تحریر : عتیق الرحمن اسلام وہ دین متین ہے کہ جس کی تاریخ لازوال قربانیوں ،جانثاریوں اور محنت و مشقت ،جواں مردی و پامردی ،شجاعت و بہادری سے معمور ولبریز ہے۔ابتدائے اسلام ہی سے نبی کریمۖ پر خود ان کے اپنے خاندان کے رکن ابولہب نے طعن و تشنیع کی اور جملے کسے جس کا جواب رب العالمین کی ذات پاک نے قرآن حکیم میں سورہ اللہب کے نزول کے ساتھ دیا۔جس سے یہ امر متیقن ہوتاہے کہ اللہ جل شانہ نے تا ابد دین حق کی حفاظت کا انتظام خود ہی فرمادیا۔راہ حق میں حضورۖ اور صحابہ کرام پر آزمائشوں اور تکلیفوں کے ہرہتھیار کو استعمال کیا گیا جس کا جواب خندہ پیشانی سے حضورانورۖ نے دیا اور ان زیادتی و سرکشی کرنے والوں کے حق میں بدعاکی بجائے ہدایت کی دعاکی اور فرمایا کہ اے میرے رب یہ نادان ہیں لہذا انہیں ہدایت عطافرما۔یہی وجہ ہے کہ ہجرت مدینہ کے بعد سارا عرب نبی مکرم ۖ کے حلقے میں شامل ہونے کے لئے بے تاب ہوگیا جس کا ذکر و وعدہ اللہ رب العزت نے سورہ النصر میں فرمایا کہ ”جب اللہ کی مدد آئے گی اور فتح ملے گی مسلمانوں کو”اسی مضمون کا بیان سورہ الفتح میں بھی بیان کیا گیا کہ مسلمانوں اور خود آنحضرت ۖ کو فتح مبین کی نوید سنائی گئی۔فتح مکہ کے بعد تمام عرب قبائل اور اس کے ساتھ فارس و روم کے باشندے بھی حلقہ بگوش اسلام ہونے لگے۔نبی کریمۖ کے وصال کے بعداور حضرت ابوبکر کی خلافت میںچھوٹے بڑے فتنے پیدا ہوئے مگر ان کی شجاعت و استقامت اور صبر کے سبب منکرین زکوٰة و مدعیان نبوت کے فتنے بہت جلد صفحہ ہستی سے مٹادیئے گئے۔
سیدنا عمرفاروق نے ابوبکر کی خلافت کے بعد منصب خلافت پر فائز ہوئے اور انہوں نے محنت و مشقت ،جواں مردی و ہمت سے شب و روز مسلم ریاست کے استحکام اور اس کی وسعت میں کوئی لمحہ فروگذاشت نہ کیا جس کے نتیجہ میں روم و فارس مجموعی طور پر اسلام و مسلمانوں کے زیر نگیں آگیا۔فتح قادسیہ، مدائن، جلولائ، فلسطن و مصر اور شام و اسکندریہ پر اسلامی پرچم لہرانے لگا۔سیدنا عمر نے ریاست کے استحکام و ترقی و بہتری کے لئے امیر و غریب میں تفریق ختم کی،کمزور و نحیف اور بچوں و معزوروں کے لئے وظائف مقرر کیے،پولیس و ڈاک کے شعبہ کا آغاز کیا،محاصل و خراج کی تسجیلات و دواوین قائم کیے،حضرت عمر نے رعایا کی خوشحالی اور ان کے مسائل کے فوری حل کے انتظامات فرماتے یہاں تک کہ بنفس نفیس رات کی تاریکی میں حاجت مندوں کی تلاش میں نکلتے۔انہوں نے والی و گورنروں کو ہدایات کی کہ کسی صورت انصاف کی فراہمی میں پس و پیش سے کام نہ لیا جائے بلکہ لازمی ہے کہ اپنے خاندان و رعایا میں کسی طرح کی تمیز و تفریق نہ رکھیں اور اگر کہیں بے اعتدالی محسوس کی تو فورا اسن کی سرزنش کرنے کے ساتھ معزول بھی کردیتے ۔انہیں کا عظیم قول ہے کہ اگر دریائے فرات کے کنارے کوئی کتا بھی بھوک سے مرجاتاہے تو اس کا سوال مجھ عمر سے لیا جائے گا۔
