کراچی (جیوڈیسک) عامر خان گروپ کا بڑا اعلان، متحدہ پاکستان 2 دھڑوں میں تقسیم، فاروق ستار کو کنوینر کے عہدے سے ہٹا دیا، بتائے بغیر آئین تبدیل کر کے دھوکہ دیا گیا، الزامات کی فہرست طویل ہے، کنور نوید جمیل کی میڈیا سے گفتگو۔
ایم کیو ایم پاکستان کے کنوینر فاروق ستار بے اختیار ہو گئے۔ رابطہ کمیٹی قانونی محاذ پر خود کو بااختیار ثابت کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ الیکشن کمیشن نے ڈپٹی کنوینر خالد مقبول صدیقی کے دستخط شدہ پارٹی ٹکٹ قبول کرتے ہوئے بیرسٹر فروغ نسیم اور نسرین جلیل کے کاغذات نامزدگی منظور کر لئے۔
کاغذات نامزدگی کی سکرونٹی کے دوران بیرسٹر فروغ نسیم نے صوبائی الیکشن کمشنر کو پارٹی آئین پیش کیا۔ انہوں نے مؤقف اپنایا کہ پارٹی آئین کے مطابق ٹکٹ جاری کرنے کا اختیار رابطہ کمیٹی کے پاس ہے۔
بیرسٹر فروغ نسیم اور نسرین جلیل کے کاغذات نامزدگی کی منظوری کے بعد فاروق ستار بھی الیکشن کمیشن آفس پہنچے۔ انہوں نے صوبائی الیکشن کمشنر کو پارٹی آئین کا آرٹیکل 6 اے اور 7 اے پڑھ کر سنایا۔ ان کا مؤقف تھا کہ وہ بطور کنوینر پارٹی ٹکٹ جاری کر سکتے ہیں۔ انہوں نے ٹکٹ کے ساتھ کنوینر کے توثیقی لیٹر کے ناگزیر ہونے پر بھی اصرار کیا۔ فاروق ستار کا کہنا تھا کہ وہ قانونی چارہ جوئی کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔
صوبائی الیکشن کمشنر نے فاروق ستار کا مؤقف مسترد کرتے ہوئے واضح کیا کہ رابطہ کمیٹی نے ڈپٹی کنوینر کو ٹکٹ جاری کرنے کا اختیار دیا ہے، اس لئے خالد مقبول صدیقی کے دستخط والے ٹکٹ ہی منظور کئے گئے ہیں۔
الیکشن کمیشن کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے فاروق ستار نے کہا کہ ڈپٹی کنوینر کا کام مدد کرنا ہے، ٹکٹ دینے کا اختیار غلط استعمال ہوا تو واپس لے سکتا ہوں، رابطہ کمیٹی کے اجلاس چیلنج بھی ہو سکتے ہیں۔ بہادر آباد گروپ کو کھری کھری سنانے اور قانونی چارہ جوئی کی دھمکی دینے کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر فاروق ستار نے یہ بھی کہا کہ گزشتہ شب طے کئے گئے فارمولے پر عملدرآمد کا عہد نبھاؤں گا۔
ہم سفر کا ہم نوا ہونا مشکل ہو گیا۔ متحدہ پی آئی بی اور بہادر آباد میں قربت کے بعد پھر دوریوں کے سائے لہرانے لگے۔ عامر خان گروپ نے فاروق ستار کے جنرل ورکرز اجلاس کو غیرآئینی قرار دیدیا۔ شرکت نہ کرنے کا فیصلہ بھی کر لیا۔
کنور نوید جمیل نے بہادر آباد میں رابطہ کمیٹی کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے اعلان کیا کہ را بطہ کمیٹی نے متفقہ طور پر فاروق ستار کو کنوینر کے عہدے سے ہٹا دیا ہے۔ کنور نوید جمیل نے کہا کہ صورتحال کی بہتری کے لئے مسلسل کوشش کرتے رہے، ہماری کوشش تھی کہ گھر کی بات گھر میں ہی رہے لیکن مجبوراً میڈیا میں بات کرنا پڑی، گزشتہ دنوں ایم کیو ایم کی الیکشن کمیشن سے رجسٹریشن منسوخ ہوئی تھی جو کہ فاروق ستار کی غلطی کیوجہ سے ہوا، ہم نے فاروق ستار کو پارٹی لیڈر بنایا تھا لیکن پہلے فاروق ستار نے ایم کیو ایم کے آئین میں ہم سے پوچھے بغیر تبدیلی کی، فاروق ستار نے دھوکے سے اپنے آپ کو سربراہ بنایا۔
