندھ کی زمینوں نے ہمیں کنگلاکر دیا۔ایک طرف چھوٹے چھوٹے بچے تھے دوسری جانب زمین کلراٹھی نکل آئی اسے آباد کرنے کے لئے جیب میں پیسے نہ تھے گھر کے اخراجات پورے کرنا مشکل ہو گیا تھا ہم لوگ نلہ ہریپور سے آ کر پنجاب میں آباد ہوئے تھے۔اس دھرتی کی خوبصورتی ہے کہ یہاں جو آیا سما گیا اور شہر گجرانوالہ کے ارائیوں نے تو والد صاحب کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔سندھ میں بھی جو یار غار ملا وہ بھی چاچا رشید ارائیں ہی تھے۔بے جی کو لوگ ممبرانی کہتے اور پوری گلی میں ہمارا گھر ہی تھا جسے چائے بنانی آتی تھی بیمار خواتین کی خدمت چائے سے کی جاتی تو لوگ کہتے بے جی کے ہاتھ میں شفاء ہے۔بھائی جان میٹرک کا امتحان پاس کر کے گورنمنٹ کالج گجرانوالہ میں چلے گئے جہاں سے ایف کیا۔ پڑھائی میں دل چسپی نہ تھی تو والد صاحب نے سندھ بلا لیا۔ بھائی خوبصورت اتنے کہ پورے خاندان میں ان جیسا کوئی نہ تھا۔آواز بھی بڑی کمال کی تھی۔سندھ میں میں بھی گیا ہماری زمین ادھر میر پور متھیلو کے پاس دیہہ فکراٹھو میں ہے۔
جسے برخوردار نگر بنانے کی کوشش کی گئی مگر لسانی تعصب کی بناء پر بورڈ اکھاڑ لئے گئے ان کی بات بھی سچ تھی ہم پنجابیوں نے ان کے ہزاروں سال پرانے ناموں کو جڑ سے اکھاڑنے کی کوشش کی۔میں بھی گرمیوں کی چھٹیوں میں ادھر گیا۔بھائی کی مشقت بھری زندگی کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔والد صاحب کے وہ دن ساری زندگی آنکھوں کے سامنے ہیں اور زندگی کے آخری دنوں تک یاد رہیں گے۔سخت محنت کرنے والے نرم و نازک بھائی کی محنت کو یاد کرتا ہوں تو دکھی ہو جاتا ہوں ۔گوٹھ کے باہر مٹی کی ایک دیوار بنی تھی وہاں ٹیوب ویل تھا جس کا پانی بھی میٹھا نہ تھا جہاں جہاں گیا زمین برباد کرتا گیا اسی ٹیوب ویل کی دیوار کے ساتھ ایک چاند رات کو دیکھا بھائی وہاں بیٹھے ہیں اور اپنی خوبصورت آواز میں گنگنا رہے تھے میں نے چاند اور ستاروں کی تمنا کی تھی مجھ کو راتوں کی سیاہی کے سوا کچھ نہ ملا۔ یہ ان کے خوابوں کے چکنا چور ہونے کی کہانی تھی وہ کتھا تھی جس کا خواب ہر جوان دیکھتا ہے کہ وہ شہزادہ بنے گا۔ماں کا یہ شہزادہ بھی کمال کا تھا۔بے جی ان کے خلاف ایک لفظ بھی نہ سنتی تھیں۔ان کے ہر کام کا دفاع کرتیں۔کہتی تھیں میرا سوہنا پتر اس کی سب عزت کریںبات بھی سچی تھی میرا انتہائی خوبصورت دراز قد بھائی جب سفید شلوار قمیض کے اور سیاہ کوٹ پہن کر نکلتا۔تو ہمارے دیس ہزارے کے لوک فنکار کا گایا ہوا ماہئیا میرے ماہئے دا کالا کوٹ گلی وچوں لنگ جانداں ایں سڑ وینڈا اے سارا لوک (میرے محبوب کا کالا کوٹ ہے اور جب وہ گلی سے گزرتا ہے تو لاگ جل جاتے ہیں) چودھری امتاز احمد گجر تہہ خاک تو ہو گئے مگر اپنی حسین یادوں کے انبار چھوڑ گئے۔ہم بٹے ہوئے لوگ ہیں اور ہزارہ کی بد قسمتی ہے کہ مائیں اپنے بچوں کو تو اس دھرتی میں جنم دیتی ہیں مگر ان بچوں کو حوادث زمانہ کدھر کدھر لے جاتے ہیں۔ہم بھی پیدا ہزارے میں ہوئے اور جا پہنچے پنجاب وہاں سے سندھ پھر جدہ اور اب پنڈی کوئی پوچھتا ہے کہا ں کے ہو تو انہیں سوال کر دیتا ہوں پیدا ہزارہ میں ہوا پلا بڑھا پنجاب میں عمر گزری جدہ میں اور مرنے پنڈی آ گیا ہوں محمود شام کا ایک ہی شعر یاد ہے مجھے پنجاب نے پالا اور سندھ نے سینچا میرے مزاج سے دریا دلی کبھی نہ گئی۔
