تحریر : عقیل خان حال ہی میں ہونے والے ضمنی الیکشن ویسے تو لاہور اور اوکاڑہ میں تھے مگر اس کا چرچا پاکستان بھر میںت ھا۔ عام آدمی سے لیکر تجزیہ نگار تک ہر کوئی اپنی اپنی سوچ کے مطابق اس الیکشن پر تبصرے کررہا تھا۔ یہی نہیں بہت سے لوگ تو اپنی پارٹی کو عظیم فتح دلائے ہوئے تھے۔ مختلف چینلز پر توا یسے گفتگو ہوتی تھی جیسے یہ الیکشن نہیں کوئی جنگ ہورہی ہو۔ این اے 122اور این اے 144 میں الیکشن کم اور جنگ زیادہ لگ رہی تھی۔ این اے 122 کو کچھ زیادہ ہی اہمیت دی جارہی تھی۔ کچھ لوگ ن کو جتوا رہے ہیں تو کچھ جنون کو۔کوئی بول رہا ہے کہ ایک طرف حکومت اور دوسری طرف تن تنہا جنون ہے تو کسی نے کہا ایک طرف ن ہے اور دوسری طرف جماعت اسلامی، تحریک انصاف، ق لیگ ، عوامی تحریک اور دوسری پارٹیاںکا مقابلہ ہورہا ہے۔ الیکشن کمیشن نے شیڈول جاری کرنے کے بعد ایم این ایز ، ایم پی ایزسمیت حکومت پر کمپئین چلانے پر پابندی عائد کردی تھی مگر خان صاحب نے رٹ دائر کرکے یہ پابندی ختم کرائی کیونکہ اگر پابندی رہتی تو پھر الیکشن میں گہما گہمی کیسے ہوتی؟کس طرح ایک دوسرے پر یہ لیڈران کیچڑ اچھالتے۔
خان صاحب کبھی لاہور تو کبھی اوکاڑہ گرجتے دکھائی دیے۔ ن لیگ کا سارا دارومدار لاہور میں رہا ۔انہوںنے اوکاڑہ میں کوئی خاص دلچسپی نہیں دکھائی کیونکہ وہاں دو ن لیگی اور ایک پی ٹی آئی کا مقابلہ تھا۔ خان صاحب نے تو اوکاڑہ میںمیاں صاحب کے ایسے ایسے راز اوپن کیے کہ ان کو کرپٹ ترین انسان قرار دے دیا۔ بقول جنون کہ میاں صاحب نے تو کرپشن میں زرداری کو بھی پیچھے چھوڑدیا۔ بحرحال سیاستدان ہر دور میں ایک دوسرے کو کرپٹ کہتے رہیے ہیں اور کہتے رہینگے مگر جب ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو پھر سب مومن بن جاتے ہیں۔کوئی پارٹی اپنے اندر کے کرپشن کو صاف نہیں کرتی مگر دوسرے کو کرپٹ ضرور بنا دیتی ہے۔ کونسی پارٹی ہے جو لوٹا کریسی سے باہر ہے؟ انسان دوسرے کی طرف ایک انگلی سے اشارہ کرتا ہے مگر یہ نہیں دیکھتا کہ تین انگلیاں اسکی اپنی طرف بھی ہوتی ہیں۔سیاست میں کرپشن عام ہے اس کا تدارک کوئی نہیں کرتا اور نہ ہی دل سے چاہتا ہے۔
حلقہ این اے 122 میں مسلم لیگ کے امیدوار نے کامیابی تو حاصل کر لی تاہم دیکھا جائے تو مسلم لیگ کی کامیابی اور تحریک انصاف کی ناکامی کی صورت میں دونوں جماعتوں نے ہی سبق سیکھے ہیں۔ تحریک انصاف کی ناکامی سے یہ بات سامنے آ گئی ہے کہ عوام دھرنوں کی سیاست سے تنگ آ چکی ہے(دھرنوں کے بعد سے آٹھ الیکشن میں سے چھ ہارے ہیں)۔ جہاں عمران خان نے دھاندلی کے الزامات لگائے اور کہا تھا کہ ضمنی الیکشن کے بعد دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا تو اس کا نتیجہ سامنے آ گیا ہے اور تحریک انصاف کو این اے 122 اور این اے 144 میں شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
