تحریر: پروفیسر رفعت مظہر یکم جولائی دوپہر ایک بجے ڈاکٹر عظمی (کپتان صاحب کی بہن) کو گلبرگ میں پروٹوکول کی گاڑیوں نے روکا تو ایک ہنگامہ بپا ہو گیا۔ ڈاکٹر عظمیٰ نے کہا کہ وہ اپنے بیٹوں کے ساتھ ظہور الٰہی روڈ پر نماز جمعہ کے لیے جا رہی تھیں کہ پروٹوکول کی ایک گاڑی نے ان کی گاڑی کو ٹکر ماری اور دوسری گاڑی کے سپاہیوں نے ان پر بندوقیں تان لیں۔ ڈاکٹر عظمیٰ نے لاہور اور کپتان صاحب نے کراچی میں میڈیا کے سامنے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے تقریباً ایک جیسے الفاظ ہی استعمال کیے، البتہ ڈاکٹر عظمیٰ کے لہجے میں تھوڑی شائستگی تھی جبکہ خان صاحب کی وہی غیرپارلیمانی زبان۔
ڈاکٹر عظمیٰ نے کہا کہ یہ محترمہ مریم نواز کا پروٹوکول تھا جو عاصم گجر کے گھر اس کی والدہ کی تعزیت کے لیے جا رہی تھیں۔ انھوں نے فرمایا کہ مریم نواز نے انھیں دیکھا بھی تھا جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا انہوںں نے بھی مریم نواز کو دیکھا تھا تو ڈاکٹر صاحبہ کا جواب نفی میں تھا۔ پھر سوال کیا گیا کہ جب آپ نے دیکھا نہیں تو پھر آپ کو کیسے پتہ چلا؟ ڈاکٹر صاحبہ نے جواب دیا کہ عاصم گجر کے گھر والوں نے بتایا کہ مریم نواز نے آنا ہے جبکہ عاصم گجر نے دوٹوک کہا کہ ان کے گھر والوں میں سے کسی نے بھی نہیں کہا کہ مریم نواز آ رہی ہیں۔ یہ واقعہ دوپہر ایک بجے کا ہے جبکہ مریم نواز اس وقت اسلام آباد میں تھیں، وہ تین بج کر پچاس منٹ پر اسلام آباد سے جہاز میں سوار ہوئیں جس نے چار بج کر تیس منٹ پر لاہور میں لینڈ کیا۔ مریم نواز صاحبہ نے ٹویٹ کیا کہ انھیں ڈاکٹر عظمیٰ سے ہمدردی ہے، وہ اس وقت اسلام آباد میں تھیں۔ ڈاکٹر عظمیٰ کو ماہِ رمضان میں جھوٹ بولتے ہوئے شرم آنی چاہیے۔
Protocol
ایک نیوزچینل کے مطابق یہ پروٹوکول فریال تالپور کا تھا جو عاصم گجر کے گھر گئی تھیں۔ جبکہ زرداری ہائوس سے کہا گیا کہ فریال تالپور تو اسلام آباد میں تھیں۔ نیوز چینل کے مطابق پروٹوکول فریال تالپور ہی کا تھا جو عاصم گجر کے گھر تعزیت کے بعد اسلام آباد گئیں۔ حقیقت یہی ہے کہ یہ فریال تالپور کا ہی پروٹوکول تھا کیونکہ اس میں سندھ کی 12 پروٹوکول گاڑیاں شامل تھیں۔ عاصم گجر نے معاملے کو نیا موڑ دیتے ہوئے کہا کہ یہ پروٹوکول آزادکشمیر کے وزیراعظم سرداریعقوب کا تھا جو میری والدہ کی تعزیت کے لیے آئے تھے جن کے پیچھے ڈاکٹر عظمیٰ چیختی چلاتی چلی آئیں کہ ان کی گاڑی کو پروٹوکول کی گاڑی نے ٹکر ماری ہے۔
عاصم گجر نے کہا کہ انہوںنے ڈاکٹرعظمیٰ سے معذرت بھی کی اور نقصان کے ازالے کا بھی کہا۔ یہ تو بعد میں پتا چلا کہ پروٹوکول کی کسی گاڑی نے ان کی گاڑی کو ٹکر نہیں ماری اور نہ ہی گاڑی کو نقصان پہنچا۔ طلال چودھری نے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ بہن بھائی ڈرامہ ہیں اور جھوٹ بولتے ہوئے انھیں ذرا بھی شرم نہیں آتی۔ اگر گاڑی کو نقصان ہوا ہوتا تو کیا وہ میڈیا کی نظروں سے بچ جاتا؟ گلبرگ جیسی جگہ پر یہ واقعہ ہوا اور عینی شاہد کوئی بھی نہیں، نہ ہی ڈاکٹر صاحبہ ایف آئی آر کٹوانے کے لیے تیار ہیں۔ جس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ سب ”ڈرامے بازی” ہے۔ وزیراطلاعات پرویزرشید نے کہا ”عمران خاں کے لیے اتنا ہی کہوں گا، کچھ شرم ہوتی ہے، کچھ حیا ہوتی ہے، کوئی اخلاقیات ہوتی ہے، پی ٹی آئی کا عجب تماشا ہے، پہلے جھوٹ بولتے ہیں، پھر جھوٹ کی بنیاد پر ایشو بناتے ہیں، جب ان کا جھوٹ پکڑا جاتا ہے تو معافی بھی نہیں مانگتے۔”
