تحریر : محمد اشفاق راجا لندن کی فضائیں ایک بار پھر الطاف حسین کی مخالف سمت میں چل رہی ہیں اور ان کے خلاف گھیرا تنگ ہو رہا ہے۔ منی لانڈرنگ کیس میں ان کے خلاف خاصے مشکل مقامات آئے، لیکن وہ خوش قسمت تھے کہ اس کے برے اثرات سے تاحال بچے ہوئے ہیں، کل کلاں یہ چنگاری پھر شعلہ بن جائے تو کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کا معاملہ بھی ابھی ختم نہیں ہوا، تازہ ترین یہ ہے کہ پاکستان میں زیر حراست مرکزی ملزم محسن علی کے فنگر پرنٹس اور ڈی این اے برطانوی سکاٹ لینڈ یارڈ نے جائے وقوعہ سے حاصل ڈی این اے اور فنگر پرنٹس سے میچ کرلی ہے اور پاکستانی حکام کو بھی اس سے مطلع کیا جا چکا ہے۔
سکاٹ لینڈ یارڈ کے حکام نے اپنے پہلے دورہ پاکستان کے دوران ملزم محسن علی سے ملاقات کے موقع پر اس کے فنگر پرنٹس اور ڈی این اے کے نمونے حاصل کئے تھے۔ سکاٹ لینڈ یارڈ کو جائے وقوعہ سے ایک چھری اور دوسرے ثبوت بھی ملے تھے۔ ملزم محسن علی نے ایف آئی اے حکام کو جو بیان دیا تھا اس میں اس نے کہا تھا کہ اس نے اپنے ساتھی کامران کے ہمراہ عمران فاروق کو مارنے کیلئے حملہ ضرور کیا تھا تاہم اس نے ڈاکٹر عمران فاروق کو قابو کیا تھا چھریوں کے وار اس کے ساتھی کامران نے کئے تھے جو اب افغانستان میں ہے۔
ایف آئی اے میں اس مقدمے کے سلسلے میں جو دوسرے نام درج ہیں ان میں الطاف حسین کا نام بھی شامل ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ فنگر پرنٹس اور ڈی این اے میچ کر جانے کے بعد کیا اس کیس کا کوئی اثر الطاف حسین پر بھی پڑے گا؟ اس کا انحصار تو سکاٹ لینڈ یارڈ اور ایف آئی اے کی تحقیقات پر ہے تاہم الطاف حسین کی متنازعہ تقریر کے بعد پاکستان میں حالات نے جو رخ اختیار کرلیا ہے وہ ایم کیو ایم کیلئے زیادہ سازگار نہیں۔ ڈاکٹر فاروق ستار نے ایم کیو ایم پاکستان کو لندن کے سائے سے دور کرکے اس کیلئے ایک راستہ نکالا تھا اور اسے ایک نئی سیاسی شناخت دینے کیلئے بظاہر کوشاں بھی ہیں لیکن کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ ان کوششوں کو کب ”ڈس اون” کردیا جائے۔ چند دن کے اندر اندر یہ واضح ہوگیا کہ اعلان کے باوجود عملاً وہ لندن کے حیط اختیار سے نہیں نکل سکے اور بعد میں ایسے واقعات بھی ہوئے جن کی وضاحتوں نے معاملے کو دوبارہ مشکوک بنا دیا۔
Farooq Sattar
اب فاروق ستار کیلئے مشکل یہ ہے کہ ہرچند وہ یہ کہتے ہیں کہ وہ اپنے فیصلے خود کریں گے لیکن ایسا کر نہیں پا رہے۔ ان کے راستے میں ایم کیو ایم کا آئین بھی حائل ہے جس میں پارٹی چلانے کی حتمی اتھارٹی الطاف حسین ہی ہیں اور ان کے فیصلے سے انحراف نہیں کیا جاسکتا۔ بہتر تھا کہ وہ اگر الطاف حسین سے راستے جدا کر رہے تھے تو اپنی جماعت الگ بناتے تاکہ وہ اپنا سیاسی لائحہ عمل طے کرنے میں آزاد ہوتے، اب وہ نیم دروں نیم بروں کی حالت میں ہیں۔ پارٹی کے اندر خوف اور دہشت کی جو فضا ہے اس کا ایک افسوسناک پہلو یہ ہے کہ سابق وفاقی وزیر بابر غوری کو ”پاکستان زندہ باد” کا نعرہ لگانے پر بھی معذرت کرنا پڑ رہی ہے۔ جہاں حالت یہ ہو جائے وہاں پارٹی ہائی کمان کی دماغی حالتوں کا تصور کیا جا سکتا ہے۔
تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ الطاف حسین نے بھوک ہڑتالی کیمپ میں کی جانے والی اپنی متنازعہ تقریر کے بعد ایسی ہی تقریر نیویارک میں ایم کیو ایم کے ورکروں کے اجتماع میں بھی کی تھی جہاں انہوں نے کراچی کی طرح پاکستان مخالف نعرہ لگا دیا جس کے جواب میں اپنی طرف سے وضاحت کی غرض سے بابر غوری نے پاکستان زندہ باد کا ٹویٹ کردیا تاہم اب انہوں نے اپنا مؤقف بدلا ہے اور کہا ہے کہ انہوں نے ایسا ٹویٹ نہیں کیا تاہم اگر الطاف حسین اس کو درست سمجھتے ہیں تو وہ اس پر معذرت کرتے ہیں۔ آپ ذرا تصور فرمایئے کہ جہاں ایک سینئر رہنما اس حد تک تھر تھر کانپ رہا ہے کہ پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگانے پر بھی شرمساری اور معذرت کا اظہار کر رہا ہے وہاں معاملات کی بہتری کی امید کیسے کی جاسکتی ہے؟ بابر غوری نے نہ صرف شرمساری کا اظہار کیا بلکہ اپنا ”اخلاص” ثابت کرنے کیلئے پاکستان مخالف نعرے دوبارہ لگائے، اجتماع میں موجود اور لوگوں نے بھی پاکستان مخالف نعرے لگائے۔
MQM
ایسی صورتحال میں اس امر کا امکان کم ہے کہ فاروق ستار کو آزادانہ کوئی کردار ادا کرنے کا موقع ملے گا۔ اس وقت تو حالات کا دھارا ایم کیو ایم کے خلاف بہہ رہا ہے۔ ناجائز قبضے کرکے بنائے گئے دفتر مسمار کئے جا رہے ہیں، نائن زیرو مستقل بند ہے اور ایسی آوازیں بھی آ رہی ہیں کہ اسے بھی مسجد ضرار کی طرح مسمار کردیا جائے، ایسے میں فاروق ستار کیلئے کام کرنا کیسے آسان ہوگا؟ کیا معلوم کل کو وہ بھی بابر غوری کے نقش قدم پر چلنے پر مجبور ہو جائیں۔ چند روز قبل وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے خیال ظاہر کیا تھا کہ ایم کیو ایم کے مزید ٹکڑے ہونے کا امکان ہے۔ موجودہ حالات میں لگتا ہے کہ ایم کیو ایم کے مزید دھڑے وجود میں آسکتے ہیں۔ بابر غوری نے تو معذرت کرنے میں دیر نہیں لگائی لیکن پارٹی میں ایسے لوگ بہرحال موجود ہوں گے جو پاکستان مخالف نعروں پر نہ صرف شرمندہ ہیں بلکہ اس کا اظہار بھی کر رہے ہیں۔
اس امر کا امکان ہے کہ ایسے کارکن اپنا الگ دھڑا بنانے پر مجبور ہو جائیں گے۔اس موقع پر سوال کیا جاسکتا ہے کہ الطاف حسین فاروق ستار کے اس نئے راستے پر چلتے رہنے کو کتنا عرصہ برداشت کریں گے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جونہی وہ دباؤ سے نکلیں گے فاروق ستار کو ”گستاخی” کی سزا ضرور دیں گے۔
اب یہ فاروق ستار کا مقدر ہے کہ ان کی جان تھوڑی بہت سرزنش سے چھوٹ جائے جس طرح نائن زیرو میں بعض لیڈروں کو جوتے مارنے کے بعد معاف کردیا گیا تھا اور اگر وہ اتنے خوش قسمت نہ ہوئے تو زیادہ سزا کے مستحق بھی گردانے جاسکتے ہیں تاہم یہ تو واضح ہے کہ فاروق ستار مشکل راستے پر چل رہے ہیں جس پر قدم قدم پر خطرات ہیں اور کسی بھی بات پر ناراض ہوکر الطاف حسین کوئی بھی فیصلہ کرسکتے ہیں۔