تحریر : حسیب اعجاز عاشر صدقے واری ہو تجھ پہ باد صبا۔ ہو مبارک تجھے یہ سالگرہ فرحت پروین دنیائے اردو ادب کے افق پرایسا چمکتا دمکتا ستارہ ہیں جن کی شخصیت میں خودنمائی سے دوری، دھیمہ پن، سادگی، خلوص، سچائی مگر بے تکلفی جیسی خصوصیات انہیں ممتاز کرتیں ہیں۔ زمانہ طالب علمی ہی سے ادبی سرگرمیوں میں بہت متحرک تھیں۔ انہیں ہر انداز میں ہر پہلو سے زندگی کے ہر شعبے میں نت نئے تجربے سے گزرنے کا فن و کمال خوب آتاہے یہی وجہ ہے ہر موڑ پر کامیابیاں انکا پرتپاک استقبال کرتیں ہیں۔ افسانہ نگاری میں جو مقام رکھتی ہیں وہ کم کم افسانہ نگاروں کو حاصل ہے۔ انکے پانچ افسانوں کے مجموعے شائع ہوکر خوب مقبولیت حاصل کر چکے ہیں، جس میں” کانچ کی چٹان”، ”ریستوران کی کھڑکی”، ”بزم شیشہ گراں”، ”صندل کا جنگل” اور ”منجمد” شامل ہیں۔ انگریزی ناول کے اُردو ترجمے بھی کر چکی ہیں۔ عالمی ادب کے معیار کے مطابق انکی اِس فن پر بھرپور گرفت ہے ،انکا قلم خوابیدہ ذہن کو بیدار کرنے کی طاقت رکھتا ہے ۔ کہیں ان کے افسانوں میں عورتوں کی بے نوائی اور بے بسی چھلکتی ہے اور کہیں رومانی جذبوں اور ان جذبوں میں شدت کا رحجان ملتا ہے اور کہیں انکے اندازِ بیان میں تیزی، تندی، شوخی اور طنز بھی نمایاں ہوتا ہے۔انہوں نے حقیقت پسندانہ رویے میں معاشی،سیاسی اور سماجی معاملات کو بہت خوب انداز میں زیر موضوع بنایا ہے۔ فرحت پروین نے فطری تقاضوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ہمیشہ کردار کے مطابق ہی مکالموں کا استعمال کیا جو قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔
فرحت پروین کا ایک مجموعہِ نظم ”گفتم” بھی شائع ہو چکا ہے جس نے ادبی میدان میں زبردست ارتعاش پیدا کیاہے جبکہ غزل سے بھی خوب انصاف کیا ہے ۔انکی شاعری کے ذکر پر ملٹن کا لکھا یہ یا د آگیا کہ” شعر کی خوبی یہ ہے کہ وہ سادہ،پُرجوش اور اصلیت پر مبنی ہو، اچھا شعر حسنِ خیال ،حسنِ الفاظ اور حسنِ ادا کا مجموعہ ہے”اور اگر میں کہوں کہ فرحت پروین کی شاعری اسی کے عین مطابق ہے تو غلط نہ ہو گا،انکی شاعری میں مقصدیت، انفرادیت، گہرائی، معنویت، جزئیات، وسعت، جدیدیت، سلاست، حلاوت، جگمگاہٹ،، جذباتیت، کڑواہٹ اور جھنجھلاہٹ سبھی نے اپنا خوب رنگ جمایا ہے۔نثر ہو یا شاعری ،مختصراً فرحت پروین نے اپنے قلم کی آبرو پر کبھی حرف نہیں آنے دیا۔ گزشتہ دنوں ادبی تنظیم لاہور رائٹرز کلب کے زیرِ اہتمام انہیں ممتاز افسانہ نگار، دانشور، مترجم، شاعرہ اور ادبی و سماجی شخصیت محترمہ فرحت پروین کی سالگرہ کے موقع پر ایک خوبصورت محفل”محترمہ فرحت پروین کے ساتھ ایک مہکتی شام” کا انعقاد کیا گیا۔فرحت پروین کے اعزاز میں سجائی گئی اس خوبصورت ادبی شام کی صدارت معروف شاعر و ادیب امجد اسلام امجد نے کی ،سٹیج پر انکے ہمراہ خالد شریف ،قمر رضا شہزاد، اقبال قمر(سعودیہ)اور مسز امجد اسلام امجد بھی جلو ہ افروز تھے۔جبکہ ثمینہ سید، جواد شیخ(ناروے)، وسیم عباس، لقمان اسد، رخسانہ نور، صوفیہ بیدار، غافر شہزاد، شاہدہ شاہ، حمیدہ شاہین، عرفان صادق،سعدیہ بشیر،نیلم احمد بشیر،عتیق الرحمن صفی اور سلمی اعوان نے شرکت کر کے محفل کے ادبی رنگ کو مزید پرکشش بنا دیا۔
