تحریر: ڈاکٹر سید علی عباس شاہ غزوئہ خیبر و فتح ِمکہ، اعلان ِخلیفہ ٔراش غزوئہ خیبر کے موقع پر حضور ۖنے فرمایا، لاَ یُخْرِجَنْ مَعَناَ اِلَّارَاغِب فِ الْجِھَاد، ہمارے ساتھ صرف وہ لوگ آئیں جو طالب ِجہاد ہوں۔اصحاب ِشجرة وبیعت ِ ِرضوان کرنے والے اصحاب ِرسول کو جنگ خیبر میں حضور کی ہمرکابی کا شرف حاصل ہوا۔ان طالبان ِجہاد میں حضرت ابو ایوب انصاری بھی شامل تھے۔رمضان المبارک ٨ہجری میں رحمت دوعالمۖ،سورة فتح کی آیات ِمقدسہ تلاوت فرماتے دس ہزار قدوسیوں کے ہمراہ مکہ معظمہ داخل ہوئے اور اس زمانہ کے کفر و شرک کے مرکز پرپرچم توحید گاڑ دیا۔سرور ِکونینۖ کے دس ہزار قدوسیوں میں حضرت ابو ایوب انصاری صف ِاول کے مجاہدین میں شامل تھے۔
فتح مکہ کے بعد اہل ِطائف کے بنو ثقیف اور بنی ہوازن کے قبائل سے غزوئہ حنین کے بارہ ہزار مجاہدین ِاسلام میں بھی آپ شامل تھے۔٩ہجری میں غزوئہ تبوک اور١٠ہجری میں حَجَّةُالْوِدَاعْ کے موقع پر حضور ۖکے ہمرکاب رہے۔١٨ ذی الحجہ ١٠ہجری مطابق ٢١مارچ ٦٣٢ئ، بروز جمعرات حَجَّةُ الْوِدَاعْ سے واپسی پر نبی کریم ۖۖنے مکہ مکرمہ سے تیرہ میل کے فاصلے پر مقام جُحْفَة قیام فرمایا۔قاصد ِالٰہی جبرائیل ِامین ضرور ی حکم کے ساتھ نازل ہوئے ؛ ”یٰأََیُّھَا الْرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ أُنْزِلَ ِلَیْکَ مِنْ رَّبّکَصلیوَِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِِسَالَتَہُج وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ الْنَّاسِقلے ِنَّ اللّٰہَ لاَ یَہْدِی الْقَوْمِ الْکَافِرِیْنَ ة ا ے رسولۖ!آپ کے رب کی جانب سے جو آپ پر نازل ہوا ہے اسے پہنچا دیجئے ۔اگر آپ نے ایسانہ کیا تو فرض ِرسالت ادا نہیں کیا اور اللہ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا۔سورة مائدة ٦٧۔شدید گرمی و دھوپ میں فخر مرسلین ۖنے تین گھنٹے سے زائد خطبہ دیا اور حکم ِخدا کی شدت بیان کرتے فرمایا؛ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْ محمد و سپاس مخصوص ہے اُس معبود ِبرحق کے لیے جس کی ذات اپنی یکتائی میںانتہائی بلنداور جو بے ہَمتاہوتے ہوئے بھی ہر ایک سے بہت قریب ہے۔عزت جس کی ادائے شاہنشاہی کی ثنا خواں اور عظمت جس کے انداز جہاںپناہی کی توصیف میںرطب اللساں!ہر جگہ اس کی نظر،ہر شے سے باخبر،ساری خلقت اس کی قوت و قدرت اور دلیل و حجت کے آگے گردنیںڈالے ہوئے !رہے نام اللہ کا!وہ ہمیشہ سے بہت بڑا ہے اور سدا اس کی تعریف ہوتی رہے گی،وہی بام فلک کا خالق اور صحن ِگیتی کا آفرید گار ہے۔
