تحریر : سمیعہ رشید
کسان اور اس کی بیوی بازار سے ڈبے میں کچھ لے کر آئے۔ معلوم کرنے کیلئے کہ وہ کھانے کیلئے کیا لائے ہیں ایک چوہے نے دیوار میں سوراخ سے دیکھا۔ کھانے کی چیز کی بجائے چوہے دان دیکھ کر اْس کی جان ہی نکل گئی وہ بھاگا بھاگا گیا اور مرغی سے کہا ”کسان چوہے دان لایا ہے”۔مرغی نے چوہے کی بات مسترد کرتے ہوئے کہا ”یہ تمہارا مسئلہ ہے۔ مجھے کوئی پریشانی نہیں”۔ چوہا دوڑتا ہوا بکری کے پاس پہنچا اور کہا ”کسان چوہے دان لایا ہے”۔بکری نے چوہے سے کہا ”مجھے تمہارے ساتھ ہمدردی ہے مگر میں اس کیلئے پریشان نہیں ہوں”۔ پریشان حال چوہے نے گائے کے پاس جا کر دوہرایا ”کسان چوہے دان لایا ہے”۔ گائے نے کہا ”میں تمہارے لئے دعا کروں گی مگر میری تو چوہے دان میں ناک بھی نہیں گھستی”۔ چوہا بد دل ہو کر سر لٹکائے اپنے بِل میں جا کر گر پڑا اور سوچتا رہا کہ جب بھی وہ کسان کے گھر کچھ کھانے جائے گا چوہے دان میں پھنس جائے گا۔
اگلی رات کسان کے گھر کڑاک کی آواز آئی۔ کسان کی بیوی اندھیرے ہی میں دیکھنے گئی کہ چوہا پکڑا گیا ہے۔ اسے کسی چیز نے کاٹ لیا۔ دراصل چوہے دان میں ایک گذرتے ہوئے سانپ کی دم پھنس گئی تھی۔ بیوی کی چیخ و پکار سن کر کسان دوڑا آیا۔ صورتِ حال دیکھ کر وہ بیوی کو ہسپتال لے گیا جہاں اسے ٹیکا لگایا گیا اور کہا کہ اسے مرغی کی یخنی پلائی جائے۔ کسان نے اپنی مرغی ذبح کر کے بیوی کیلئے یخنی بنا دی۔ بیوی یخنی پیتی رہی مگر اسے کئی دن بخار رہا۔ اس کی علالت کا سن کر قریبی رشتہ دار مزاج پرسی کیلئے آئے۔ ان کے کھانے کیلئے کسان نے بکری ذبح کر ڈالی۔ کچھ دن بعد کسان کی بیوی فوت ہو گئی تو بہت سے لوگ تدفین اور افسوس کرنے کیلئے آئے۔ انہیں کھانا کھلانے کیلئے کسان نے گائے کو ذبح کیا۔ چوہا دیوار میں سوراخ سے یہ سب کچھ نہائت افسوس کے ساتھ دیکھتا رہا۔
زندگی نام ہی آزمائشوں کا ہے۔ ہر ایک کی زندگی میں نشیب وفراز آتے ہیں۔ دکھ سکھ ایک ساتھ چلتے ہیں۔ انسانیت کا مطلب ہی یہ ہے کہ دوسروں کے کام آنا ـایک اچھا انسان وہ ہے جو خوشی کے ساتھ ساتھ غم اور پریشانیوں میں بھی اپنے بھائی کے کام آئے کیونکہ مشکل وقت کسی کو بتا کر نہیں آتا کہ تم تیار ہو جاو میں آنے لگا ہوں۔ بنائ بتائے کبھی بھی کسی بھی وقت کسی پر بھی آسکتا ہے۔ ایسی مشکلات اور پریشانیوں سے بچنے کیلئے انسان کو دعاوں کا سہارا بلاشبہ لینا چاہیے اور ساتھ احتیاطی تدابیر بھی اختیار کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس معاملے میں احتیاطی تدابیر کیا ہو سکتی ہیں ؟؟؟یہ ایک اھم سوال ہے اس کا سادا الفاظ میں جواب یہ ہے کہ ہمیں دوسروں کی ہر ممکن مدد رنی چاہیے جس طریقے سے ہم دوسروں کی مدد کر کے ان کے لئے آسانیاں پیدا کر اکتے ہیں وہ کرنی چاہیے یہی وہ عمل ہے جس کو کرنے کے بعد ہم شکر گزاری کی جانب گامزن ہوتے ہیں۔