ویسے کہتے ہیں انسان کا دیس وہی ہوتا ہے جہاں اس کی ماں اور اس کا باپ پیدا ہوا ہوا اس لحاظ سے ہزارے وال ہوں وہ ہزارہ جہاں آدمی کا ہے مشکل گزارہ۔کل بھی محکوم تھا اور اب بھی ہے سرائیکی لوگ تخت لاہور کے قیدی ہیں اور ہم پشاور کے۔ہم ایک صوبے میں رہ کر اجنبی سے ہو گئے ہیں۔ہزارہ کا تشخص ختم ہو گیا ہے ہزارہ کو شائد اس کی پاکستان سے لازوال محبت کی سزا مل رہی ہے بد قسمتی سے تیسری بار منتحب ہونے کی لالچ میں اس پیارے صوبے کا نام سرحد سے بدل کے خیبر پختونخوا ہ رکھ دیا گیا ہے۔جس سے لسانیت کی بو آتی ہے۔
بھائی جان کی زندگی کے چند سال جو ہمارے خاندان پر سیاہ سال تھے ان کا وہ ایثار کبھی نہیں بھلا پاتا کہ وہ ایک پاک فوج میں سپاہی بھرتی ہو گئے اسی روپے پر ہمارا پھول جیسا بھائی کوہلو خضدار بار خان ملک دشمنوں کے سامنے کھڑا ہو گیا کمانڈو میں بھرتی ہو گئے ۔اور زندگی کے چند سال فوج کے نام کئے۔١٩٧٥ میں والد صاحب سندھ کی زمین سے ٹیوب ویل وغیرہ بیچ کر گجرانوالہ آ گئے کمال کے تاجر تھے کچے کا کام کیا اور دنوں میں چھا گئے بعد میں واپڈا کے کنٹریکٹر بن گئے اور دنوں میں کامیابی سمیٹی ١٩٧٨ میں ہم مرسیڈیز کے مالک بن گئے۔بھائی فوج سے واپس آ گئے۔اور گجرانوالہ میں کاروبار سنبھالا یہ وہ دن تھے میں ١٩٧٧ میں جدہ گیا اور وہاں محنت مزدوری کی اسی کی دہائی میں بھائی جان سعودی عرب آ گئے وہاں ایک کمپنی ڈٹکو کے کیمپ مینجر بن گئے کمال کے منتظم تھے جب یہ جاب ختم ہوا تو طائف کے کمانڈو اسکول میں اگریکلچر فورمین بن گئے۔اپنی ذہانت سے ایک انڈین انجینئر کی مدد حاصل کی ہر بوٹے کا نام لکھ لیتے کوئی بوٹا بیمار ہوتا تو جدہ میں مشتغل العدوانی جو عمارة لا الہ الل اللہ کے سامنے ایک نرسری میں آتے انجینئر سے مشورہ کرتے اور واپس طائف چلے جاتے۔بڑے قصہ گو تھے ۔گجر ہسٹری میں بڑی دلچسپی لیتے وہ بھی گجر ہے وہ بھی گجر ہے معلومات کا خزینہ منتقل کرتے رہتے۔ایک بار مدینہ منورہ سے تھکا ماندہ پہنچا تو کہنے لگے تمہیں علم ہے پریم چوپڑہ اور اکشے کمار بھی گجر ہیں میں ہنس دیا کہا بھائی جان تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔یہاں گجرانوالہ میں میاں محمد بخش ڈسپنسری بنائی لوگوں کے کام آتے اور اس قدر اس میں آگے چلے جاتے کہ لگتا کہ بس اسی مقصد کے لئے آئے ہیں۔
