اسلام آباد (جیوڈیسک) فاٹا ارکان کے ووٹ میں تبدیلی پر پیپلزپارٹی اور بعض فاٹا ارکان نے کڑی تنقید کرتے ہوئے اسے ہارس ٹریڈنگ قرار دیاہے ۔ نئے صدارتی آرڈر کے حامیوں اور مخالفین کا کیا موقف ہے۔ حکومت نے ہارس ٹریڈنگ روکنے کے نام پر راتوں رات صدارتی آرڈر جاری تو کردیا لیکن اس پر ایک نیا تنازع کھڑا ہو گیا۔ خود فاٹا کے ارکان دو حصوں میں تقسیم ہوگئے ہیں۔ پانچ ارکان کا ایک جبکہ 6 کا دو سرا گروپ بن گیا ہے
پہلا گروپ صدارتی آرڈر کے حق میں جبکہ دوسرا مخالف ہے۔ مخالفت کرنے والے ارکان اپنا احتجاج رکارڈ کرانے الیکشن کمیشن کے دفتر بھی گئے۔ قومی اسمبلی میں پیپلزپارٹی بھی اس آرڈر کی شدید مخالفت کرتے ہوئے اسے ہارس ٹریڈنگ قرار دے رہی ہے۔اپوزیشن لیڈر خورشیدشاہ جو اسے حکومت کی مفاد کی چیز قرار دے رہے ہیں کہتے ہیں کہ شیڈول آنے کے بعد قانون تبدیل نہیں ہوسکتا، اس لیے یہ آرڈر غیر قانونی مانا جائے گا۔ رات کو آرڈر جاری ہونے پر رکن ن لیگ برجیس طاہر نے کہا کہ 2002 سے 2014 تک کسی نے ڈکٹیٹر کے قانون میں تبدیلی نہیں کی ،حکومت نے فاٹا ارکان کے احتجاج پر یہ اقدا م اٹھایا۔
صدارتی آرڈر کی حمایت کرتے ہوئے فاٹا کے رکن اسمبلی شہاب الدین نے کہاکہ کے اس کے ذریعے نوے فی صد ہارس ٹریڈنگ روک دی گئی ۔شہاب الدین کا دعویٰ ہے کہ مسلم لیگ ن، تحریک انصاف، جماعت اسلامی صدارتی آرڈیننس کے حق میں ہی۔ ایوان صدر سے جاری نوٹیفیکیشن کے مطابق 2002 کے صدارتی حکم نامے کو واپس لے کر سینیٹ میں فاٹا انتخابات کا اصل طریقہ کار بحال کیا گیا، آر ڈر کے تحت فاٹا کےایک ایم این اے کے 4 ووٹ ڈالنے کے حق کو ختم کردیا گیا ہے۔ اب ایک ایم این اے ایک ہی ووٹ ڈال سکتا ہے۔