تحریر : منظور احمد فریدی اللہ جل شانہ رب کائنات خالق و مالک کی بے پناہ حمد و ثناء اور رحمت عالم نور مجسم سرکار دوجہاں شافعی روز جزا جناب محمد مصطفیۖ کی ذات بے کس پناہ میں کروڑوں درودوں کے نذرانے پیش کرتا ہوں کہ جس کی رحمت بیکراں نے مجھ سے عاجز بندے کو ہمہ وقت اپنے حصار میں چھپا رکھا ہے وطن عزیز ملک پاکستان جو اسلام کا قلعہ اور عالم اسلام کی قابل فخر ایٹمی طاقت ہے مگر افسوس کہ اسے روز اول سے ہی کوئی ایسی قیادت نصیب نہ ہوئی جو اسکے باشندوں کو اسلام کے حکم کے مطابق وہ سہولیات دیتا جو ان کا بنیادی حق ہے اورپھر کسی کو اپنا حق مانگنے کے لیے خوار نہ ہونا پڑتا مگر بد قسمتی سے اس ریاست پر گنتی کے چند خاندان ایسے قابض ہوئے کہ اسے اپنی وراثتی جاگیر بنا لیا یہ خاندان کبھی کس روپ میں آئے کبھی کسی سیاسی پارٹی کا لیبل لگا لیا کبھی کسی کا مگر آپس میں ان کی گہری رشتہ داریاں انکو اقتدار سے منسلک رکھتی ہیں۔
حکومت خواہ کسی پارٹی کی بھی ہو انکے جائز ناجائز سب کام ہوتے رہتے ہیں عوامی سطح پر آپس کی سیاسی مخالفت ظاہر کرکے اس بھولی عوام کو آپس میں گتھم گتھا کرتے ہیں اور اپنا مفاد نکال لیتے ہیں قوم آج بھی بھٹو کو زندہ رکھے ہوئے ہے چاہے اپنے بچے فاقوں سے مر رہے ہوں اس قوم کا یہ المیہ ہے کہ جس نے ہمدردی کے دو بول بولے اس کے پیچھے بھاگ پڑی ملالہ کے ہی واقعہ کو دیکھ لیں کہ وہ گُل مکئی ایک برطانوی ایجنٹ تھی اور یورپ جانے کیلئے جو ڈرامہ رچایا گیا اس پر پوری قوم کو بے وقوف بنا کر اس ایجنٹ کو مسلمانوں کی ہزاروں ایسی ننھی پریوں پر ترجیح دی گئی جنہیں مناسب علاج معالجہ نہ ملنے سے موت نے نگل لیا پھر اداروں کی نااہلی کو بچوں کی قربانی کا نام دے کر پشاور سکول کے واقعہ کو گانے کی شکل دے کر پوری قوم کو اسی پر لگادیا کہ ،،،مجھے دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے ،،،اپنے بچے چاہے ورکشاپوں پر ننھے ہاتھوں سے بھاری انجن اٹھا رہے ہوں یا بے رحم ہوٹل والے کے برتن صاف کر رہے ہوں۔
Farmers
وطن عزیز کی نوے فیصد آبادی کا روز گا ر خوراک کاانحصار دیہاتوں میں پلنے والے کھیتوں پر ہے یہ بات تو بین الاقوامی سطح پر بھی تسلیم شدہ ہے کہ پاکستان کی ستر فیصد70%معیشت زراعت پر منحصر ہے مگر ہمارے موجودہ حکمرانوں نے کسان کو اپنی ملز میں مزدور رکھنے کی ٹھان رکھی ہے چھوٹا زمیندار جو بغیر حکومتی تعاون کے کھاد سپرے کے ڈیلرز اور علاقہ کے بڑے زمیندار کے تعاون سے اپنی چار پانچ ایکڑ زمین کاشت کرتا ہے اور اسے فصل آنے پر اپنے اخراجات کی واپسی کے ساتھ منافع کی بھی امید ہوتی ہے وہ زمیندارجب اپنی فصل منڈیوں میں لے جاتا ہے تو اسے اس کے خرچہ کے برابر بھی رقم نہیں ملتی جس سے مجبور ہو کر وہ اپنی زمین صنعت کاروں کو بیچنے پر مجبور ہو گیا ہے۔
