فضائل رمضان اور آج کے مسلمان

Allha

Allha

حضور اکرم نے مسلمانوں کے لیے ہر باب میں رمضان کے جس قدر فضائل اور ترغیبات ارشاد فرمائی ہیں ان کا اصل شکریہ اور قدردانی تو یہ ہے کہ ہم ان پر مرمٹتے مگر ہماری کوتاہیاں اور دینی بے رغبتیاں اس قدر بڑھ گئی ہیں ان پر عمل کرنا تو دور کنار ان کی طرف توجہ بھی نہیں رہی۔ حتیٰ کہ اب لوگوں کو ان کا علم بھی بہت کم ہو گیا ہے۔ ان تمام باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے چند احادیث کا حوالہ دوں گا تاکہ اللہ کی رحمت سے اور اپنے محبوب کے کلام کی برکت سے ہم لوگوں کو اس مبارک مہینے کی کچھ قدر اور اس کی برکات کی طرف کچھ توجہ ہو جائے تاکہ ہمارے نیک اعمال کی زیادتی اور بداعمالیاں کی کمی کا ذریعہ بن سکے۔

حضور کا ارشاد ہے کہ اگر تیری وجہ سے اللہ تعالیٰ ایک شخص کو بھی ہدایت فرمادیں تو تیرے لیے سرخ اونٹوں سے(جوعمدہ مال شمار ہوتا ہے ) بہتر اور افضل ہے۔رمضان کا مہینہ مسلمانوں کے لیے اللہ کی طرف سے بڑاانعام ہے ورنہ ہم جیسے گنہگاروں کے لیے یہ ایک مہینہ رمضان رمضان چلائے جانے کے سوا کچھ نہیں ایک حدیث میں ہے کہ اگر لوگوں کو یہ معلوم ہو جائے کہ رمضان کیا چیز ہے تو میری اُمت تمنا کرے کہ سارا سال رمضان ہوجائے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سینکڑوں روایات میں مختلف انواع کے فضائل رمضان بیان فرمائیں ہیں۔ جن کا احاطہ مجھ جیسے ناکارہ کے لیے ممکن نہیں۔ لیکن میرا خیال ہے کہ کچھ تفصیل سے لکھو تو پڑھنے والے اکتا جائیں گے۔ اس زمانہ میں دینی امور میں جس قدر بے التفاقی جارہی ہے وہ مختاج بیان نہیں۔

علم و عمل میں جس قدر بے پرواہی دین کے بارے میں بڑھتی جارہی ہے وہ ہر شخص اپنی ہی حالت پر غور کر کے معلوم کر سکتا ہے۔ اس لیے چند احادیث پر اکتفا کرتا ہوں۔ ابوہریرہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا ہے کہ میری اُمت کو رمضان شریف کے بارے میں پانچ چیزیں مخصوص طور پر دی گئی ہیں جو پہلی اُمتوں کو نہیں ملی ہیں ان کے منہ کی بدبو اللہ کے نزدیک مشک سے زیادہ پسندیدہ ہے ان کے لیے دریا کی مچھلیاں تک دعا کرتی ہیںاور افطارکے وقت تک کرتی رہتی ہیں۔ جنت ان کے لیے ہر روز آراستہ کی جاتی ہے پھر حق تعالیٰ شانہ فرماتے ہیں کہ قریب ہے کہ میرے نیک بندے دنیا کی مشقتیں اپنے اوپر سے پھینک کر تیری طرف آویں۔ اسمیں سرکش شیاطین قید کردیے جاتے ہیں کہ وہ رمضان میں ان برائیوں کی طرف نہیں پہنچ سکتے جن کی طرف غیر رمضان میں پہنچ سکتے ہیں۔

Shab E Qader

Shab E Qader

رمضان کی آخری رات میں روزہ داروں کے لیے مغفرت کی جاتی ہے۔ صحابہ نے عرض کیا کہ یہ شب قدر شب مغفرت ہے فرمایا نہیں بلکہ دستور یہ ہے کہ مزدور کو کام ختم ہونے کے وقت مزدوری دی جاتی ہے۔ اس حدیث میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لیے کتنا اعزاز رکھا ہے ہم اگر پھر بھی رمضان کا فائدہ نہ اٹھائیں توہم سا بدنصیب کوئی نہیں۔ پورا سال ہم اپنی مرضی کے مطابق گزارتے ہیں کیا صرف 30 دن اپنے رب کے احکام کے مطابق نہیں گزار سکتے۔ جس رب نے ہمیں پیدا کیا پھر ہمیں یہ اعزاز بخشا کہ اشرف المخلوقات بنایا اس سے بڑھ کر مسلمان بنایا پھر کیا ہم اپنا فرض ادا نہیں کر سکتے۔

