کراچی (جیوڈیسک) اپنی آواز کے ذریعے لوگوں کے جذبات کی ترجمانی کرنے والے معروف گلوکار اخلاق احمد کی آج 15 ویں برسی منائی جارہی ہے۔
1946 میں نئی دلی میں پیدا ہونے والے اخلاق احمد قیام پاکستان کے بعد اپنے خاندان کے ہمراہ ہجرت کر کے کراچی آگئے اور یہیں مستقل سکونت اختیار کی۔ انہیں بچپن سے ہی گلوکار بننے کا شوق تھا، 1960 کے عشرے میں انہوں نے اسٹیج سے اپنے فنی سفر کا آغاز کیا۔ 1973 میں انہیں فلم ’’پازیب‘‘ میں پس پردہ گلوکاری کا موقع ملا جس کے بعد انہوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔
انہوں نے اس وقت اپنے فن کا لوہا منوایا جبکہ پاکستانی فلم انڈسٹری میں شہنشاہ غزل مہدی حسن اور احمد رشدی کا طوطی بولتا تھا۔ موسیقار مسعود رانا کے ہمراہ ان کی جوڑی خاصی مقبول ہوئی لیکن روبن گھوش نے ان کی دلفریب آواز کا جس قدر خوبصورتی سے استعمال کیا وہ شائد کوئی بھی موسیقار نہ کرسکا۔
اخلاق احمد کا شمار پاکستان کے ان فنکاروں میں ہوتا ہے جنہوں نے ہمیشہ معیار کو اولیت دی، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنے پورے کیریئر میں محض 62 فلموں کے 90 گیتوں میں اپنی آواز کا جادو جگایا۔ ان کے گائے ہوئے گیت ’’سونا نہ چاندی نہ کوئی محل جان من تجھ کومیں دے سکوں گا‘‘ اور “ساون آئے ساون جائے ” کئی عشرے گزر جانے کے بعد بھی لوگوں میں یکساں طور پر مقبول ہیں۔
اخلاق احمد اپنے فنی سفر کے عروج میں ہی بلڈ کینسر کے موذی مرض میں لبتلا ہو گئے تھے۔ اپنی اس بیماری کو شکست دینے کے لئے انہوں نے ہر ممکن کوشش کی یہاں تک کہ وطن عزیز کو چھوڑ کر برطانیہ میں مقیم ہوگئے لیکن 1999 کو آج ہی کے روز وہ اپنی بیماری سے ہار گئے۔ گو انہیں اپنے مداحوں سے جدا ہوئے 15 برس بیت گئے ہیں لیکن لوگ اب بھی ان کی مدھر آواز کے سحر سے نکل نہیں پائے۔