صد افسو س کہ آج ہمارا وہ کسان جو پورے ملک کو خوراک مہیا کرتا ہے اپنے جائز حق کے لیے احتجاج پر مجبور ہے اور اسے ذلیل کرنے میں حکومتی نمائندوں نے کوئی کسر باقی نہ رکھی ہے آج اسمبلیوں میں بیٹھا صنعتکار ہمارے کسانوں کا استحصال اس طرح کررہا ہے کہ عوامی سطح پر اس کا شعور ہی نہیں آنے دیتا مثال کے طور پر اب چاول کی فصل تیار ہوکر مارکیٹ میں آچکی ہے۔
سپر باسمتی دھان کا جو نرخ منڈیوں سے کسان کو مل رہا ہے وہ ایک ہزار روپے فی من چالیس کلو گرام تک ہے اور آپ مارکیٹ سے اسی دھان کا چاول خریدنے جائیں جو ان اسمبلی ممبران کی ملز سے چکر کاٹ کر بازار میں آیا ہے تو عقل ٹھکانے آجائیگی وہی دھان جو منڈی سے ایک ہزار روپے فی چالیس کلو گرام خریدا جارہا ہے آپکو ایک سو پچاس روپے فی کلو گرام تک ملے گا ایک ہی ریاست میں اپنوں کے ساتھ یہ دوہرا معیار کیوں ؟اسی طرح مکئی کی فصل کا جو ریٹ منڈی سے کسان کو مل رہا ہے وہ آٹھ نو سو روپے فی چالیس کلو گرام ہے اور یہی مکئی جب ان کی ملز سے چکر کاٹ کر فیڈبن کر مارکیٹ میں آئے تو ریٹ کا پوچھ لیں۔
Pervaiz Rashid
اسی طرح سبزیوں میں سے آلو کو غریب کی سبزی کہا جاتا تھا اور آلو کاشت کرنے والے کسان آج دھرنوں میں بیٹھے حکومت کا ماتم کررہے ہیں ایک اور سب سے اہم بات کہ ہر وزیر مشیر کو اپنی جماعت کی نمائندگی کا حق حاصل ہے مگر جب ہر محکمہ کا وزیر موجود ہو بلکہ صرف وزیر ہی نہیں ساتھ کئی مشیر اور سیکرٹری بھی اس ملکی خزانہ سے تنخواہوں اور دیگر مراعات کی مد میں کروڑوں روپے ماہانہ کھا رہے ہوں تو پھر کسانوں کے احتجاج میں وزیر اطلاعات یا وزیر ریلوے کا بیان جاری فرمانا سمجھ سے بالا تر ہے ہمارے وزیر اطلاعات نے جو فرمایا کہ پیپلز پارٹی نے سندھ میں کون سا دودھ اور شہد کی نہریں بہا دیں ہیں یہ فرمان سمجھ سے بالاتر ہے بلکہ سوال گندم جواب چنا کے مترادف ہے اس احتجاج کی نوبت ہی کیوں آئی؟ اور اگر کسان اتحاد احتجاج پر آہی گیا تھا تو زراعت کے وزیر اپنی تنخواہوں میں سے کتنا حصہ جناب کو دیتے ہیں۔
دوسرا اور آخری جملہ یہ کہ جناب پرویز رشید صاحب کیا پیپلز پارٹی اور آپکی پارٹی اندر خانے میں ایک نہیں کیا زرداری صاحب نے آپکی حکومت کو کندھا نہیں دے رکھا اپنے معائدہ کے مطابق ،آپکی ڈیوٹی اگر لگ ہی گئی بیان دینے کی تو کوئی ایسا جملہ بولتے جو کسانوں کو سوچنے پر مجبور کرتا کہ وہ غلط کررہے ہیں ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کی روائت کب ختم ہوگی اور کسان کا استحصال تو ہو ہی رہا تھا آپکے اس بیان سے کیا پیپلز پارٹی انکے زخموں پر مرہم رکھ دیگی ہر گز نہیں کیونکہ باری آپکی ہے وہ اپنی باری لے چکے اور اپوزیشن میں رہ کر جو آپ نے احسانات کیے اب انکا بدلہ بھی مل رہا ہے کیا ہوا ایک آدھا بیان عوام کو بیوقوف بنانے کے لیے اگر آپ کے خلاف بھی تھا تو آپ اتنے ہی سیئریس ہوگئے یہ سب باتیں ایک دیوانے کی باتیں ہیں کوئی برا نہ مانے سدا بادشاہی سوہنے رب دی والسلام۔