تحریر : فیصل اظفر علوی چوبیس اپریل 2017 ء کو اختتام پذیر ہونے والے قومی کتاب میلے میں راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے نوجوان شاعرہ فرزانہ ناز سٹیج سے گرنے کے باعث انتقال کر گئیں۔ اس المناک حادثے کے باعث جڑواں شہروں سمیت ملک بھر کے ادبی حلقوں میں ایک بھونچال سا آ گیا۔”ہجرت مجھ سے لپٹ گئی ہے” کے نام سے مرحومہ کی کتاب کی تین مئی کو تقریب رونمائی بھی تھی لیکن اس سے قبل ہی وہ داعی اجل کو لبیک کہہ گئیںاور”ہجرت ا ن سے لپٹ گئی”۔ فرزانہ ناز کی اچانک موت اپنے پیچھے کئی سوالات چھوڑ گئی ہے۔ ان سوالات میں سر فہرست ایک سوال یہ ہے کہ فرزانہ کے انتقال کو حادثاتی موت کہا جائے یا ایک نا دانستہ قتل؟ اس سوال کا جواب تلاشنے کیلئے ہمیں محرکات کا عمیق نگاہی سے جائزہ لینا ہوگا۔ بحیثیت تحقیقاتی صحافی میرے لئے چندنکات انتہائی اہمیت کے حامل ہیں کہ انتہائی اہم شخصیات کی موجودگی میںسٹیج پر دھکم پیل کا ذمہ دار کون تھا؟ یہ انتظامیہ کی نااہلی تھی یا شرکاء کی غفلت؟ پاک چائنہ فرینڈ شپ سنٹر کے بارہ فٹ اونچے سٹیج پر کوئی حفاظتی بائونڈری (ریلنگ) وغیر کیوں موجود نہیں تھی؟ جبکہ سٹیج کے خطرناک ہونے کے بارے میں مختلف مواقع پر کئی بار انتظامیہ کو اس حوالے سے آگاہ بھی کیا گیا تھالیکن کسی نے اس طرف توجہ تو درکنار سننا بھی گوارا نہیں کیا۔
یہاں میں ایک سینئر صحافی دوست تزئین اختر کی زیر ادارت شائع ہونے والے روزنامے کی رپورٹ کے چند اہم نکات بھی سامنے لانا چاہوں گا کہ جب فرزانہ ناز سٹیج سے گریں، اس وقت وفاقی وزیر احسن اقبال، مشیر وزیر اعظم عرفان صدیقی اور ایم ڈی نیشنل بک فائونڈیشن انعام الحق بھی سٹیج پر موجود تھے۔ فرزانہ ناز کے گرنے کے بعد ایک گھنٹے تک پاک، چائنہ فرینڈ شپ سنٹر جیسے اہم ترین ادارے تک ایمبولینس کیوں نہیں پہنچ سکی؟مجبوراََ فرزانہ ناز کو پولیس گاڑی میں ہسپتال منتقل کرنا پڑا۔ معتبر ذرائع کے مطابق سٹیج سے گرنے اور ہسپتال تک پہنچنے کے دوران ہی فرزانہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملی تھیں لیکن اعلیٰ سطحی شخصیات کے دبائو کی وجہ سے فرزانہ کی موت کو کئی گھنٹے تک چھپایا گیا۔ وہ اعلیٰ سطحی شخصیات کون تھیں اور انہوں نے کیو ں ایسا کرنے کا حکم دیا؟ یہ صورتحال اپنی جگہ انتہائی گھمبیر ہے۔انتہائی معتبر ذرائع کے مطابق یہ اطلاعات بھی ہیں کہ فرزانہ کی اچانک موت پر ان کے شوہر کوایم ڈی نیشنل بک فائونڈیشن کی جانب سے زبان بند رکھنے کا بھی کہا گیا ہے۔
ان تمام محرکات کو مد نظر رکھا جائے تو فرزانہ کا انتقال بر وقت ایمبو لینس نہ پہنچنے اور طبی امدا د کی فراہمی نہ ہونے کے باعث ہوا۔ مختصراََ فرزانہ وفاقی وزیر احسن اقبال، مشیر وزیر اعظم عرفان صدیقی اور ایم ڈی نیشنل بک فائونڈیشن انعام الحق کی بے حسی کی بھینٹ چڑھ گئیں۔گویا یہ ایک حادثاتی موت نہیں بلکہ ایک نادانستہ قتل ہے اور اس قتل میں نام نہاد ادیب ، شعراء و لکھاری حضرات سمیت ہر وہ فرد شامل ہے جس نے بے حسی کو اپنا طرۂ امتیاز بنایا ہوا ہے۔ ایک اور بات جو سب کو رنجیدہ کر رہی ہے وہ یہ کہ فرزانہ کی موت پر کچھ نام نہاد، شاعرو لکھاری حضرات اپنی دکان چمکانے میںمصروف ہیں اور اس پر بھی ادبی سیاست کر رہے ہیں۔دوسری جانب اہل علم و ادب کی بڑی تعداد واقعے پر انتہائی پر ملال ہے۔ فرزانہ کے”قتل”کے بعدسول سوسائٹی اور ادبی تنظیموں کے جانب سے واقعے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا جا رہا ہے اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ روح کو جھنجوڑ دینے والے مذکورہ واقعے پر سول سوسائٹی ، ادبی تنظیمات و شخصیات کا احتجاج اور تحقیقات کا مطالبہ بالکل جائز ہے۔
اب معاملے کے دوسرے رخ پر آتے ہیںکہ کس طرح مختلف چیزیں مل کر حادثات و واقعات کو جنم دیتی ہیں اور تاریخ کے سیاہ اوراق میں اپنا اندراج کرواتی ہیں۔ وطن عزیز کے تمام بڑے قابل ذکر اداروں کی طرح نیشنل بک فائونڈیشن میں بھی کرپشن اور جی حضوری کا ناسور بڑی حد تک جڑیں پکڑ چکا ہے۔ نیشنل بک فائونڈیشن کے نام نہاد عظیم مشاہیر ادب کی کارستانیوں کے طفیل حقیقی لکھاری، شعرا اور دیگر اصناف ادب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا مسلسل استحصال کیا جا رہا ہے۔ان عظیم”مشاہیر ادب” میں درباریوں کا ایک مخصوص ٹولہ شامل ہے جو شہر اقتدار کی عالیشان عمارتوں میں بیٹھ کر”پالتو ادب” تخلیق کرتا ہیے۔ یہاں این بی ایف کے عظیم مشاہیر ادب کی کارستانی کی صرف ایک مثال پیش کروں گا اور وہ یہ کہ چیئرمین پی ٹی وی عطا الحق قاسمی جیسے صاحب استطاعت شخص کی کتابیں سرکاری خزانے سے نہ صرف شائع کی گئیں بلکہ سرکاری خزانے سے ہی ان کتابوں کو خرید کر قابل ذکر لائبریریوں اور مقامات پر رکھوا یا گیا۔ یقینا این بی ایف کے اسی طرح کی اور بہت سی استحصالی مثالیں بھی موجود ہیں جن پر تفصیل سے ایک الگ کالم لکھوں گاکہ کس طرح معاشرے کا آئینہ کہلانے والے ادیبوںاور لکھاریوں کے نام پر کروڑوں روپے ہڑپ کئے جا رہے ہیں۔ آخر میں فرزانہ ناز کے نام دو روز قبل لکھا جانے والا اپنا ایک شعر کہ
جذبات سے بھرا ہوا ہر لفظ بِک گیا!! سب نے ہماری موت پہ چمکایا کاروبار