سچ تو یہ ہے کہ الٰہی رنگ میں ڈھلنے والے دو عالم سے بے نیاز ہو جاتے ہیں ‘ کو چہ عشق کے مسافر جب خدا کے عشق کی گلی میں بستر لگا لیتے ہیں تو پھر کسی دوسرے کو چے میں بھیڑ لگانے سے بے پرواہ ہو جاتے ہیں۔ مادیت پرستی اور اقتدار کے جھولے کی خواہش کس کے دل میں کروٹیں نہیں لیتی ‘ کون ہے جس کے قدم یہاں لغزش نہیں کھاتے اور کتنے شاہسوار ہیں جو اِس پل صراط کو آسانی سے عبور کر تے ہیں ‘ کم ہی کم خال حال لیکن جو بارگاہ الٰہی کی غلامی اختیار کر لیں وہ پھر اِن فتنوں سے آزاد ہو جاتے ہیں جو حسن ِ اعمال کے نور سے رنگے ہوں ان کے د ل پھر مادیت پرستی کے طلسم ہو شر با سے محفوظ ہو جاتے ہیں یہ مقام اور بے نیازی کر ہ ارض پر بسنے والے اربوں مادیت پرست انسانوں میں صرف اور صرف اولیاء اللہ کو ہی نصیب ہو تی ہے حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر شہنشاہِ پاک پتن تاریخ انسانی کے عظیم ترین صوفیاء کرام میں سے ایک ہیں جن کی روحانی قوت عظمت کردار کے نور سے ظلمت کدہ ہند میں وحدانیت کا اسلام کا نور تیزی سے پھیلا آپ کی تعلیمات کردار کشف و کرامات نے لاکھوں بت پرستوں کو صراطِ مستقیم پر ڈالا اور صنم پرستی میں غرق دلوں کو کلمہ تو حید سے منور فرمایا جو ہزاروں سالوں سے بت پرستی کے اندھے غار میں گم تھے۔
پاک پتن کے عظیم مسیحا جو ظالم حکمرانوں کے دور میں مظلوم انسانوں کی آخری پناہ گاہ تھے کیونکہ آپ کے دربار میں سلاطین وقت غلاموں کی طرح گردنیں جھکائے حاضر ہو تے تھے اور خو دکو آپ کے سامنے جوابدہ سمجھتے تھے حکمرانی آپ کی دعائوں کا ثمر قرار دیتے تھے اب بے شمار واقعات تذکروں میں موجود ہیں جب کوئی ظالم حاکم کسی بے بس مجبور پر ظلم ڈھاتا ہو اور وہ مظلوم جب داد رسی کے لیے بارگاہ فریدی میں درخواست گزار ہوا تو شاہاں وقت نے نہ صرف داد رسی کی بلکہ ظالموں کو اُن کے کئے کی سزا بھی ملی بابا فرید تزکیہ نفس کے لیے جب زندگی کی تمام راحتوں کو ٹھکرا دیا۔
تمام لذتوں سے منہ موڑ لیا تو پھر الٰہی رنگ آپ پر خوب چڑھتا گیا آپ تاریخ تصوف کے وہ عظیم مجاہد جنہوں نے ساری زندگی خود کو مجاہدے اور فاقہ کشی کی سولی پر لٹکائے رکھا شہرت کے بعد بھی آپ نے خاک نشینی فقیری نہ چھوڑ دی بلکہ بے بس مہتاجوں کے درمیان بیٹھ کراُن کی داد رسی کرتے رہے ۔