Imran Khan
اُدھر کراچی میں کپتان صاحب نے طیش میں آ کر کہا کہ اُن کی بہن کی گاڑی کو ٹکر مارنے والے مریم نواز کے غنڈے تھے۔ انھوں نے کہا ”انھوں نے میری بہن پر اسلحہ تان لیا، نوازشریف کی عدم موجودگی میں کس نے مریم نواز کو اختیار دیا کہ وہ حکومت چلائیں اور شہزادی بن کر گھومتی پھریں۔ یہ ملک میں ایسے پھرتے ہیں جیسے باقی سب ان کے غلام ہوں۔” رات گئے جب عمران خاں کو اصل حقیقت کا علم ہوا تو صحافیوں کے سوال پر کپتان صاحب جھنجھلاتے ہوئے وہاں سے چلے گئے۔ انھیں اتنی توفیق بھی نہیں ہوئی کہ وہ اپنے بیان پر اظہارِافسوس ہی کر دیتے۔
یہ سارا واقعہ بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے ہاں سیاست کے رنگ ڈھنگ بدلتے جا رہے ہیں اور ہم انتہائی تیزی سے منفی سیاست کی دلدل میں دھنستے جا رہے ہیں۔ کسی کو اچھا لگے یا بُرا لیکن یہ عین حقیقت ہے کہ اس قسم کی غیرپارلیمانی زبان اور الزام تراشی کی سیاست کو عروج کپتان صاحب کے بیانات نے ہی دیا ہے۔ انہیں محترمہ مریم نواز پر الزام لگانے سے پہلے اپنی ”تَردامنی” بھی دیکھ لینی چاہیے تھی۔ لوگ ابھی تک محترمہ ریحام خاں کا پروٹوکول نہیں بھولے، جو تیس تیس گاڑیوں پر مشتمل ہوا کرتا تھا۔ نہ وہ عمران خاں اور ریحام خاں کا وہ جلوس بھولے ہیں جو سانحہ اے پی ایس پشاور پر تعزیت کے موقعے پر عمران خاں اپنے ساتھ لے کر گئے تھے اور پھر انہیں سانحہ اے پی ایس کے والدین کے شدید ردعمل کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا۔ ریحام خاں تو وزیراعلیٰ خیبرپختونخواہ کا سرکاری ہیلی کاپٹر ایسے استعمال کرتی تھیں جیسے کوئی رکشہ ہو۔ رہی محترمہ مریم نواز کی بات تو وہ امورِسرکار میں دخل نہیں دیتیں بلکہ پارٹی امور چلا کر اپنے باپ اور چچا کا ہاتھ بٹا رہی ہیں۔ پارٹی امور چلانا ان کا حق ہے کیونکہ وہ پارٹی کی بنیادی رکن بھی ہیں۔ سچ کہا ہے طلال چودھری نے کہ تحریک انصاف کو حمزہ شہباز اور مریم نواز فوبیا ہو گیا ہے۔
یہ سب کچھ تو رکھیے ایک طرف، لیکن کیا یہ کسی بھی صورت میں مناسب ہے کہ خواتین کے بارے میں ایسی زبان استعمال کی جائے جو کپتان صاحب نے جوشِ جذبات میں آ کر کی؟ انہوں نے کہا کہ ان کی بہن کی گاڑی کو ٹکر مارنے والے مریم نواز کے ”غنڈے” تھے۔ محترم کپتان صاحب اپنے الفاظ پر ذرا غور فرما لیں کیونکہ نوازلیگ کی رکی زبانیں اگر کھل گئیں تو پھر بہت کچھ سامنے آ جائے گا اور کئی ان کہی کہانیاں بھی طشت ازبام ہو جائیں گی۔ پھر دھرنوں کے ایام اور کپتان صاحب کے جلسے جلوسوں میں جو کچھ ہوتا ہے وہ بھی ظاہر ہو جائے گا اور اس صورت میں سیاست ختم ہو جائے گی صرف ”گند” باقی رہ جائے گا۔