پاک و پاکیزہ ہے اس کی ذات،وہ تمام فرشتوںکا پالنے والا!اور روح الامین کا بھی پروردگار ہے۔اس کی چشم کرم سب کو نوازتی ہے اور ساری مخلوق اس کے انعام و اکرام سے بہرہ مند ہوتی ہے۔ اس کی نگاہ ہر نظر کا جائزہ لیتی ہے مگر کوئی آنکھ اسے نہیںدیکھ پاتی۔ وہ فیض رساں،انتہائی بردباراور حد درجہ باوقار ہے۔اس کا دامن ِرحمت ہر چیز کواپنے سائے میںلیے ہوئے ہے اور ہر خاص وعام اس کی نعمتوںکا رہین ِاحسان ہے۔وہ نہ تو طیش میں آکرکسی کوکیفر کردار تک پہنچانے میںجلدی کرتا ہے اور نہ کسی مجرم کو قرار واقعی سزا دینے میںعجلت سے کام لیتا ہے۔ وہ سب کی نیتوں سے واقف اور چھپے ہوئے حالات سے آگاہ ہے ۔نہ کوئی راز اس سے پوشیدہ رہ سکتا ہے اور نہ کوئی خفیہ بات اس پرمشتبہ ہو سکتی ہے ۔وہ ہر امر پہ حاوی ہے،ہر شے پہ غالب ہے، کوئی چیز اس کی طاقت سے باہر نہیں،وہ ہر بات پرقادر ہے اور اس جیسی کوئی شے نہیں۔جب کچھ نہ تھااس وقت اس نے ہرچیز کی صورت گری کی۔وہ ہمیشہ سے ہے اور اپنی صفت ِعدل کے ساتھ ہمیشہ رہے گا۔اس بزرگ ودانا خدا کے سوااور کوئی معبود نہیں۔
اس کی ہستی اس سے کہیںبلند ہے کہ کسی کی چشم ظاہر اس تک پہنچ سکے۔ البتہ وہ ہر موج ِنظر کو پا لیتا ہے۔وہ نہایت باریک بیںاور بڑا واقف کار ہے۔ہاں!نہ تو کوئی آنکھوں سے دیکھ کر اس کی خوبیوں کا نقشہ کھینچ سکتا ہے اور نہ اس کے ظاہر و باطن کا حال احوال بیان کر سکتا ہے۔پاک پروردگار کو تو بس ان ہی حقائق کے ذریعے پہچانناممکن ہے جنہیںخود اس نے اپنے لیے دلیل ِ معرفت قرار دیا ہے اور میں گواہی دیتا ہوںکہ وہی سچا خدا ہے جس کی پاکیزگی کے آثار سے پوری دنیا معموراور جس کے جلوؤںکی تابش سے سارا جہاں پرنور ہے۔
Ameer al Momineen a.s
وہ کسی سے رائے مشورہ نہیںلیتابلکہ صرف اپنے منشا سے تمام احکام نافذکرتا ہے،نیز کسی امر کے تعین میںنہ اسکا کوئی شریک ِعمل ہے اور نہ اس کے بند وبست میںکسی طرح کا فرق و خلل ہے۔ کیا کہنا اس کی جدت طرازیوںکا!اس کی ہر تصویر آپ اپنی مثال ہے،کوئی تخلیق ایسی نہیںجو کسی کے تعاون ،تکلف یا منصوبہ بندی کے سہارے منصہ شہود پر آئی ہو۔بس اس نے جس چیز کو پیدا کرنا چاہاوہ پیدا ہو گئی اور جس شے کو عالم ِوجود میںلانے کا ارادہ کیاوہ ہویدا ہو گئی!چنانچہ اس کی ذات تمام کمالات کو گھیرے ہوئے ہے اور اس کے علاوہ کوئی ہستی نہیں جس کی پرستش کی جائے۔خلّاق ِعالم کی ہر صنعت کمال ِمہارت کا بہترین نمونہ ہے۔
اس کی دیْن حُسن ِکرم کی سب سے اعلیٰ مثال ہے ۔وہ ایسا داد گستر ہے جس کے بارے میںظلم و ستم گری کا خیال تک نہیںآسکتا۔وہ سب سے بڑا کریم ہے اور آخرکار تمام معاملات اسی کی بارگاہ میں پیش ہوں گے کہ ہر چیز اس کی قدرت ِقاہرہ کے آگے سرنگوںاور ہر شے اس کی ہیبت کے آگے سجدہ ریز ہے۔وہ دنیا جہاںکا مالک اور آسمانوں کا خالق ہے۔سورج اس کے حکم کے تابع،چاند اس کا اطاعت گزار اور ان میںسے ہر ایک مقررہ مدت تک اپناکام انجام دیتا رہے گا۔وہی آفرید گار ِمطلق! بڑی تیزی اور تسلسل کے ساتھ کبھی دن کے مکھڑے کو رات کے پردے میںچھپا دیتا ہے اور گاہے حجلہ ٔ شب کوروز ِروشن کا معدن بنا دیتا ہے!وہ سرکشی دکھانے والے ہر زورآزمااور اکڑنے والے ہر شیطان کو تہس نہس کر کے رکھ دیتاہے ۔