چند دن پہلے ایک ٹی وی چینل پر فیشن پر ایک ٹاک شو دیکھنے کا موقع ملا جس کو دیکھ کر پاکستان کے میڈیا، نوجوان نسل اور ساتھ ساتھ فیشن انڈسٹری کو چلانے والوں پر حیرت ہوئی۔ یہ لفظ فیشن کیا چیز ہے جس کے پیچھے ساری دنیا پاگل ہے جس میں اسلامی جمہوریہ پاکستان بھی شامل ہے۔ لفظ فیشن کے معنی مقبولیت، انداز، طور طریقہ اور دستور کے ہیں دوسرے لفظوں میں ہم کہہ سکتے ہیں جو چیز موجودہ معاشرے میں زیادہ مقبول ہووہ فیشن ہے۔ اس میںرہن سہن کا کوئی بھی انداز طور طریقہ شامل ہو سکتا ہے۔ لیکن آج کے دور میں ہم فیشن میں صرف اور صرف کپڑوں، جوتوں، زیورات وغیرہ کو شامل کرتے ہیں۔
اور اس کا مطلب اصل مطلب سے الٹ لیتے ہیں، موجودہ دور میں جو چیز ہٹ کر ہو، حیرن کن ہو، انوکھی ہو اس کو فیشن کہا جاتا ہے۔ پاکستان میں ہرروز کوئی نہ کوئی فیش شو منعقد ہو رہا ہوتا ہے یا فیشن ویک کا اہتمام کیا جاتا ہے۔اس کی کوریج پاکستانی میڈیا بھرپور طریقے سے کرتا ہے۔ اس فیشن شو یا فیشن ویک میں ہوتا کیا ہے؟ معروف فیشن ڈیزائنرز اس شو میں حصہ لیتے ہیں اور اپنے اپنے منفرد کپڑوں وغیرہ کے ڈیزائن پیش کرتے ہیں، یہ کپڑے وغیرہ نوجوان لڑکے لڑکیاں زیب تن کرتے ہیں اور بلی کی چال میں لوگوں کے سامنے آتے ہیں۔ اس سارے ڈرامے کو فیشن شو کہا جاتا ہے۔ جب کہ پاکستان کے فیشن ڈیزائنرز اس کو کاروبار کا نام دیتے ہیں۔
لیکن میں اس سارے ڈرامے کو فحاشی اور بے حیائی کا نام دیتا ہوں۔ اس ڈرامے نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کو اپنی لپیٹ میں اس طرح لے لیا ہے کہ ہم اپنے رسم ورواج، ثقافت اور اسلامی اقدار کو بھول گئے ہیں اور ان ڈراموں نے نوجوان نسل کے ذہنوں اور سوچ کو بھی بدل کر رکھ دیا ہے۔ اب بات کرتے ہیں کہ ان ڈراموں میں ہوتا کیا ہے یہ ڈرامے چند گھنٹوں پر مشتمل ہوتے ہیں اس ڈرامے کے ادکار خوبصورت نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ہی حصہ لے سکتی ہیں جن کا قد اور جسامت ڈرامے کے معیار پر پورا اترتا ہو۔ یہ ادکار عجیب و غریب قسم کا لباس زیب تن کرتے ہیں اصل میں یہ لباس ان لوگوں کا تیار کردہ ہوتا ہے جو اس ڈرامے کو کاروبار کا نام دیتے ہیںیا پھر ان لوگوں کی زبان میں فیشن ڈیزائنر ہوتے ہیں۔
یہ صرف نام کا ہی لباس ہوتا ہے۔ اس ڈرامے میں نوجوان لڑکیوں کو ایک عجیب و غریب چال میں چلایا جاتا ہے جس کو کیٹ واک کا نام دیا جاتا ہے۔اس چال میں لڑکیاں فحاشی اور بے حیائی کا مرتکب ہوتی ہیں، کیوں کہ ان کے پورے جسم پر نام کا ہی کپڑا ہوتا ہے۔باقی سب شیشہ ہوتا ہے۔ اس ڈرامے میں لڑکی کو ماڈل کہا جاتا ہے جو ہر روپ میںسٹیج پر آتی ہے اور لوگ ڈیزائنر کے ڈیزائن پسند کرتے ہیں۔ مجھے یہ سمجھ میں نہیں آتا کیا اس قسم کے کپڑے ایک اسلامی جمہوریہ پاکستان یا پھر کسی اور اسلامی ملک میں پہنے جاتے ہیں یا ان کا معاشرہ اس کی اجازت دیتا ہے؟ نہیں جناب اس قسم کا لباس ناہی ہمارا معاشرہ اجازت دیتا ہے۔
Pakistan
اور نا ہی ہمارا مذہب۔ پھر اس قسم کے ڈرامے پاکستان میں کیوں پیش کیے جاتے ہیں۔اس کا میرے پاس تو کوئی جواب نہیں بلکہ اتنا ضرور جانتا ہوں کہ اس ڈرامے کو پیش کرنے والے پاکستان کے میڈیا اور دوسرے لوگوں کو اتنا پیسہ دے دیتے ہیں جس سے ان کا منہ بھی بند ہو سکے اور ان کو میڈیا پر کوریج بھی مل سکے۔جب یہ ڈرامہ ٹی وی پر چلتا ہے تو نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اس کو دیکھتی ہیں اوراس فیشن کو اپنانے کی کوشش میں لاکھوں روپے خرچ کر دیتی ہیں بلکہ اب تو شادی بیاہ کے موقع پر ان ڈراموں کا ہی سہارا لیا جاتا ہے پھر فیصلہ کیا جاتا ہے کہ کون سے کپڑے بنائے جائیں۔اگر یہ عریانیت اور بے حیائی کا سلسلہ جاری رہا تو ہم ایسے سمندر میں چلے جائیں گئے جہاں سے واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہوگا۔
