تحریر : مسز جمشید خاکوانی اللہ اللہ کر کے اس مسلے پر کچھ پیش رفت ہوئی ہی تھی کہ مولانا فضل الرحمن اور محمود اچکزئی صاحب درمیان میں کود پڑے انہوں نے اس بل کو ایجنڈے سے ہی نکال دیا اب اس پر اپوزیشن نے سٹینڈ لیا ہوا ہے مگر کورم ہی پورا نہیں ہو رہا بات سنجیدہ اور غیر سنجیدہ بیان بازی سے آگے نہیں بڑھ رہی اور تان پھر دھرنے پر کے ٹوٹتی ہے اس حکومت کو دھرنوں سے کوئی نقصان نہیں بلکہ ان کو دھرنوں کی آڑ میں مزید اپنے نقصان پورا کرنے کا موقع مل جاتا ہے وہ مسلسل عوام کو یہ باور کراتے ہیں کہ دھرنا نہ ہوتا تو پاکستان اب تک چاند پر پہنچ چکا ہوتا مزید ان کے کاغذی منصوبوں کی لاگت اربوں روپے بڑھ جاتی ہے ان کے اثاثے بڑھ جاتے ہیں اور قوم مزید قرضوں میں دھنس جاتی ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب تک دھرنا نہ ہو حکومت ایک قدم آگے نہیں بڑھتی ہر روز ایک نیا تماشہ قوم دیکھتی ہے اور اپنی قسمت پہ رو کے سو جاتی ہے ہم تو فاٹا سے متعلق صرف نام کی حد تک واقف ہیں نام بھی وہ جس سے دہشت گردی کے قصے منسوب ہیں جہاں پاکستان کا قانون نہیں چلتا پولیٹیکل ایجنٹ کی حکمرانی چلتی ہے جو انگریز نے 1901میں رائج کیا تھا ایف سی آر کا قانون ایک ظالمانہ قانون ہے جس میں صرف پولیٹیکل ایجنٹ کی مرضی چلتی ہے چاہے وہ جانبدار ہی کیوں نہ ہومگر پاکستان کی سپریم کورٹ بھی کچھ نہیں کر سکتی اس لیے اس کو ‘سرزمین بے آئین ” بھی کہا جاتا ہے فاٹا کے اراکین پارلیمنٹ پورے پاکستان کے لیے قانون سازی کے عمل کا حصہ ہوتے ہیں مگر فاٹا کے لیے کسی بھی قسم کی قانون سازی نہیں کر سکتے ،فاٹا میں بغیر جرم بتائے کسی کو بھی گرفتار کر کے بغیر کسی پراسیکیوشن کے بند رکھا جاتا ہے۔
Collective Punishmentکا قانون موجود ہے جس کے تحت فاٹا میں فرد واحد کے جرم کی سزا پورے گائوں کو دی جاتی ہے پورے گائوں کو گرفتار کیا جاتا ہے اگر کوئی گرفتاری نہ دے تو ان کی عورتوں اور بچوں کو گرفتار کر اس کا گھر مسمار کر دیا جاتا ہے سنا ہے 2011 میں سابق صدر آصف علی زرداری نے عورتوں اور بچوں پر کچھ نرمی کا قانون بنایا تھا لیکن اس پر عملدرامد نہ کرا سکے فاٹا میں جس گائوں سے لاش مل جائے پورے گائوں کی شامت آ جاتی ہے غرض فاٹا میں صرف وہی زندہ رہ سکتا ہے جو طاقت رکھتا ہو جو اپنی حفاظت خود کر سکتا ہو میری وال پر فاٹا سے تعلق رکھنے والے بہت سے لوگ موجود ہیں ان سے ملنے والی معلومات کے نطابق یہاں پر لاقانونیت کی وجہ سے شریف آدمی سروائیو نہیں کر سکتا یہی وجہ ہے کہ ہر گھر میں اسلحہ پایا جاتا ہے تعلیمی نظام تقریباً ختم ہے فاٹا میں اس وقت سب سے کم لیٹریسی ریٹ ہے جو کہ اکیس فیصد ہے پچھتر فیصد اسکول مکمل طور پر تباہ ہیں یا بند پڑے ہیں جو اسکول کھلے ہیں ان میں بھی پانی اور واش روم جیسی بنیادی سہولیات موجود نہیں جبکہ ٹیچرز ان سکولوں کا رخ ہی نہیں کرتے پورے فاٹا میں ایک بھی میڈیکل کالج نہیں جبکہ عام کالج بھی نہ ہونے کے برابر ہیں کیڈٹ کالج ہیں مگر عام آدمی ان کے قریب بھی نہیں پھٹک سکتا خیبر پختون خواہ اور پنجاب سے بچے وہاں آ کر پڑھتے ہیں فاٹا یونیورسٹی 2008میں منظور ہوئی لیکن نوجوانوں کے شدید احتجاج پر 2014میں اس پر کام شروع ہوا وہ بھی ابھی تک صرف بارہ کمرے بن سکے ہیں نو سال تک کروڑوں کے فنڈ آتے رہے وہ کس کی جیب میں گئے کچھ علم نہیں۔
یہی حال صحت کے نظام کا ہے پورا فاٹا گھوم لیں کہیں ہسپتال نظر آئے گا بھی تو ابتر حالت میں ایمبولینس سسٹم کا نام و نشان نہیں انفراسٹرکچر نہ ہونے کی وجہ سے اکثر مریض راستے میں دم توڑ دیتے ہیں جن میں زیادہ تعداد حاملہ عورتوں کی ہوتی ہے یا جن کو گولی لگی ہو اس کے لیے خیبر پختون خواہ جانا پڑتا ہے فاٹا میں صحت کا نظام کتنا فعال ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ فاٹا کے ہیلتھ ڈائریکٹر ڈاکٹر جواد کی ڈگریاں جعلی ہیں اور جناب کینڈا کے شہری ہیں مگر کوئی پوچھنے والا نہیں فاٹا میں بے روزگاری عروج پر ہے یہاں پر کسی سرکاری یا پرائیویٹ کمپنی یا بینک کی کوئی شاخ نہیں یہاں پر نوکریاں صرف ایف سی یا لیویز کی حد تک ہیں اس کے علاوہ سرکاری نوکری کا کوئی خاص ذریعہ نہیں یہی وجہ ہے کہ فاٹا کے نوجوان شدید فرسٹریشن کا شکار ہیں یہاں پر ڈیم ہیں لیکن وہاں کرپشن اور لا قانونیت کے بازار گرم ہیں واپڈا حکام کسی اصول و عدالت کی پرواہ کیے بغیر ایسے پراجیکٹ بناتے ہیں جو وہاں کے رہنے والوں کی زندگیوں کے لیے خطرات کا باعث ہوتے ہیں۔
ان پراجکٹس میں بھی رشوت اور سفارش نہ ہونے کی وجہ سے مقامی لوگ نوکریوں سے محروم رہتے ہیں غرض فاٹا یہاں کے مکینوں کے لیے جہنم سے کم نہیں حالانہ یہ اتنا خوبصورت علاقہ ہے جو سوئزرلینڈ کا مقابلہ کرتا ہے یہاں معدنیات کے ذخائر بھرے پڑے ہیں جن میں تانبا اور سونے جیسے قیمتی ذخائر ہیں فاٹاکے لوگوں کے مطابق یہاں پر تیل اور گیس کے ذخائر پورے عرب سے بھی زیادہ ہیں اگر ان وسائل کو بروئے کار لایا جائے تو پاکستان کی کایا پلٹ سکتی ہے اور قبائل امیر ترین ہو سکتے ہیں یہی وجہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن اور محمود خان اچکزئی اور ان جیسے دوسرے لوگ سانپ بن کر پہرا دیتے ہیں کہیں اس علاقے کی باگ ڈور ان کے ہاتھ سے نہ نکل جائے میں نے جب ان سے سوال کیا کہ کیا فاٹا کے لوگ خیبر پختون خواہ میں انضمام چاہتے ہیں ؟ تو بہت ساروں کا جواب اثبات میں تھا جبکہ ایک آدھ فاٹا کو الگ صوبہ بنانے کے حق میں تھا اتنی ساری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے درمیان زندگی گذارنے والے فاٹا کے رہائشیوں کو اگر ریفرنڈم کا حق دے دیا جائے تو ان کے حق میں بہتر ہو گا لیکن سوال یہ ہے انہیں یہ حق دے گا کون؟