بابا فرید رزق حلال پر بہت زیادہ زور دیتے تھے بے نیازی کا یہ عالم تھا کہ جب ہندوستان کے حکمران ناصر الدین محمود نے بہت سارا نذرانہ اور جاگیر پیش کی تو آپ نے لینے سے انکار کر دیا آپ اکثر فرماتے تھے کہ دین کے پانچ ارکان کی تکمیل کے لیے چھٹے رکن کی تکمیل بھی بہت ضروری ہے اِس کو مکمل کئے بغیر کو بھی مسلمان صالحین میں شامل نہیں ہو سکتا وہ چھٹا رکن ہے رزق حلال اسی تو لیے تو آپ اسلام کا چھٹا رکن روٹی کہا کر تے تھے آپ کے کڑے مجاہدے عبادت ریاضت روزہ کا اہتمام دنیا سے بے نیازی اور خدا کی ہر وقت پروا کی دیکھ کر تو سلسلہ چشتیہ کے بانی عظیم خواجہ خوا جگان حضرت شیخ معین الدین چشتی اجمیری نے فرمایا تھا۔
فرید الدین ایسی شمع ہے جس کی روشنی سے درویشوں کے گھر منور ہونگے اور پھر آپ ہی کے بارے میں اپنے خلیفہ اور بابا فرید نے مرشد کریم خواجہ قطب الدین بخیار کاکی سے کہا تھا کہ تم نے وہ شہباز پکڑا ہے جس کی پرواز آسمانوں میں ہو گی اورپھر بابا فرید کی مشکل میں سلسلہ چشت کی یہ عظیم شمع روشن ہو ئی تو برصغیر پاک و ہند کا قریہ قریہ کو چہ کو چہ گھر گھر روشن ہو گیا پھر پاک پتن کے اِس عظیم مسیحا کی ایک نظر سے لاکھوں دلوں کا زنگ دور ہو گیا اجو دھن سے ایسا چشمہ معرفت پھوٹا کہ لاکھوں غیر مسلموں کے دلوں کو بت پرستی کے زنگ سے نکال کر نور اسلام میں رنگ دیا بابا فریدمسعود الدین گنج شکر کو یہ مقام کڑی ریاضت مجاہدے عبادت تسلیم و رضا کے بعد حاصل ہوا دوران ریاضت آپ دنیا جہاں کے ملکوں میں گئے اوران بزرگوں کی صحبت اور نذر سے اپنے پسینے کو منور کیا آپ فرماتے ہیں ایک مرتبہ میں بغداد شریف کی طرف جارہا تھا کہ دجلہ کنارے ایک درویش باکمال کو دیکھا جو پانی کی سطح پر جائے نماز بچھا کر نماز پڑھنے میں مشغول تھا میں اُ ن کے روحانی تصرف اور مقام سے بہت متاثر ہواوہ نماز سے فارغ ہو ئے تو اپنا سر سجدے میں رکھ کہ بارگاہ الٰہی میں مناجات کر نا شروع کر دیں اے پروردگار حضرت خضر گناہ کبیرہ کا ارتکاب کر رہے ہیں۔
اُن کو اُس گناہ سے روک کر توبہ کی توفیق دے ابھی ان کی دعائوں کا سلسلہ جاری تھا اچانک وہاں پر حضرت خضر تشریف لے آتے ہیں اور پو چھتے ہیں جناب میں کون سا گناہ کبیرہ کیا ہے وہ مجھے بتا دیں تا کہ میں اس گناہ کی معافی مانگ لوں میں توبہ کر لوں تو بے مثال بزرگ بو لے اے خضر تم نے جنگل میں ایک درخت لگایا ہے اور اس کے سائے میں آرام کر تا ہے اور ساتھ میں یہ بھی دعوی کر تا ہے کہ میں مخلوق خدا کی راہنمائی کر تا ہوں مدد کر تا ہوں اب تمہارے تقویٰ کا یہ مقام ہے تو تم خود ہی اپنا محاسبہ کر لو خضر نے بزرگ کی بات سن کر شرمندگی کا اظہار کیا اور فوری تو بہ کر لی اب درویش باکمال نے حضرت خضر کو ترک دنیا کے بارے میں بتایا کہ تم بھی زندگی اِس طرح بسر کرو جس طرح میں کر تا ہوں تو حضرت خضر نے بزرگ سے درخواست کی کہ مجھے بتایا جائے کہ آپ کس طرح زندگی بسرکر تے ہیں تاکہ میں بھی رہنمائی لے سکوں تو دنیا سے بے نیاز درویش بو لا میں زندگی اسطرح بسر کرتا ہوں کہ اگر مجھے ساری دنیا اور دنیا کے خزانے دے دئیے جائیں اور ساتھ میں یہ خوشخبری بھی سنا دی جائے کہ تمہارا کو ئی حساب کتاب نہیں ہو گا اور اگر تم یہ پیشکش ٹھکرا دو قبول نہ کرو گے تو تم کو دوزخ میںڈال دیا جائے گا تو پھر بھی میں یہ دنیا اور دولت لینے سے انکار کر دوں گا اور دوزخ قبول کر لوں گا۔
اِس لیے کہ یہ دنیا میرے رب کی مبغوضہ ہے جس کو حق تعالیٰ نے غضب کی نگاہ سے دیکھا تو جس کو میرا رب پسند نہ کر تا ہو میں اُس کو کس طرح قبول کر لوں میں اِس کے بدلے میں دوزخ قبول کر نا پسند کر وں گا ۔ بابا فرید فرماتے ہیں میں بزرگ کے روحانی مقام اور تسلیم و رضا کے بارے میں جان کر ششدرہ گیا حیرت میں تھا کہ بزرگ کی آواز آئی تو میں نے آگے بڑھ کر سلام کیا تو درویش بو لا آگے آئو تو میرے دل میں خیال آیا کہ آگے تو دریا کا پانی ہے اور میں کس طرح پانی پر چل سکتا ہوں تو اچانک میں نے دیکھا دریا میں یہ راستہ بن گیا اور میں خشکی پر چلتا ہوا اُن کے پاس پہنچ گیا پھر بزرگ نے محبت بھری نظروں سے میری طرف دیکھا اور بولے اے فرزند چالیس سال ہو گئے میں نے زمین کو نہیں چھوا اور نہ ہی سویا لیکن جو روزی میرے لیے مقرر ہے اسے اگر اپنے سامنے کسی پر خرچ نہ کرلوں تو میرے دل کو سکون راحت نہیں ملتی تو فقیری ہی ہے کہ جو کچھ تمہار ے مقدر میں ہے اُسے دوسروں کو دے دو۔
انہی باتوں کے دوران غیب سے ان کا روزینہ دو پیالے شوربہ چار عدد روٹیاں حاضر کر دی گئیں تو شفیق بزرگ نے ایک پیالہ مجھے دیا اور دوسرا اپنے سامنے رکھا اور ہم دونوں نے کھانا شروع کر دیا پھر ہم دونوں نے نماز عشاء ادا کی تو درویش نے نوافل پڑھے شروع کر دئیے تو میں نے بھی ان کے پیچھے دو رکعتوں میں چار قرآن پاک ختم کئے یعنی ایک رکعت میں دو قرآن مجید ختم کئے پھر سلام پھیرا ور اپنا سر سجدے میں رکھ دیا اور گریہ زاری شروع کر دی رب کائنات سے دعا مانگنی شروع کر دی اے میرے محبوب رب میں تیرے شایان شان عبادت نہیں کی کہ مجھے پتہ چلتا لیکن جو بھی تھوڑی بہت کی تو اِس کو قبول فرمالے پھر نماز فجر کے بعد ان بزرگوں نے مجھے الوداع کہہ دیا بابا فرید یہ فرماتے ہیں کہ میںدریا کے کنارے کھڑا ہوں اور وہ بزرگ میری نظروں کے سامنے سے غائب ہو گئے مجھے نہیں پتہ چلا وہ کدھر گئے میںاس درویش باکمال کو دیکھ رہا تھا جس کی کل کائنات ایک مٹی کا مٹکا تھا جب رات ہو ئی تو وہ پانی بھی گرا دیتے اِِس نے باوجود دن رات اپنا محاسبہ کر تے رہتے یہ تھی فقیری جس کے سائے میں بابا فرید پروان چڑھے۔