امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس چھوڑنے سے پہلے اپنے آخری خطاب میں کہا ہے کہ ان چار برسوں میں ’’ہم نے وہ سب کیا جو کرنے آئے تھے۔‘‘
یوٹیوب پر پوسٹ کیے گئے پہلے سے ریکارڈ شدہ اس ویڈیو بیان میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ انہوں نے اپنے دور میں کٹھن لڑائیوں اور مشکل حالات کا مقابلہ کیا کیونکہ، بقول ان کے، امریکیوں نے اُنہیں اِسی لیے منتخب کیا تھا۔
صدر ٹرمپ کی اس وقت عوام میں مقبولیت محض 34 فیصد ہے جو کہ ماضی میں سبکدوش ہونے والے امریکی صدرو کے مقابلے میں نہایت کم ہے۔
انہوں نے نومبر کے صدارتی انتخابات کے بعد سے باضاطہ طور پر اپنی شکست تسلیم نہیں کی اور الیکشن میں دھاندلی کے الزامات لگاتے رہے۔
وہ امریکا کی سیاسی روایت کے برخلاف بیس جنوری کو نئے صدر جو بائیڈن کی تقریب حلف برداری میں بھی شرکت نہیں کریں گے۔
صدر ٹرمپ بدھ کو اپنے اعزاز میں ایک آخری فوجی تقریب میں شرکت کریں گے۔ خیال ہے کہ ان کی حکومت کے کئی نمایاں لوگ اس میں شرکت نہ کر سکیں یا جان بوجھ کر اس تقریب سے دور رہیں گے۔
اس دوران صدر ٹرمپ نے اپنے اقتدار کے آخری چند گھنٹوں میں کئی صدارتی حکم نامے اور معافی نامے جاری کیے ہیں۔
جن افراد کے لیے انہوں نے اپنا صدارتی استحقاق استعمال کرتے ہوئے معافی نامے جاری کیے ان میں ان کے کئی قریبی لوگ شامل ہیں۔ ان افراد کو کرپشن اور غلط بیانی کے مقدمات کا سامنا ہے۔ ان میں سب سے نمایاں نام ان کے سابق مشیر اسٹیو بینن کا ہے جن پر مالی فراڈ کا الزام ہے۔
صدر ٹرمپ امریکی تاریخ کے وہ واحد صدر ہیں جن کا کانگریس نے دو مرتبہ مواخذہ کیا۔
چھ جنوری کو ان کے حامیوں کی طرف سے واشنگٹن میں امریکی کانگریس کی عمارت پر ہنگامہ آرائی کے بعد صدر ٹرمپ پر اپنی پارٹی کی طرف سے تنقید میں نمایاں اضافہ ہوا۔
اپنے بیس منٹ کے الوداعی خطاب میں صدر ٹرمپ نے اپنی حکومت کی کامیابیوں کا ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ اس دور میں انہوں نے دنیا میں نئی جنگیں شروع نہیں کیں، انہوں نے چین کے خلاف سخت موقف اپنایا اور امریکی معیشت کو مضبوط کیا۔
تجزیہ نگاروں کے مطابق یہ بات درست ہے کہ امریکا میں کورونا وائرس سے پہلے معیشت اچھی جا رہی تھی۔ لیکن وبا کے بعد امریکی معیشت کو دھچکا لگا۔ اسٹاک مارکیٹ میں کچھ بہتری کے باوجود، ملک میں روزگار اور کاروبار کافی متاثر ہوا ہے۔
اپنے خطاب میں صدر ٹرمپ نے نومنتخب صدر جو بائیڈن کا نام نہیں لیا۔ تاہم انہوں نے کہا کہ، ”اب جب کہ میں بدھ کو بارہ بجے اقتدار ایک نئی انتظامیہ کے حوالے کرنے جا رہا ہوں، میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ ہم نے جس تحریک کا آغاز کیا وہ اب شروع ہورہی ہے۔‘‘
امریکی میڈیا کے مطابق اتنی مخالفت اور تنازعات کے باوجود صدر ٹرمپ اب بھی ہار ماننے کے لیے تیار نہیں اور سیاست میں متحرک رہنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
بعض اطلاعات کے مطابق قوی امکان ہے کہ وہ اپنی ایک الگ پارٹی بنانے کا اعلان کریں۔
حالیہ ہفتوں میں ریپبلکن پارٹی کے اندر صدر ٹرمپ کی مخالفت کھل کر سامنے آئی ہے اور جماعت کے سرکردہ رہنماؤں نے صدر کو کیپیٹل ہِل پر ہنگامہ آرائی کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ صدر ٹرمپ کے قریبی حلقوں کا کہنا ہے کہ اس مرحلے پر ریپبلکن اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے تنہا کر دیے جانے پر انہیں خاصا غم و غصہ ہے۔
امریکی ایوان نمائندگان کی طرف سے صدر ٹرمپ کے مواخذے کے بعد آنے والے چند ماہ میں ان پر امریکی سینٹ میں مقدمہ چلایا جائے گا۔ اگر صدر ٹرمپ پر لوگوں کو ”بغاوت پر اکسانے‘‘ کے مرتکب پائے گئے تو انہیں سزا کے طور پر آئندہ الیکشن لڑنے سے نا اہل قرار دیا جا سکتا ہے۔