اس خدائے یکتا کا نہ کوئی مقابل ہے نہ نظیر!وہ ایک ہے،بے نیاز ہے ،نہ اس سے کوئی پیدا ہوا ہے ،نہ اس نے کسی سے جنم لیا ہے اور کوئی اس کے برابر کابھی نہیں!وہ معبود ِیگانہ اور بڑے مرتبے کا پروردگار ہے۔وہ اپنے ہر ارادے کو پورا کرتا ہے اور جو چاہتا ہے وہ کر کے رہتا ہے۔ہر چیز کی حقیقت سے واقف اور تمام اشیا کی کمیّت و کیفیت سے آگاہ ہے!وہی موت کا قانون نافذ کرتا ہے اور وہی زندگی کی خلعت بھی بخشتا ہے ۔فقر و تونگری بھی اس کے اختیار میں ہے۔
اسی طرح ہنسنا اور رلانابھی اسی کے ہاتھ میںہے۔ کسی کو قریب کر لیتا ہے ، کسی کو دور پھینک دیتا ہے ۔کبھی اپنی عطا کو روک لیتا ہے اور کسی وقت ہُن برسانے لگتا ہے۔اقتدار ِاعلیٰ صرف اسی کو حاصل ہے اور حمد و ستائش اسی کی ذات کے لیے ہے۔بس وہی سرچشمہ ٔ خیر ہے اور اسی کو ہر چیز پر اختیار ہے ۔وہ بزرگ و برتر ہے،بخشنے والا ہے۔ دعائیں قبول کرتا ہے ،خوب کرم فرماتا ہے،بہت دیتا ہے،پھر نفس نفس کا حساب رکھتا ہے اور جن ہوں یا انسان،سب کو پالتا ہے۔نیز اس کے لیے کوئی کا م مشکل نہیں، نہ وہ کسی فریادی کی آہ و زاری سے ملول ہوتا ہے اور نہ کسی سوالی کا اصرار اسے کبیدہ خاطر کرتا ہے۔وہی اچھے لوگوں کا محافظ اور اپنے نیک لوگوں کو کامیابی سے ہمکنار کرنے والا ہے۔ مومنوں کا مولا ہے ،اچھا زمانہ ہویا کڑا وقت ، خوشحالی کا دور ہو یا مشکلوں کا ہنگام،بہر کیف !مخلوق کو اس کا سپاس گزار ہونا چاہئے۔ہر حالت میںوہ حمد کا سزاوار ہے۔ میں اس کی ذات پر، اس کے ملائکہ پر،اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر ایمان رکھتا ہوں۔اس کے حکم کا تابع اور اس کی رضا جوئی میں ہر لمحہ پیش پیش رہتا ہوں۔ پھر اطاعت شعاری کا خیال اور سزا کا احساس چونکہ ہمیشہ دامن تھامے رہتا ہے اس لیے دل و جان سے اس کی مشیّت کے آگے سر تسلیم خم رکھتا ہوں، کیونکہ وہ ایسا معبود ہے جس کی سرزنش سے نہ کوئی محفوظ رہ سکتا ہے اورنہ اس کی طرف سے کسی کو ظلم و تعدّی کا اندیشہ لاحق ہو سکتا ہے۔مجھے اس حقیقت کا اقرار ہے کہ میں اس کا بندہ ہوںاور اس کے پروردگار ہونے کا گواہ!ساتھ ہی اس نے وحی کے ذریعے مجھے جو حکم دیا ہے اسے بجالاتا ہوںکیونکہ اگر میںنے فرض ِرسالت ادا نہیںکیاتو اس بات کا خطرہ ہے کہ کہیںاس کے ناقابل ِمدافعت عذاب کا ہدف نہ بن جائوں۔ وہی خدا ہے اور سوائے اس کے اور کوئی معبودنہیں۔اس نے مجھے بتا دیا ہے کہ اگر میںاس فرمان کی تبلیغ نہیںکروںگاجو اس نے مجھ پر نازل فرمایا ہے تو اس کا مطلب یہ لیا جائے گا کہ گویامیں نے رسالت کا کوئی فریضہ انجام ہی نہیں دیا۔نیز اس نے مجھے مخالفوں کے شرسے محفوظ رکھنے کی بھی ضمانت دی ہے اور یقینا وہ میرے لیے کافی ہے اور وہ میراکریم رب ہے۔