حضرت عمر کی ان خدمات کی بدولت اسلام دشمن کسی طور خوش نہ تھے اور اسی سبب انہیں شہید کرنے کا ناپاک منصوبہ تیار کیا گیا جس کے نتیجہ میں فتنے و فساد کی راہ میں حائل واحد روکاوٹ کو 27ذوالحجہ 23 ہجری حالت نماز حملہ ہوا اور وہ یکم محرم 24ہجری کو دنیا سے پردہ فرماگئے۔ اسلام کی تاریخ میں فتنے و فساد اور سازشیں کرنے والے عناصر نے شہادت عمر کے بعد حضرت عثمان کی حیا داری و امن پسندی اور ٹھنڈے مزاج کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسلامی سلطنت کے طول و عرض میں شورشوں کا آغاز کیا جس کے سبب حضرت عثمان کی شہادت ،حضرت علی ام المئومنین حضرت عائشہ اور پھر حضرت علی و حضرت امیر معاویہ میں جنگ خوارج و فارسیوں کی سازشوں کے نتیجہ میں بپاہوئیں۔جس کے بعد شیعان علی و شیعان معاویہ کے نام سے دوگروہ ظاہر ہوئے۔جس کے بعد سازشیوں نے مسلمانوں کو گروہ درگروہوں میں تقسیم کرنے کی کوشش کی جس کو سیدناحسن بن علی نے اختلافات کو رفع کرتے ہوئے خلافت سے دستبرداری کرتے ہوئے اپنے برادر صغیرحضرت حسین بن علی کے ہمراہ حضرت امیر معاویہ کے ہاتھ پر بیعت کی۔
Islam
کاتب وحی سیدناامیر معاویہ کی وفات کے بعد فتنہ پروروں نے اپنی سازشوں کو دوبارہ جال بنا اور انہوں نے حضرت حسین بن علی کو خطوط تحریر کرنے شروع کیے کہ ان کا کوئی خلیفہ نہیں کوفہ میں لہذا آپ تشریف لائیے اور ہماری قیادت کا بوجھ اپنے ہاتھوں میں لیجئے ۔اس واقعہ کی اطلاع جب حضرت حسین کے رشتہ داروںحضرت عبداللہ بن عباس اور ان کے بھائی محمد بن حنفیہ اور کبار صحابہ حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت عبداللہ بن زبیر کوہوئی کہ کوفی جنہوں نے حضرت علی کو شہید کیا اور حضرت حسن کے ساتھ غداری کی وہ اب اپنے اگلے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لئے نواسہ رسول اور فرزند علی کا استعمال کرنے کے خواہشمند ہیں تو انہوں نے فورا حضرت حسین سے ملاقات کرکے انہیں پیش آمدہ خطرات سے آگاہ فرمایا ۔باوجود اس کے کہ حضرت عبداللہ بن زبیر جنہوں نے بھی یزید کی بیعت سے انکار کردیا تھا ان کی بھی نصیحت پر متوجہ نہ ہوئے اور کوفیوں کے خطوط کے تسلسل کومدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ کیا کہ حضرت مسلم بن عقیل کو کوفہ کی جانب روانہ کیا ۔اول تو کوفیوں نے بھرپور اندز میں والہانہ انداز میں استقبال کیا مگر بعد میں والی کوفہ کی تہدید کے سبب انہیں بے یارومدگار تنہا چھوڑ دیا ۔قبل اس کے کہ والی کوفہ خطرہ سے مطلع کرتے حضرت مسلم بن عقیل نے فرزند علی کو خط تحریر کردیا تھا کہ صورت حال آپ کے حق میں ہے آپ تشریف لائیے ۔نواسہ رسول عازم کوفہ ہوئے تو عربی کے مشہور شاعر فرزدق نے حضرت حسین سے ملاقات کی اور انہوں بتایا کہ اہل کوفہ کے قلوب و اذہان تو آپ کے ساتھ ہیں مگر ان کی تلواریں بنوامیہ کا ساتھ دے رہی ہیں۔