اللہ کا ہر حال میں شکر ادا کرنا شروع کر دیتے ہیں کہ اس نے ہمیں کتنے اچھے حال میں رکھا ہوا ہے جب نسان کے اندر شکر ادا کرنے کی عادت آجاتی ہے تو وہ ہر طرح کی پریشانیوں سے نجات حاصل کر لیتا ہے اور ہر حال میں شکر گزار رہتا ہے۔ اس کہانی کی روشنی میں اگر ہم اپنے معاشرے کو سامنے رکھتے ہوئے بات کریں تو ہمارے ہاں اگر کسی کو کوئی مشکل پیش آتی ہے یا کسی کی مدد کی ضرورت پڑتی ہے تو لوگ تو چلو لوگ ہوتے ہیں اپنے سگے رشتے تک کام نہیں آتے اگر یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہو گا کہ آج کے زمانے میں خونی رشتوں پر بھی یہ یقین نہیں کیا جاسکتا کہ وہ ہمارے کام آئیں گے کہ نہیں اب کے خون سفید ہو چکے ہیں۔ ہم اس قدر بے حس ہو چکے ہیں کہ ہم اپنے بس میں ہونے کے باوجود کسی کی دد نہیں کرتے اگر ہم سڑک کے کنارے کسی معزور نبینا کو دیکھتے ہیں جس کو سڑک پار کرنے میں دکت کا سامنا ہوتا ہے ہم تماشائیوں کی طرح تو ضرور دیکھتے رہتے ہیں کہ وہ کیسے پار کرکے گا مگر ہم میں سے کتنے فیصد لوگ ایسے ہیں جو آگے بڑھ کر اس انسان کی مدد کریں گے ؟
اگر ہمارے ہاں لوگوں کی مدد امداد کی بھی جاتی ہے تو اس کا بھی ایک انوکھا طریقہ ہے لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو جمع کر کہ ور اگر بہت ہی پہنچ ہے تو میڈیا کو بلا کر سب کے سامنے مدد کی جاتی ہے تاکہ سارا زمانہ واہ واہ کرئے اور ہماری اچھائی کا بیان کرئے ، آج ان لوگوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے جو دوسروں کی مدد ایسے کرتے ہیں کہ ایک ہاتھ ے دو اور دوسرے ہاتھ تک کو پتا نہ چلے ـیہ دنیا مکافات عمل ہے جو یہاں بویا جائے گا وہی کاٹ کر یہاں سے جانا ہوگا۔ اگر ہم اللہ کی رضا کے لئے دوسروں کی مدد کرتے ہیں کہ اللہ کا ہی دیا ہوا مال اور صلاحیتوں کا استعمال میں لاکر دوسروں کے لئے خرچ کرتے ہیں تو اس کا صلہ اللہ جس طرح دیے گا اس کا اندازہ لگانا ہمارے بس کی بات ہی نہیں ہے۔ اس کے برعکس اگر بے حسی کا مظاہرہ کیا جائے ،یہ کہہ کرمدد کرنے سے انکار کیا جائے کہ مدد کا طالب جاننے والا یا رشتہ دار نہیں ہے تو پھر اس کا نتیجہ ایک وقت آنے پر ایسا نکلتا ہے کہ جب ہمیں ضرورت پڑتی ہے تو ہمیں بھی اسی کا پھل ملتا ہے جو ہم نے بویا ہوتا ہے۔ ہم بھی بے یارومددگار مدد کا انتظار ہی کرتے رہ جاتے ہیں۔ لازمی نہیں ہے کہ مدد صرف پیسوں کے ذریعے ہی کی جائے ،کسی کو ایک اچھا مشورہ بھی دینا مدد ہی کرنا کہلاتا ہے۔
8 اکتوبر 2005 میں جب پاکستان میں زلزلہ آیا تھا تو گاوں کے گاوں تباہ ہو گئے تھے۔ لوگ سحری کر کے نماز ادا کرنے کے بعد جب یہ سوچ کر سوئے ہوں گے کہ کل مسج افطاری بھیجنی ہے کسی غریب کی مدد کرنی ہے مگر کیا ہوا؟؟؟ان میں سے بہت سے لوگ جاگے ہوئے بھی نہیں تھے کہ ابدی نیند سو گئے۔ ان کے لواحقین جو کل تک ان لوگوں میں شامل تھے جو لوگوں کی مدد کرنے کے لئے ہاتھ اٹھاتے تھے مگر ایک وقت آیا کہ ان کے ہاتھ مدد لینے کے لئے اٹھنے لگے ـاچھا وقت کسی کا دوست نہیں ہوتا ہے۔ وقت بدلتے رہتے ہیں کبھی تحت تو کبھی وقت اس لئے ہمیں اپنے رویوں کو بدل کر صرف اللہ کی رضا کے لئے دوسروں کی مدد کرنی چاہیے تاکہ سدا خوشحال رہیں……کون جانے کل ہم میں سے کس کی باری آجائے ؟؟؟؟(الایمان و الحفیظ )
تحریر: سمیعہ رشید