جب کہ ہمارے اسلام نے ہمیں ڈریس کورڈ دے دیا ہے جس کو ہمیں اپنانا ہو گا۔ اسی میں ہماری بھلائی ہے۔شروع میں میںنے ایک ٹاک شو کا ذکر کیا تھا اس ٹاک شو میں ایک معروف دینی عالم، ایک لیڈی ڈیزائنرکو بٹھایا گیا تھا اور ساتھ ہی ایک ایسی لڑکی جو کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ جس کے سکینڈل کسی سے چھپے ڈھکے نہیںاورجس کا انٹرنیٹ پر بے شمار ویڈیو کا چرچا ہے اس کو بھی بٹھایا گیا تھا۔جس کو اپنے مذہب، ثقافت اور رسم و رواج کا پتا نہیں وہ کیا بات کرے گی یہ لڑکی مفتی صاحب کی ہر بات کو ایسے لیتی جیسے اسلام مفتی صاحب نے خود بنایا ہے مفتی صاحب کی ہر بات کا اس کے پاس ایک الٹ جواب تھا۔سوال یہ ہے کہ اس لڑکی کا ایسا ذہن، رسم ورواج، ثقافت اور سوچ کس نے بدلی یہ سب ان ڈراموں کو نتیجہ ہے۔
جس کو فیش شو کہا جاتا ہے۔ اسی ٹاک شو میں ایک لیڈی ڈیزائنر بھی تھی جس کا بیان تھا کہ یہ کپڑے وغیرہ پاکستانیوں کے لیے نہیں بلکہ غیر ملکی لوگوں کے لئے ہوتے ہیں۔ تو میرا ان سے سوال ہے کہ پھر یہ ڈرامہ پاکستان میں کیوں اگر یہ سب کچھ غیر ملکیوں کے لیے ہے تو یہ ڈرامہ بھی ان ممالک میں ہونا چاہیے۔ ٹاک شو کے میزبان نے شو کو ختم کرنے سے پہلے کوئی نتیجہ نا نکالا۔ تو ایسے ٹاک شو کرنے کا مقصد کیا ہے اور ایسے مہمانوں کو بلانے کا مقصد کیا ہے جن کو اسلام کے بارے میں علم ہی نہیں۔ تعجب ان لوگوں پر نہیں ہے بلکہ ان لوگوں پر ہے جو اس قسم کا ٹاک شو رکھ لیتے ہیں۔ آج ہمارے حکمران خاموش ہیں۔
اسلامی جماعتیںاور ان کے قائدین بھی خاموش، پارلیمنٹ انتظامیہ خاموش اور اعلیٰ عدلیہ بھی سو موٹو ایکشن لینے سے قاصر ہیں۔ پاکستانی میڈیا برائی کو برائی سمجھنے سے قاصر ہے یہ سب کیوں ہے ؟اس کا کم از کم میرے پاس تو کوئی جواب نہیں ہے۔ تعجب تو اس بات کا ہے کہ پاکستان میں کوئی بھی ایک شخص اس بے حیائی اور فیشن شو کے نام پر ہونے والے ڈرامے پر پر امن احتجاج کے نام پر سڑک پر نکلا ہو۔ اگر ہمارے حکمران، اسلامی جماعتیں، پارلیمنٹ، عدلیہ اور میڈیا اس بے حسی کا شکار رہا توپھر مغرب کی طرح ہم بھی اخلاقی پستی کی حدوںکو چھو کر رہیں گے۔ ہمارے پاس تو ویسے بھی شرم و حیا اور اخلاقی و معاشرتی ا قدار کے علاوہ اب کچھ بھی نہیں بچا۔
ہمارے یہی اقدار ہمیں مغرب سے نمایاں کرتے ہیں۔ اگر آج ہم نے اس کی حفاظت نہ کی تو ہم تباہ ہو جائیں گے۔ یہاں میں ایک نوبل پرائز جیتنے والی لڑکی جو یمن کے شہرتوکل کرمان میں رہتی ہے اس کی بات کوکوٹ کروں گاجب اس لڑکی سے پوچھا گیا کہ آپ حجاب کیوں پہنتی ہو جبکہ آپ باشعوراور اعلیٰ تعلیم یافتہ ہو لڑکی نے جواب دیا کہ آغاز کائنات میں انسان بالکل ننگا تھا اور جب اسے شعور ملا تو اس نے لباس پہننا شروع کر دیا۔ میں آج جس مقام پر ہوںاور جو پہنتی ہوںوہ انسانی سوچ اور انسانی تہذیب کا اعلیٰ ترین مقام ہے۔قدامت پسندی نہیں۔اب پرانے وقتوں کی طرح انسان پھر سے کپڑے اتارنا شروع کر دے یہ قدامت پسندی ہے۔