کنور نوید جمیل نے مزید کہا کہ فاروق ستار پر بہت سارے چارجز ہیں، خالد مقبول اور عامر خان پارٹی کا درد رکھنے والے لوگ ہیں، ہم سب فاروق ستار سے محبت کرتے تھے اور اب بھی کرتے ہیں، فاروق ستار ہمارے کنوینر تھے، اب نہیں رہے، کامران ٹیسوری فاروق بھائی کے دوست ہیں، دوستی ہونا کوئی بری بات نہیں، کامران ٹیسوری کو رابطہ کمیٹی میں شامل کرنے پر پوری پارٹی کو اعتراض تھا لیکن فاروق ستار نے کہا تھا کہ کامران ٹیسوری نہیں تو میں بھی نہیں رہونگا۔
کنور نوید جمیل نے مزید کہا کہ سینیٹ الیکشن کے امیدواروں کے انتخاب کیلئے رابطہ کمیٹی میں ووٹنگ ہوئی، فاروق ستار کا اصرار تھا کہ کامران ٹیسوری کو سینیٹر بنائیں، سب نے فاروق ستار کو سمجھایا لیکن وہ نہ مانے، ووٹنگ میں ٹیسوری چھٹے نمبر پر آئے تھے لیکن اس سب کے باوجود کل کی میٹنگ میں فاروق ستار کی ساری باتیں مان لی تھیں، ساری باتیں ماننے کے باوجود بھی فاروق ستار آج نہیں آئے، ہمارے کسی ورکر نے فاروق ستار کیخلاف توہین آمیز بات نہیں کی لیکن ہم وہاں گئے تو مسلسل غدار، غدار کے نعرے لگتے رہے، عامر بھائی اور وسیم بھائی کے خلاف باتیں کی گئیں، ہم جانتے ہیں کہ نعرے لگانے والے متحدہ کے کارکنان نہیں تھے، باہر سے لائے ہوئے لوگ تھے، دوسری جماعتوں سے بلوائے ہوئے لوگ تھے، فاروق بھائی پی ایس پی والوں کو بلا رہے تھے، متحدہ کے اجلاس میں پی ایس پی والوں کا کیا کام؟
ان کا مزید کہنا تھا کہ فاروق ستار نے کئی غلطیاں کیں، ان کی وجہ سے ایم کیو ایم کی فلاحی تنظیمیں تباہ ہوئی، سات ماہ سے ورکرز کو تنخواہیں نہیں ملیں، فاروق ستار آج بھی پارٹی کے کارکن ہیں، پارٹی کا ڈپٹی کنوینر ہوں، کڑوا گھونٹ بھرنا پڑا، پارٹیوں میں تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں، مختلف اوقات میں ماضی میں بھی رابطہ کمیٹی کے مختلف انچارج رہے ہیں، متحدہ نے بائیس اگست کو فیصلہ کیا تھا کہ اب کسی فرد کو نہیں بلکہ جماعت کو پروموٹ کیا جائے گا۔
اس موقع پر میڈیا سے بات کرتے ہوئے خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ پارٹی آئین کے مطابق، رابطہ کمیٹی کے پاس کنوینر بنانے کا اختیار ہے، کہا جا رہا ہے کہ 2 گروپ ٹکٹوں کے لئے لڑائی کر رہے ہیں، کل فاروق ستار سے کہا تھا کہ پارٹی تقسیم ہو رہی ہے، سارے سینیٹرز آپ بنا لیں، آج تاریخ بتائے گی کہ متحدہ کی تنظیم ہوئی ہے یا تہطیر ہوئی، جس طرح تنظیم چلائی جا رہی تھی، 2018ء تک تنظیم پہنچ ہی نہ پاتی اور ایوان ٹیسوریوں سے بھرا ہوتا، یہ فیصلہ بڑی مشکل سے کیا گیا ہے، آج موقع دیا جاتا تو پارٹی پر شب خون مار دیا جاتا، آج کارکنوں کا غیرآئینی اجلاس پارٹی کو تقسیم کر دے گا، فاروق ستار سے کہا تھا کہ اگر اجلاس ہوا تو ہمارے پاس رابطہ کمیٹی کی ٹو تھرڈ اکثریت ہے، ابھی رابطہ کمیٹی کی میٹنگ ہو گی جس میں کنوینر کا انتخاب کیا جائے گا، آج پی آئی بی میں سربراہ نہیں ہے جو تمام لوگ وہاں گئے، ہم ان سب کے منتطر ہیں۔