ہاں!اس نے مجھ پر یہ وحی نازل فرمائی،بِسْمِ اللّٰہِ الْرَّحْمٰنِ الْرَّحِیْم، اے رسول ! تمہار ے رب کی جانب سے جو نازل ہوا ہے وہ لوگوں تک پہنچا دو اور اگر ایسا نہیںکیا تو گویا تم نے فرضِ رسالت کی ادائیگی نہیںکی اور اللہ تمہیںلوگوںسے محفوظ رکھے گا۔لوگو!میںنے فرض ِرسالت کی انجام دہی میںکبھی کوتاہی نہیںکی ا ور لو،اب میںاس آیت کے نازل ہونے کا سبب بیان کرتا ہوں۔جبرائیل علیہ السلام تین دفعہ میرے پاس آئے ،خدا کا سلام پہنچایا۔بیشک اس کی ذات امن و عافیت کا سرچشمہ ہے ۔اس کے بعد امین ِوحی نے مجھ سے کہاکہ میںاس مجمع میں کھڑے ہو کرہرسیاہ وسفیدکو یہ بتادوں کہ علی ابن ِابی طالب میرے بھائی ، میرے وصی،میرے خلیفہ اور میرے بعد ساری خلقت کے امام ہیں۔میری سرکا رمیںانہیںوہی مقام حاصل ہے جو ہارون کو موسیٰ کے اقتدار میںحاصل تھامگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیںہے اور اللہ اور اس کے رسول کے بعد بس وہی تمہارے ولی ہیں۔ اس سلسلہ میںخداوند ِعالم نے مجھ پر قرآن کی یہ آیت نازل فرمائی ہے،”یقینا تمہارا ولی صرف اللہ اور اس کا رسول ہے نیز وہ لوگ جنہیںایمان کی دولت نصیب ہوئی اور جو نماز قائم کرتے ہیں اور رکوع کی حالت میںزکوٰة دیتے ہیں۔”علی ابن ِابی طالب نے نماز قائم کی اور حالت ِرکوع میںزکوٰةبھی دی اور ان تمام حالات میںصرف خدا ہی ان کا مقصود ومطلوب رہا۔ حالات کے پیش ِ نظرمیںنے جبرائیل سے کہابھی تھاکہ کیا بارگاہ ِاحدیت میںیہ التجا کی جاسکتی ہے کہ مجھے اس فرض کی انجام دہی سے معاف رکھا جائے کیونکہ میں متقین کی قلت،منافقین کی کثرت،مجرموں کی فریب کاریوں،اسلام کا تمسخرکرنے والوں کی حیلہ سازیوں سے واقف تھاجن کے متعلق قرآن کا بیان ہے کہ”وہ جو کچھ زبان سے کہتے ہیںوہ ان کے دل میں نہیں ہوتا۔” اور خیال کرتے ہیںکہ یہ بالکل معمولی بات ہے حالانکہ خداکے نزدیک یہ بہت بڑی بات ہے۔
Wilayat e Ali a.s
نیز ان لوگوں نے کئی بار مجھے بڑا دکھ پہنچایا۔یہاںتک کہ میرا نام کان رکھ دیااور یہ صرف اس لیے کہ علی ابن ِابی طالب ہر وقت میرے ساتھ رہتے تھے اور ان ہی پر میری توجہ مرکوز تھی ،چنانچہ اس ضمن میںپروردگار ِعالم کا ارشاد ہواکہ؛”ان میںسے بعض ایسے بھی ہیںجو ہمارے رسول کوستاتے ہیںاور کہتے ہیںکہ یہ توکان ہی کان ہیں۔ اے رسول !تم کہہ دو کہ ہاںکان تو ہیںمگر اچھی باتیںسننے والے کان ہیںکیونکہ خدا کی ذات پر ایمان رکھتے ہیںاور مومنین کی باتوں پر بھروسہ کرتے ہیں۔”میںان سب کے نام بتا سکتا ہوں،انہیںدکھا سکتا ہوں،ان کی نشاندہی کر سکتا ہوں،لیکن میںنے ان کے معاملہ میںعفو وکرم سے کام لیا ہے۔میںجانتا ہوںکہ جب تک اللہ کے اس پیغام کو نہیںپہنچائوںگاجو مجھ پر نازل ہوا ہے اس وقت تک مجھے اپنے معبودِ برحق سے خوشنودی کاپروانہ نہیں مل سکتا۔”اے نبی !تمہارے پالنے والے کی طرف سے تمہیںجو حکم ملا ہے اسے لوگوں تک پہنچادواور اگر یہ نہیںکیا تو جانوکہ تم نے رسالت کا فریضہ ہی انجام نہ دیا۔ اللہ تمہیںلوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا۔”
