تحریر : زنیرہ مشتاق منی کے بھائی کی شادی کے دن مقرر ہوئے وہ بہت خوش تھی۔ اپنی اماں سے کہنے لگی اماں اماں میں تو بھائی کی بارات پر مشہور ڈیزائنر ایچ ایس وائے (حسن شہریار یاسین) کا ہی جوڑا پہنوں گی، مگر اماں نے غصے سے منا کر دیا۔ اس پر منی نے کہا کہ اگر آپ جوڑا نہیں دلائیں گیں تو میں خود جوڑا خرید لائوں گی، اب وہاں اماں کی سہیلیاں بھی موجود تھیں تو ایسے میں اماں اپنی ناک کیسے نیچی ہونے دیتیں اور فوراً جوڑادلانے کی ہامی بھر دی اور اگلے ہی روز منی کے ہاتھ میں جوڑا لا تھمایا منی جوڑا دیکھتے ہی خوشی سے جھوم اٹھی اور جوڑا اماں سے لیکر الماری میں رکھ دیا اور روز اس جوڑے کو الماری سے نکالتی اور دیکھ کر واپس رکھ دیتی اب منی بے صبری سے بھائی کی شادی کا انتظار کرنے لگی۔ آخر کار وہ دن آ گیا۔
جب منی نے وہ جوڑا زیب تن کیا اور مہمانوں میں تشریف لے آئی اور خوب اترانے لگی جیسے اس جیسا جوڑا کسی اور نے زیب تن نہ کیا ہو مہمان بھی اس کے جوڑے کی داد دیتے رہے اور وہ خوشی سے پھولے نہ سما رہی تھی، لیکن اس معصوم کو کیا معلوم تھا کہ اس کی یہ خوشی کچھ ہی لمحوں کی ہے۔ دور سے ایک شخص نے آوازلگائی کیا، خوب جچ رہی ہیں آپ میڈم اس لباس میں کیا کہنے آپ کی اماں کی پسند کے ایسے میں منی حیرانگی سے اس شخص کی طرف دیکھنے لگی اور کہنے لگی تمہیں کیا علم یہ جوڑا کس ڈیزائنر کا ہے۔
وہ مسکرایا اور کہا میڈم آپ کو شائد غلطی لگ رہی ہے، وہ ڈیزائنر نہیں ہاں البتہ درزی ضرور ہیں۔ اما ںاسے منی کے پیچھے کھڑی خاموش رہنے کا اشارہ کرتی رہی لیکن وہ شخص مجال ہے کہ چپ ہو جاتا اور کہنے لگا، میڈم یہ جوڑا تو گلی کے نکر پر موجود چچا ریاض کی دکان کا ہے۔
پھر کیا تھا، منی کے تو جیسے یہ سنتے ہی پائوں کے تلے سے جیسے زمین ہی کھسک گئی ہو کہ جن مہمانوں کو وہ یقین دلاتی رہی کہ یہ جوڑا مشہور ڈیزائنر ایچ ایس وائے کا ہے، اب وہ کیا سوچیں گیں۔ منی اماں کی طرف مڑی اور منہ پھلا کر کہا سہیلیوں کے سامنے اوور ایکٹنگ کرنے کی کیا ضرورت تھی، اس پر اماں نے یہ کہہ کر جان چھڑوائی کہ اگلی بار وہ اسے ضرور ڈیزائنر ہی جوڑا دلا کر دے گی، منی بولی اماں امید کرتی ہوں اس بار ڈیزائنر ایچ ایس وائے ہی ہو چچا ریاض نہیں۔