ہیپاٹائٹس کے موزی مرض میں مبتلا ہو گئے۔کہتے ہیں ایک بار وہاڑی گیا تھا لاری اڈے سے شیو کرائی تو کٹ لگ گیا انہیں یہ شک تھا کہ یہ بیماری وہاڑی سے لگی ہے۔بہتیرا علاج کرا یا۔مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی آخری دنوں میں لیور کے اوپر کوئی نشان سا دکھائی دیا تو کسی طور نامی قصاب کے ہتھے چڑھ گئے اس نے کیمو کی بجائے بھاڑے پر لگا لیا ہر دس دن بعد آئو اور چیک کراتے رہو بستر مرگ پر تھے تو کہتے تھے اس ڈاکٹر طور پر کیس کرو جس نے علاج کی بجائے ماہانہ گاہک بنائے رکھا۔بھائی جان اسی کے پاس جاتے رہے اور ایک دن خبر یہ ملی کہ وہ چھوٹا سا نشان ایک پھوڑے کی شکل اختیار کر گیا ہے۔اس دن ڈاکٹر طور نے کہا کہ اب آپ داخل ہو جائیں۔ڈاکٹر نے تجویز کیا کہ ایک انجکشن لگے گا جو کیمو تھراپی کا کام دے گا۔اسی ٹیکے نے جان لے لی ڈاکٹر صاحب دبئی جا رہے تھے دو اڑھائی لاکھ وصول کیا اور خود دبئی چلے گئے۔
بستر مرگ پر تھے ضد کرنے لگے مجھے جناح کیپ دو جو قبلہ والد صاحب نے پہنی تھی نوید نے گجرانوالہ سے لے کر دی۔دلدار کی شادی تھی کہتے تھے جھومر ڈانس کروں گا۔میرا پھولوں جیسا بھائیجس کی وجاہت کے قصے لسن ایبٹ آباد نلہ ہری پور میں تھے کوئلہ بن کے مر گیا۔نون لیگئے تھے قبلہ والد صاحب کے وقت سے دستگیر خان کے ساتھ تھے ان کی میٹینگ کراتے اور پولنگ اسٹیشن کی ساری ذمہ داری لیتے ہوا یوں کہ ان کی موت پر کوئی بھی نہ آیا ان کا دکھ بانٹنے شیخ رشید اسد عمر شفقت محمود اور بے شمار لوگ میرے گھر آئے میں نے انہیں کئی بار کہا تھا کہ کلر زمین میں پھول نہیں اگتے یہ بے حس لوگ آپ کا دکھ بھی نہیں بانٹیں گے۔بندہ کیا کہے یہ وہ لوگ تھے جن کی پذیرائی میں جدہ میں آگے بڑھ کر ملا۔اب کیا احسان جتلائیں ان کے انتحابات میں جان لڑانے والے بھائی کے لئے دو لفظ بھی نہیں ملے۔وقت گزر جائے گا اور انشاء اللہ وہ وقت بھی آئے گا کہ اس ملک کی باگ دوڑ صالح لوگوں کے پاس ہو گی جو کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے۔بھائی جان تحریک نجات میں شدید زخمی بھی ہوئے۔شہر کی متعدد فلاحی تنظیموں میں سرگرم رہے۔انجمن گجراں کے صدر تھے بریطانیہ گئے تو چودھری رحمت علی کی قبر پر بھی گئے۔ان کے جسد خاکی کو پاکستان لانا چاہتے تھے۔وہ گجر ہونے کے ناطے چودھری صاحب سے پیار نہ کرتے بلکہ ایک اعلی سوچ اور ویزن رکھنے والے لیڈر کی حیثیت سے ان کی قدر کرتے۔دلدار کی شادی کے دنوں میں ہمارے کان کسی بری خبر کی طرف کھڑے رہے اتوار گیارہ مارچ کو شادی ختم ہوئی اور منگل کی صبح یہ قیامت ہم پر گزر گئی۔جنازہ بڑے قبرستان میں ہوا مفتی نعیم رحمت اللہ نوری نے پڑھایا جس میں سینکڑوں لوگ شریک ہوئے۔قبرستان میں خوش قسمتی سے اپنے والد کی قدموں میں جگہ ملی۔
یوں یہ پیارا اور خوبصورت بھائی ہم سپرد خاک کر کے آ گئے ۔ دکھ تو اس بات کا ہے کہ وہ آخر دم تک مسلم لیگی رہے انہیں نون لیگی کی ہر قلابازی ایک مشاکانہ عمل دکھائی دیتا میں نے جب کہا کہ دیکھ لیں یہاں گجرانوالہ میں کوئی چج کا ہسپتال نہیں ہے تو پارٹی کا بھرم رکھتے ہوئے کہنے لگے نہیں بہت اچھے ہسپتال ہیں۔بھولے بھائی کو یہ علم نہیں تھا کہ شہباز شریف بیمار ہوں تو لندن جاتے ہیں یہاں گجرانوالہ میں کیا خاک علاج ہوتا ہو گا۔ان کی رحلت کے بعدتعزیت کے لئے لوگوں کا تانتا بندھا ہوا ہے۔اللہ پاک چودھری امتیاز احمد گجر کو غریق رحمت کرے آمین
جانے والا جا چکا تھا اور میری آنکھ میں اک چمکتا ٹمٹماتا سا ستارہ رہ گیا