نظامت کے فرائض لاہور رائٹرز کلب کی روح رواں، ادیبہ و شاعرہ ناز بٹ نے باحُسن خوبی سر انجام دیئے۔ ابتدائیہ کلمات میںناز بٹ نے سب سے پہلے لاہور رائیٹرز کلب کے حوالے سے بتایا کہ اس تنظیم کا مقصد ادبی تخلیق کاروں،ادباء ،شعراء کی بے لوث خدمات کا اعتراف،زبان و ادب کے حوالے سے پاکستان اور بیرون ملک مقیم تخلیق کاروں کی پذیرائی، ادب کا فروغ اور معیاری ادبی تقریبات کا اہتمام ہے،یاد رہے کہ کہ اس ادبی تنظیم کانام خالد شریف نے تجویز کیا تھا۔ ناز بٹ نے فرحت پروین کی فن و شخصیت کے مختلف پہلوئوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ بہت اُجلی،پھولوں جیسی، خوشبو نجات شخصیت کہ جس نے اردو ادب میں اپنے کمالات سے ،اپنے وجدانی اقتباسات سے اپنی قلبی و بصری اشارات سے وہ معنی وہ الفاظ،وہ رنگ، وہ فن دیا، جذبات کو ایسا تموج دیا کہ اسکی آبشاریں ہر طرف محسوس کی جا سکتی ہیں ۔فرحت پروین اپنے افسانوں میں جاندار کرداروں سے زندگی کے حقائق کو زمین سے نکال کر منطرِ شہود پر لائیں ہیں۔فرحت پروین خوبصورت شاعرہ کی حیثیت سے بھی جلوہ افروز ہوئی ہیں۔جبکہ فلاحی کاموں میں انکی گراں قدر خدمات کی فہرست بہت طویل ہے۔مجھے فرحت کے لفظ و معنی سے بہت پیار ہے خدا تعالی انہیں صحت،زندگی اور انکے فن کو تازگی ،قلم میں اور زیادہ وسعت عطا فرمائے تا کہ وہ اسی طرح اپنے قارئین کو مسحور کرتی رہیں اور انکا سحر سر چڑھ کر بولے۔
Farhat Parveen
شاہدہ شاہ نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ فرحت پروین سے احساسات و پیار کا رشتہ ہے ،یہ ایسی فرحت بخش شخصیت ہیں کہ انکے واسطے سے بہت سے لوگ دوست بن جاتے ہیں انکی موجودگی سے محفل گل و گلزار بن جاتی ہے رخسانہ نور نے اپنے خیالات کے اظہار میں کہا کہ فرحت دھیمی اور اپنے آپ میں رہنے والی خوشبو بکھیرتی شخصیت ہیں ،انکی آنکھوں سے محبت کرنے والیں کرنیں حاصل ہوتیں ہیں،اللہ کرے کہ یہ ہمیشہ مسکراتی رہیں۔حمیدہ شاہین کا کہنا تھا کہ فرحت جتنا اچھا افسانہ لکھتی ہیں اتنے اچھے اشعار بھی کہتی ہیں ،یہ محبت سے بنی ہوئی شخصیت ہیں ،انسے مل کر ہمیشہ اپنائیت کا احساس ہوتا ہے۔اللہ تعالی ان جیسی قوتِ عمل ہمیں بھی عطا کرے۔نیلم احمد بشیر نے فرحت پروین کی فن و شخصیت پراپنی آراء کا اظہار کرتے ہوئے انہیں ہر پہلو سے ہمہ جہت شخصیت قرار دیا ۔غافر شہزاد نے کہا کہ فرحت کی لوگوں پر اور انکے رویوں پر بہت گہری نظر ہے۔انکے افسانوں کے علاوہ انکی شاعری میں بھی زندگی موجود ہے،انہوں نے دونوں سے مکمل انصاف کیا ہے ، ہمارے لئے مشعلِ راہ ہیں۔عتیق الرحمن اور جواد شیخ نے بھی فرحت پروین کو انکی قلمی خدمات کے اعتراف میں تحسینی کلمات سے نوازتے ہوئے کہا کہ انکے قلم کی سحرآفرینی اور کلام کی روانی قاری کو اپنا گرویدہ کر لیتی ہیں۔وسیم عباس کے خیال میں فرحت پروین کی فطری طور پر زبان و بیان اور اسلوب پر بڑی گرفت نظر آتی ہے،اِنکی خوش رنگی و خوش بیانی سبھی کواپنی جانب کھینچتی ہیں۔انہوں نے سالگرہ کے حوالے اپنے چند اشعار سماعتوں کی نذر کئے تو حاضرین نے دل کھول کے داد و تحسین پیش کی۔آپ بھی اِن کے اشعار سے لطف اندوز ہوئیے۔ اے مری دوست میرے دل کی دعا۔۔۔۔۔ہو مبارک تجھے یہ سالگرہ چھو نہ پائے تمہیں یہ گرم ہوا۔۔۔۔۔ہو مبارک تجھے یہ سالگرہ نقش تیرا ہو منزلوں کا پتہ۔۔۔۔۔ہو مبارک تجھے یہ سالگرہ صدقے واری ہو تجھ پہ بادِ صبا۔۔۔۔۔ہو مبارک تجھے یہ سالگرہ