آخر کیوں کیا ہمارا ایمان کمزور ہے یا پھر ہمارے اوپر شیاطین کے اثرات اتنے گہرے ہیں کہ شیاطین کے قید ہونے پر بھی ہم اسی کی اطاعت کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں رمضان میں سرعام رمضان کے احترام کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں۔ کھانا تو ایک طرف کسی بھی برائی میں کمی نہیں کرتے۔ ویسے ہی کھانے کھاتے ہیں ، گانے سنتے ہیں اور ٹی وی پر بے حیائی کے پروگرامز دیکھتے ہیں۔ پھر کہتے ہیں ہم مسلمان ہیں۔ کیا ایسے مسلمان ہوتے ہیں؟ ہوش میں آؤ اے مسلمانوں! اللہ تعالیٰ نے تمہیں جورتبہ دیا ہے اسے جان لو اور رب کا شکر ادا کرو اپنے فرائض پر غور کرو۔ رمضان کا احترام کرو اور اپنے بچوں کو بھی احسا س دلاؤ۔اے مسلمانو! توبہ کے دروازے کھلے ہیں اور رب تعالیٰ اپنی رحمتیں بانٹ رہا ہے۔

ابھی بھی وقت ہے اپنے رب کے سامنے سجدہ ریز ہوکر بخشش طلب کرلو وہ بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے۔ ایک حدیث شریف میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ تین آدمیوں کی دعا رد نہیں ہوتی۔ ایک روزدار کی افطار کے وقت، دوسرے عادل بادشاہ کی دعا اور تیسرے مظلوم کی جسکو حق تعالیٰ بادلوں سے اوپر اٹھا لیتے ہیں اور آسمان کے دروازے اس کے لیے کھول دئے جاتے ہیں اور ارشاد ہوتا ہے کہ میں تیری ضرور مدد کرونگا گوہ کسی مصلحت سے کچھ دیر ہو جائے۔ ایک اور حدیث بیان کرتا چلوں۔ کعب بن عجرہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ منبر کے قریب جاو ہم لوگ حاضر ہو گئے۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر کے پہلے درجے پر قدم رکھا تو فرمایا آمین ، جب دوسرے پر قدم رکھا تو فرمایا آمین، جب تیسرے پر قدم رکھا تو فرمایا آمین، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ سے فارغ ہوکر نیچے اترے تو ہم نے عرض کیا کہ ہم نے آج سے پہلے منبر پر چڑھتے ایسی بات سنی جو پہلے کبھی نہیں سنی تھی۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اس وقت جبرائیل میرے سامنے تھے جب پہلے درجے پر قدم رکھا تو انہوں نے کہا ہلاک ہو جیو وہ شخص جس نے رمضان کا مبارک مہینہ پایا پھر بھی اسکی مغفرت نہیں ہوئی، میں نے کہا آمین، پھر جب دوسرے درجے پر چڑھا تو انہوں نے کہا ہلاک ہو جیو وہ شخص جس کے سامنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر مبارک ہو اور وہ درود نہ بھیجے، میں نے کہا آمین، جب تیسرے درجے پر گیا تو انہوں نے کہا ہلاک ہو وہ شخص جسکے سامنے اس کے والدین یاان میں سے کوئی ایک بڑھاپے کوپاویں اور وہ اسکو جنت میں داخل نہ کرائیں، میں نے کہا آمین حضور نے اس حدیث میں تین بدعا پر آمین فرمایا ہے اللہ تعالیٰ ان تینوں برائیوں سے بچائے آمین۔

ایک حدیث میں ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادہے کہ روزہ آدمی کے لیے ڈھال ہے جب تک اس کو پھاڑ نہ ڈالے۔ ایک روایت میں کہ روزہ حفاظت ہے اللہ تعالیٰ کے عذاب سے، دوسری روایت ہے کہ روزہ جہنم سے حفاظت ہے۔ اگر رمضان کے فضائل گننے بیٹھے تو ہمیں بہت لمبا عرصہ بھی کم ہے۔ اس لیے محدود وقت میں چند چیزیں اور فضائل پر روشنی ڈالتے ہوئے دعاگو ہوں اے میرے رب تمام مسلمانوں کو رمضان کی برکات کو سمیٹنے کا موقع عطا فرما اور رمضان شریف کی قدروقیمت سے آگاہ کردے (آمین)

Aqeel Khan

Aqeel Khan

تحریر : عقیل خان