بہادر آباد والوں کے جواب میں پی آئی بی والے نے بھی پریس کانفرنس کر ڈالی۔ فاروق ستار بولے، ثابت ہو گیا، مسئلہ ایک فرد کا نہیں، مسئلہ ایم کیو ایم پاکستان کی سربراہی کا ہے، سازش بے نقاب ہو گئی، بلی تھیلے سے باہر آ گئی، آج مجھے نہیں ایم کیو ایم کے ایک ایک وفادار کارکن کو نکالا گیا، میں پھر بھی نہیں کہوں گا مجھے کیوں نکالا؟ کیونکہ مسئلہ کسی کو سیٹ دینے کا نہیں تھا، مسئلہ سیٹ دینے کے اختیار پر قبضہ کرنے کا تھا، آج لاپتہ ساتھیوں اور شہیدوں کی قربانیوں سے انحراف کیا گیا، لاپتہ ساتھیوں کے خون کا سودا کیا گیا، الیکشن کمیشن کو غلط خط دیا گیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ کل کہا گیا تھا کہ ہم میں سے کسی کو بھی کنوینر نہیں بننا، آج کنوینر کو ہی ہٹا دیا گیا ہے، جنرل ورکرز اجلاس میں کارکنوں کی عدالت فیصلہ دے گی، میں مفاد پرستوں کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ تھا، قبضہ مافیا کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ تھا، میرے ساتھ وہ سلوک ہوا ہے جو برادران یوسف نے ان کے ساتھ کیا تھا، برادران یوسف کا جو انجام ہوا تھا وہ تمہارے ساتھ ہو گا، اگر میں بااختیار ہوتا تو کیا مجھے نکال سکتے تھے؟
بعد ازاں فاروق ستار نے چلو چلو پی آئی بی چلو کے نعرے بھی لگائے، بولے ابھی ٹریلر ہے، پوری فلم کے ایم سی گراؤنڈ میں چلے گی، کرارا جواب کچھ دیر بعد دینگے، آج کارکنان سٹیج پر بیٹھیں گے، بہادر آباد والے کہتے ہیں میری شرائط مان لی تھیں، میری تو کوئی شرط تھی ہی نہیں، تجاویز تھیں۔
ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کو کنوینر منتخب کر لیا گیا۔ خالد مقبول صدیقی کو کنوینر منتخب کرنے کا فیصلہ رابطہ کمیٹی نے کیا۔
فاروق ستار نے جنرل ورکرز اجلاس سے خطاب میں بہادر آباد والوں پر 22 اگست کے واقعے میں ملوث ہونے کا الزام لگا دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ کامران ٹیسوری کا مسئلہ ہوتا تو شب خون نہ مارا جاتا، وقت آ گیا ہے کہ اب پارٹی کے وڈیروں کو بھی پارٹی سے نکالا جائے۔
فاروق ستار نے اپنے خطاب میں رابطہ کمیٹی کو فارغ کرنے کا اعلان کر دیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ نام نہاد رابطہ کمیٹی کے سینئر ڈپٹی کنوینر اور اراکین کو آرٹیکل 6 جے کے تحت فارغ کر دیا ہے۔ فاروق ستار نے بہادر آباد والوں سے کہا، آج دیکھ لو مجھ سے پنگا لینے کا نیتجہ کیا نکلا؟
اپنے خطاب کے آغاز میں فاروق ستار نے کہا میرے پاس زیادہ ایم این ایز، ایم پی ایز، یو سی چیئرمین ہیں، تم اپنی خیر مناؤ، ایم کیو ایم کے وڈیروں نے ووٹ لیا اور مزے خود کئے ہیں۔ ورکرز اسمبلی میں فاروق ستار نے قراردادیں پڑھ کر سنائیں۔