صوفیہ بیدار نے اپنی آراء کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ فرحت پروین افسانہ نگاری اور شاعری میں جو ہنر دیکھائے ہیں بلاشبہ ایک مثال قائم کی ہے ،ہم انکی لمبی زندگی کے لئے تہہ دل سے دعاگوہ ہیں۔اقبال قمر نے بھی فرحت پروین کو انکے ادبی و سماجی خدمات پر خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ زمانے کی بے مروتیوں کے دوران جو بھی دل کے محسوسات بنے اس کی جھلک انکے افسانے میں خوب دیکھی جا سکتی ہے۔اِس موقع پر انہوں اپنی تازہ غزل کے چند اشعار بھی پیش کئے اور خوب داد بٹوری۔قمر رضا شہزاد کا کہنا تھا کہ احمد ندیم قاسمی کے بعد فرحت پروین نے معیاری کہانیوں کا سلسلہ برقرار رکھا ہے انہوں نے جس طرح افسانوں میں اپنے قلمی جوہر دیکھائے ہیں ایسے ہی شاعری میں بھی اپنی شہرت کے جھنڈے گاڑھنے میں کامیاب ہوئی ہیں،انہوں نے اپنی دلفریب شاعری سے بھی سماعتوں کو خوب تسکین بخشی ۔۔یہ دلفریب اشعار پیشِ خدمت ہیں۔۔۔ اب ہمیں کون بھول سکتا ہے ہم تیرے تذکرے میں آ گئے ہیں تیری چوپال بڑھتی جاتی ہے جب سے ہم واقعے میں آ گئے ہیں خالد شریف نے بھی فرحت پروین کی ادبی و سماجی خدمات کو خوب سرہا تے ہوئے کہا کہ یہ منفرد اور بہت ہی دلنواز اسلوب کی موجد ہیں ۔زندگی کے ہر پہلو کو انہوں نے بڑی دلیری کے ساتھ اپنے افسانوں میں سپردِ قرطاس کیا ہے۔فرحت پروین نے خوبصورت تقریب کے انعقاد پر لاہور رائٹرز کلب سے اظہار تشکر کیا اور تعریفی کلمات سے نوازنے پر مقررین کا بھی شکریہ ادا کیا،انہوں نے چند اشعار سماعتوں کی نذر بھی کئے جسے بے حد پسند کیا گیا ،وہ کچھ اسطرح ہیں۔۔۔۔ قرض ہے ذیست کے بہت بوجھ کو کچھ تو کم کریں ہوتے ہیں منفعل بہت غور کبھی جو ہم کریں
اپنے صدارتی کلمات میںامجد اسلام امجدنے لاہور رائٹرز کلب کے حوالے سے اپنی گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ ادب اور قاری میں فاصلہ تو تھا ہی مگر لکھنے والوں کے مابین بھی رابطے کا فقدان بہت بڑھ چکا ہے۔ جو رابطے ہیں ان میں ادب کم اور شخصی رحجانات بہت زیادہ بڑھ چکے ہیں۔ایسے میں یہ فورم اِس حوالے سے قابلِ تعریف ہے جو روایتی گرد سے بالکل پاک ہے۔ ادبی دوستوں کا آپس میں مل بیٹھ کر، وقت گزارنے کے اس سلسلہ نے پاک ٹی ہائوس کے ادبی ماحول کی یاد تازہ کر دی ہے،دعا گوہ ہیں کہ یہ سلسلہ جاری و ساری رہے۔ انہوں نے فرحت پروین کی ادبی و سماجی خدمات کے حوالے سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ فرحت ہمیشہ خودپسندی اور تعریفوں کے جال سے دور رہنے کی کوشش کرتی ہے جبکہ تعریف انکا حق ہے، تعریف سے تقویت ملتی ہے اور انساں کبھی اکیلا محسوس نہیں کرتا۔ یہ نوے کی دہائی سے لکھ رہی ہیں،انکا مزاج ایک خاص ذوق، نہج اور نظریہ کا پرورزش یافتہ ہے ۔انکے فکر و فن اور زبان و بیان کی خوبیوں کی اصل وجہ تجربات کو باریک بینی سے مشاہدہ ہے۔ مقررین نے فرحت پروین کو انکی سالگرہ پر مبارکباد پیش کی اور ادبی تنظیم لاہور رائٹرز کلب کے زیرِ اہتمام پہلی اور کامیاب تقریب کے انعقاد پر نازبٹ کو بھی مبارکباد پیش کی اور نیک تمنائوں کا اظہار بھی کیا مہمانان نے فرحت پروین کو پھولوں کے گلدستے بھی پیش کئے۔انکی سالگرہ کے کیک کٹائی کی رسم بھی عمل بھی لائی گئی اور تقریب کے اختتام پر شرکاء روایتی ذائقے دار کھانے سے بھی خوب لطف اندوز ہوئے۔