ہتھکنڈوں میں سانس لیتی قوم

Hakeem Saeed

Hakeem Saeed

شہید حکیم سعید کے قاتلوں کی عدم ثبوت پر رہائی کیا انصاف کا مضحکہ اُڑانے کے مترادف نہیں کیا یہ جھوٹ ہے کہ بھتہ مانگنے والے مافیا کے بارے میں وطن عزیز کے مسیحا نے وقت کے وزیر اعظم کو آگاہ کر دیا تھا، مدیر تکبیر قلمی مجاہد غازی صلاح الدین کے قاتلوں کے ہاتھوں پر دستانے چڑھانے والے کیا لاعلم ہیں ؟ کیا شہر قائد میں ہونے والے فسطائیت کے اُن ہتھکنڈوں کو بھلایا جاسکتا ہے جہاں سیاسی مصلحت لاشوں کے تماشے کو جنم دے رہی ہے اور حکمران اک عرصہ سے چین کی بانسر ی بجا رہے ہیں۔

گرتی لاشیں ہیں اور اُن کا کاروبار کرنے والے بیو پاری ،لاشوں کی راکھ پر حکمرانوں کی بد ترین بے حسی ناچ رہی ہے ،حق کے پرستاروں سے اُن کی زندگی چھینی جارہی ہے کیا ایسا نہیں کہ قاتل وہ جنونی ہیں جو امریکی مقاصد کی آبیاری کررہے ہیں اُ ن قوتوں کی بقا کی جنگ لڑرہے ہیںجو امریکہ کی حلیف ہیں اور پاکستان میں امن کے خواب کو سبو تاژ کرنا ہی اُن کا مقصد حیات ٹھہرا جس طبقے کو زندگی کی سانسوں سے محروم کیا جا رہا ہے کیاذہنی ،جسمانی ،روحانی اور معاشی طور پر اُس کی روز موت واقع نہیں ہو رہی ؟کیا ہم اسے اُس طبقے کی موت کی بدترین شکل نہیں کہہ سکتے کہ اپنے عزیز کا علاج کرنے میں مالی طور پر ناکام ہوتا جارہا ہے ،ممتا اپنے بچے کو دودھ نہیں دے سکتی کہ اُس کے پاس اُس دودھ کیلئے رقم نہیں ہوتی ،آنکھوں میں آنسوئوں کی جھڑی لیئے شفقت پدری سے مجبور ایک باپ اپنے لخت جگر کو سکول بھیجنے کی بجائے چائلڈ لیبر کیلئے بھیجتا ہے ، ایک جسم کپڑے ، غذا اور توانائی سے محرومی کی بنا پر زندہ لاش بن رہا ہے ،روٹی ،تعلیم ،بجلی ،علاج جب قوت خرید سے باہر ہو جاتا ہے تو اس طبقہ کی زندگی کو بد ترین موت کا نام ہی دیا جا سکتا ہے۔

جس کیلئے سفر وسیلہ ظفر نہیں بلکہ ذلت ہے ،تعلیم کی نجکاری جہالت کی فتح بن گئی ہے اور پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگریوں کی منڈی حکمرانوں کیلئے لگی ہوئی ہے جس کے ذریعے وہ ڈاکٹر کا لاحقہ لگا کر ڈگری یافتہ نسل کا مذاق اُڑا رہے ہیں ،معیشت کا سائیکل چھوٹا ہو گیا ہے ،اس محروم طبقہ کی مفلوج خواہشات کی لاشوں پر بالا دست طبقے کی زندگی سمارٹ ہوتی جا رہی ہے ،خاندانی آمریت کی شکل میں جمہوریت بری طرح مسلط ہو چکی ہے۔

کیا کروڑوں کی اموات اور بربادی کی ذمہ داری اس خاندانی بالا دست طبقہ پر نہیں ڈالی جاسکتی ؟جس نے خاندانی سرمایہ دارانہ سیاست ،خاندانی معیشت ،خاندانی حاکمیت ،خاندانی جمہوریت کے فریب پر 18کروڑ لوگوں کو یرغمال بنا رکھا ہے شہر قائد میں دہشت گرد ٹولہ سے مصالحت کر لی گئی ہے تو پھر آپریشن کا ناٹک کیسا ؟اگر ذوالفقار چیمہ جیسے محب وطن فرد کا بطور آئی جی سندھ تقرر کر دیا جاتا تو عوام نصیراللہ بابر مرحوم کے آپریشن کو بھول جاتے عمران کو اُٹھنا چاہیئے کہ وہ اُن لوگوں کیلئے میدان عمل میں ہے جو مرتے ہیں تو اخبارات میں اُن کیلئے کوئی اشتہار نہیں چھپتا ،جن کی دعائے مغفرت کیلئے کوئی سیمینار نہیں ہوتا ،گولیوں کی بوچھار جن کے سینوں کا رخ کرتی ہے ،جو غربت کی بیماریوں سے مرتے ہیں زلزلوں سے جن کے کچے مکان گرتے ہیں ،طوفانوں سے جن کے جھونپڑے برباد ہوتے ہیں غربت، بیروزگاری، مہنگائی جن کو روز ڈستی ہے زندگی کے ہر شعبے میں سماجی انحطاط دن بدن بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے، عالمی سیاست کے میدان میں ہماری سفارت کاری شکستوں اور خجالتوں کا شکارسے موسوم ہے۔

Politics

Politics

یہ لمحہ فکریہ ہے کہ 67 برسوں سے ایسا کیوں ہورہا ہے ؟ایسا کب تک ہوتا رہے گا ؟اور یہ سب کچھ کب تک چلے گا ؟ یہ ہمیں سوچنا ہے اور اگر ایسا چلتا رہا تو بربریت کی اندھی اور اندھیری کھائی ہماری منزل ہو گی نسل در نسل چلنے والی خاندانی حکمرانی کو اس کی پرواہ نہیں کیونکہ ان کے گھر محفوظ ہیں،ان کی عیاشیاں برقرار ہیں،ان کے لندن، زیورک اور نیویارک میں اکائونٹ بھرے پڑے ہیں وہ بے پرواہ ہیں اس لیئے کہ پارلیمنٹ بھی ان کی ہے، سیاست بھی ان کی ہے اور افتخار چوہدری جیسے جج بھی ان کے ہیں ان کو کوئی خطرہ نہیں الیکشن کے دنوں میں ڈالروں کی ہڈی یہ اُن وڈیروں کو ڈال دیتے ہیں جو آپ کی اجتماعی طاقت کا سودا کرتے ہیں ووٹر ان کی سیاست کی بھٹی کا ایندھن ہیں۔

خوشاب میں میری آنکھوں نے دیکھا عمران کے جلسوں میں عوام کی اکثریت اپنی بے چارگی میں اپنے بے آسراارمانوں کی خاطر آئی اور دوسری طرف خاندانی سیاست کے جلسہ میں نہکوئی تعداد دیکھنے میں آئی اور نہ کوئی دل سے آیا ایک برس کی خاندانی حکمرانی نے ان بے سروساماں لوگوں کو سوائے بربادی کے کچھ نہیں دیا کب تک اس تسلط کو وہ برداشت کریں ان کی خاندانی حکمرانی جس متروک نظام کی پیداوار ہے 11مئی کو دہلیز پار کرنے والے اس کو اکھاڑ کر پھینک دیں گے۔

خوشاب کے قصبہ مٹھہ ٹوانہ کا ملک عزیزالرحمان بڑی سوچ کا مالک ایک محب وطن دانشور ہے وہ چھوٹے شہر کا بڑا آدمی ہے جو حب الوطنی پر بولتا ہے تومیری ذات پر طاری ایک تسلسل ایسا ہوتا ہے جو ٹوٹنے کا نام نہیں لیتا وہ اس دور کا سچا انسان ہے کہ فطرت اجتماعی غلطیوں کو معاف نہیں کرتی اور جب 18 کروڑ لوگوں کے یقین کی لو تھر تھرا رہی ہو تو وقت کے طماچے پے بہ پے پڑتے۔

بے حمیت زندگی رخسار سہلاتی ہے انقلابات مکافات عمل کا نتیجہ ہوتے ہیں اور وقت کا ریلا اجڑی ہوئی بستیوں میں بڑھتے ہوئے قہر کے ساتھ چلتا ہے اور فٹ پاتھوں پر سسکتی لاشیں زندگی سے خراج وصول کرتی ہیں۔

استحصال کرنے والے چہروں کو مسخ کر کے روشن کل کی تحریر لکھتی ہیں وقت ریت کی طرح ہوتا ہے ہاتھ میں آجائے تو گنوائے جانے کا احساس تک نہیں ہوتا عزیزالرحمان کی یہ سچائی دائمی ہے کہ ہم ایک ایسی کیفیت میں داخل ہو رہے ہیں جہان دو طبقات کے مابین ایک بڑا تصا دم ہونے جارہا ہے 18 کروڑ لوگوں کی زندگیاں جب سرمایہ دار حکمرانوں کے رحم و کرم پر ہوں تو ضرورتوں اور خوابوں کو بے رحمی کچل ڈالتی ہے ایک حسین و جمیل ذخائر سے مالا مال ریاست میں اتنا بھیانک پن ،اتنی کراہت ،اتنی محرومی اور اتنی غربت حساس فطرت کو ہلا کر رکھ دیتی ہے اور جب انقلاب کا ریلا آتا ہے تو گلے سڑے ڈھانچے اپنے ظالم آقائوں کی ہڈیاں تک چبا نے سے گریز نہیں کرتے۔

M.R.Malik

M.R.Malik

تحریر : ایم آر ملک