حضرت حسین کوراستے میں اطلاع ملی کہ مسلم بن عقیل کو شہید کردیا گیا ہے اور اہل کوفہ نے غداری کی ہے جس کے بعد انہوں نے سفر کے ارادہ کوترک کرنے کا فیصلہ کیا مگر برادران مسلم نے اصرار کیا کہ ہم بدلہ لیے بغیر واپس نہ جائیں گے۔جس کے بعد حضرت حسین نے ہمراہیوں کو آگاہ فرمایا کہ جو احباب جداہونا چاہتے ہوں وہ واپس لوٹ سکتے ہیں اب یہ سفر اصلاح احوال کے لئے نہیں ہے بلکہ قصاص مسلم کے لئے کیا جارہاہے۔کوفہ میں حضرت حسین نے کربلا کے مقام پر محصور ہونے کے بعد تین شرطیں پیش کیں کہ ان میں سے کسی پر عمل کیا جائے اول مجھے یزید کے پاس دمشق جانے کی اجازت دی جائے تاکہ میں بلمشافہ ملاقات کرکے بیعت کرنے کا فیصلہ کروں۔ثانی ہم جہاں سے آئے ہیں واپس جانے دیا جائے۔ثالث ہمیں اسلامی خلافت کی سرحدوں پر روانہ کیا جائے تاکہ ہم کفار سے جنگ کرتے ہوئے شہید و غازی کا اعزاز حاصل کرلیں۔عبیداللہ بن زیاد نے انکار کیا کہ بیعت خلافت یہیں کی جائے مگر حضرت حسین نے انکار کردیا جس کے بعد میدان جنگ بپاہوا اور بلاآخر دس محرم کو حضرت علی کے قریب عزیز شمر ذی الجوشن کی قیادت میں اموی لشکر لنگر انداز ہوااور حضرت حسین اپنے بھائیوں اور بیٹوں اور عزیزیوں کے ہمراہ مظلومانہ طورپر شہید کردیئے گئے۔
عشرہ فاروق حسین اسلامی سال کا آغاز یکم محرم سے ہوتاہے جس روز خلیفہ عادل اور حق و باطل میں تفریق و تمیز کرنے والے سیدنا عمر فاروق ابولولو فروز مجوسی ایرانی کے زہر آلود خنجر کی تاب نہ لاتے ہوئے شہید ہوگئے۔جبکہ دس محرم الحرام کو جنتی نوجوانوں کے سردار حضرت حسین بن علی کو بھی کوفیوں نے بلاکر اموی لشکر کے ہاتھوں شہیدا کروادیا۔ان دونوں عظیم و اہم واقعات سے یہ درس ملتاہے کہ دین اسلام قربانیوں کی بدولت ہی محفوظ رہاہے ۔ہر دور میں اہل حق نے ظلم و ضور اور باطل کے مقابل سینہ سپر ہوئے۔اب بھی موجودہ عالمی و ملکی حالات میں مسلمانوں پر لازمی ہے کہ یہود و ہنود سے خوفزدہ ہونے کی بجائے ان کے ساتھ اقدامی جنگ کا بلاتاخیرآغاز کریں اور اس کے ساتھ اسلامی حکمرانوں اور مسلمانوں پر ضروری ہے کہ وہ قرآن و سنت کا گہرو وسیع مطالعہ کرتے ہوئے ان کے مطابق عملی زندگی بسر کریں کیوں کہ اللہ جل شانہ کی مدد جبھی میسر ہوگی جب ہم اللہ اور اس کے محبوب پیغمبرۖ کی ہدایت کے سامنے سرتسلیم خم کرنے سے ملتی ہے۔
ATIQ UR REHMAN
تحریر : عتیق الرحمن سربراہ وحدانی نظام تعلیم فورم پاکستان 03135265617 atiqurrehman001@gmail.com