PTI
یہاں پر یہ بات قابل ذکر ہے کہ خان صاحب کو اپنے امیدواروں کے انتخاب میں سمجھداری دکھانا ہو گی کیونکہ تحریک انصاف کے اپنے ہی حلقوں میں اس حوالے سے انگلیاں اٹھائی گئیں۔دونوں حلقوںمیں تحریک انصاف کے پرانے کارکنوں نے اپنے امیدواروں کو دل سے قبول ہی نہیں کیا۔سوشل میڈیا پر اپنے امیدواروں کے متعلق آواز بلند کرتے رہے کیونکہ ان کی آواز حقیقت میں تواپنے لیڈران تک نہیں پہنچ رہی اسی لیے انہوں نے سوشل میڈیا کا سہار ا لیا۔یہ حقیقت ہے کہ عوام اب لوٹا کریسی سے تنگ آچکے ہیں۔ وہ بھی اب حقیقی تبدیلی چاہتے ہیں۔عوام چہرے نہیں نظام کی تبدیلی چاہتے ہیں۔
دوسری جانب مسلم لیگ ن کوبھی لاہور اور اوکاڑہ کے ضمنی الیکشن میں اپنی حیثیت کا علم ہوگیا ہوگا۔ن لیگ نے الیکشن میں جیت سے زیادہ کچھ حاصل نہ کیا اور یہ جیت بھی ایسی تھی کہ ہار لگ رہی تھی کیونکہ حکمران جماعت ہو کر صرف 4 ہزار ووٹوں کی جیت کوئی بڑی جیت نہیں۔اوکاڑہ کے الیکشن میں ن لیگ کے فیصلے کو عوام نے یکسر مستر د کردیا جس کا برملہ اعترا ف وزیراعظم پاکستان اور ن لیگ کے صدر نے کرلیا۔ خان صاحب بھی نواز شریف کی طرح ایک بیان دے چکے ہیں۔انہوںنے کہا کہ” این اے 122 کا انتخاب شفاف تھا لیکن قبل از وقت دھاندلی ہوئی جب کہ نوازشریف نے یہ میچ بھی اپنے امپائرز کے ساتھ کھیلا۔ عمران خان نے کہا کہ حکومتی مشینری استعمال کرنے کے باوجود ایاز صادق صرف چند سوووٹوں سے جیتے لیکن اگر میں علیم خان کی جگہ ہوتا تو آسانی سے جیت جاتا۔”
اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ جن پارٹیوں کے سربراہ اس طرح کے بیان دیں تو پھر وہ یہ بھی بتا دیں کہ ان امیدواروں کوٹکٹ دینے کا فیصلہ کس کا تھا؟ایسے غلط فیصلے کون کرتا ہے؟جو لوگ اپنی پارٹی کے فیصلے کرنے مجاز نہیں وہ ملک کے لیے کیا فیصلے کریں گے؟اگر ہماری سیاسی جماعتوں کے قائدین پاکستان سے مخلص ہیں اور پاکستان کو کرپشن سے پاک کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو پھر پہلے اپنی پارٹیوں میں کرپٹ لوگوں کو نکالیں۔ الیکشن میں جیت ن کی ہو یا جنون کی مگر یہ حقیت ہے ان دونوں سیٹوں پر عوام نے اپنا ردعمل واضح کردیا۔ جو لوگ ن اور جنون کے قصیدے پڑھ رہے تھے انہیں بھی معلوم ہوگیا کہ عوام کس طرف یا کیا چاہتی ہے۔ میں تو یہی کہوں گا کہ اس بار عوام نے ن اور جنون کی امیدوں کے برعکس رزلٹ دیکر ثابت کردیا کہ جیت اس کی ہوئی ہے۔