پہلی قرارداد میں کہا نام نہاد رابطہ کمیٹی کے غیرآئینی اجلاس میں مجھے کنوینر کے عہدے سے ہٹایا گیا، کیا کارکنوں کو فیصلہ منظور ہے؟ کرکنان بولے نامنظور۔
دوسری قرارداد میں انہوں نے کہا کہ 5 فروری سے لیکر 11 فروری تک نام نہاد رابطہ کمیٹی کے غیرذمہ دارانہ، غیرآئینی رویوں اور بیانات کیخلاف انہیں شوکاز نوٹس دیا، کیا آپ میرے نوٹس کو درست قرار دیتے ہیں؟ کارکنان بولے ہاں دیتے ہیں۔
فاروق ستار نے کہا کہ پی آئی بی میں 2 تہائی کا چکر نہیں، یہاں 3 تہائی اکثریت ہے، ہم 2 تہائی کے پاس نہیں بلکہ عوام میں جائیں گے۔
تیسری قرارداد میں انہوں نے کہا کہ آپ فیصلہ کریں، اس وقت ایم کیو ایم کا پارٹی سربراہ اور کنوینر کون ہے؟ کارکنوں نے جواب دیا، فاروق ستار، فاروق ستار ۔ اس پر ڈاکٹر فاروق ستار بولے، ہاتھ جوڑ، جوڑ کر کہتا تھا کہ مجھے آرام سے اصلاحات اور احتساب کرنے دو، ٹانگیں نہ کھینچو، کہا تھا مجھے کنوینر رہنے دو، لیڈر نہیں بننا، آج دیکھ لو مجھ سے پنگا لینے کا نیتجہ کیا نکلا۔
چوتھی قرارداد میں فاروق ستار بولے، موجودہ ورکرز اجلاس اختیار دے تو موجودہ نام نہاد رابطہ کمیٹی کو معہ سینئر ڈپٹی کنوینروں کی فوج اور اراکین آرٹیکل سکس جے کے تحت سب کو فارغ کر دوں؟ کارکنوں کی حمایت سے ان کا بوریا بستر گول کر دوں؟ دن رات محنت میں کروں اور وہ میرے خلاف چارج شیٹ تیار کریں؟ فاروق ستار نے کارکنوں کی حمایت سے پوری رابطہ کمیٹی کو تحلیل کر دیا۔
فاروق ستار نے نئے پارٹی انتخابات کرانے کا اعلان کیا، بولے، پہلے پارٹی اور بعد میں 2018ء کا الیکشن لڑیں گے، پوری رابطہ کمیٹی کو تحلیل کر کے نئے پارٹی انتخابات کا اعلان کرتا ہوں۔ فاروق ستار نے 17 فروری کو انٹرا پارٹی الیکشن کرانے کا اعلان کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ آپ وڈیروں کے الیکشن اور میں کارکنوں کے الیکشن کی بات کرتا ہوں، کارکنوں کو 17 فروری کو انٹرا پارٹی الیکشن منظور ہے؟ کارکنوں نے پھر ہاں کہہ ڈالی۔
آخری قرارداد میں فاروق ستار بولے، کارکنوں کی عدالت مجھے تجویز دے کہ پی آئی بی کالونی میں ہونے والا اجلاس آئینی ہے یا غیرآئینی؟ جواباً کارکنوں نے فاروق ستار سپر پاور، سپر پاور کے نعرے لگائے۔ اس پر فاروق ستار بولے، ورکرز پاور نے شہیدوں کے لہو کا سودا کرنے والوں کو کک آؤٹ کیا ہے، آپ مجھے کیا فارغ کریں گے، میں نے کارکنوں کی تجویز سے فیصلہ لیا ہے۔ فاروق ستار نے نام لئے بغیر مصطفیٰ کمال پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ڈیمانڈ، ڈیمانڈ کرنے والا بھی جھرلو رابطہ کمیٹی کے ریمانڈ پر ہے، آج مجھے فارغ نہ کرتے تو خدا کی قسم پنڈال میں کارکنان اتنی بڑی تعداد میں نہ آتے۔
آخری قرارداد میں فاروق ستار بولے، گیارہ فروری تک نام نہاد رابطہ کمیٹی آئین کی خلاف ورزی کرتی رہی ہے، رابطہ کمیٹی اور ان کے اختیارات بھی ختم کر دیئے جائیں؟ کارکنوں نے پھر تائید کر دی۔