لوگو!تمہیںمعلوم ہونا چاہئے کہ ولایت و امامت کے منصب پر علی کا تقرر خدا کی جانب سے ہوا ہے ۔مہاجر ہوں،انصارہوں،یا تابعین نیز شہری ہوں کہ صحرا نشین،عجم ہوںکہ عرب،آزاد ہوں یا غلام،چھوٹے ہوںیابڑے،سفید ہوںکہ سیاہ غرض کہ ہر ایک پراور ہر اس شخص پر جو توحید پرست ہو ،ان کی اطاعت فرض ہے۔علی کا ہر فیصلہ قطعی،ان کا ہر بیان درست ا ور ان کے ہر حکم کو موثّر سمجھنا چاہیے۔جو ان کی مخالفت کرے گاوہ مردود ہو گااور ان کی پیرو ی کرنے والے رحمت ِایزدی کے مستحق قرار پائیںگے۔نیز جو ان کی تصدیق کریںگے انہیںاور جو ان کی باتوں پر کان دھریںگے ان کی تابع فرمانی کریںگے خداوند ِکریم انہیںبھی بخش دے گا۔لوگو!یہ آخری اجتماع ہے جس سے اس وقت میں خطاب کر رہا ہوں۔لہٰذاتم میری گفتگو سنو اور اپنے پروردگار کے مطیع و فرمانبردار بنو۔
خداوند عزوجل ہی تمہارا حاکم اور تمہارا معبود ہے۔اس کے بعد اس کا رسول محمد جو یہاںتمہارے سامنے کھڑاتم سے مخاطب ہے ،تمہارا فرمانروا ہے اور رسول کے بعد اللہ رب العالمین کے حکم سے علی تمہارا ولی اور امام ہے ۔نیز اس کے بعد سلسلۂ امامت قیامت تک علی کی اولاد سے میری ذریت میںبرقراررہے گا۔ہاں!روزِ قیامت تک۔ جس دن کہ تمہیںاللہ اور اس کے رسول کا سامنا کرنا پڑے گا۔یاد رکھو!حلال ِخدا کے سوا کوئی چیز حلال نہیںاور جس چیز کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے بس وہی حرام ہے اور یہ حقیقت ہے کہ پروردگار ِعالم نے مجھے حلال و حرام کے جملہ قواعد و ضوابط سے آگاہ فرما دیا ہے اور میں نے تمام فیصلے کتاب ِخدا اور حلت و حرمت کے خدائی قانون کی روشنی میںکیے ہیں۔نیز مجھے جو علم و عرفان حاصل ہوامیںنے اس کی تعلیم علی ابن ِابی طالب کو ضرور دی ۔لوگو !کوئی علم ایسا نہیںجو خداوند ِعالم نے مجھے نہ دیا ہو۔پھر دانش و آگہی کا یہ سارا ذخیرہ جو اللہ نے مجھے عطا کیا تھااسے میںنے متقین کے پیشوا علی ابن ِابی طالب کے حوالے کر دیا۔بے شک وہی امام ِمبین ہیں۔
اے لوگو!ان سے ہٹ کر تم گم کرد ۂ راہ نہ بن جانا،نہ ان سے دوری اختیار کرنااور نہ ان کی ولایت کے اقرار سے پہلو بچاناکیونکہ علی ہی وہ ہستی ہیںجو حق پر عمل کر کے سچائی کی راہ دکھلائیںگے اور باطل کو ملیامیٹ کر کے لوگوں کو بے را ہ رو ی سے بچائیںگے ۔حق کے بارے میںخواہ کوئی ملامت کرے یا برا بھلا کہے اس سے ان کے فرض شناسی کے جذبے پر کوئی اثر نہیںپڑتا۔علاوہ ازیںیہ وہ پہلے شخص ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے۔انہوں نے پیغمبر خدا پراپنی جان نچھاور کر دی ۔علی ہی کی ذات ایسی ہے جس نے رسول اللہ کے ساتھ اس وقت خدا کی عبادت کی جب اس دور ِتاریخ کے جتنے بھی مرد تھے ان میںسے کوئی بھی نبی کے ساتھ فریضہ عبادت بجالانے کو تیار نہ تھا۔لوگو !تم علی کی فضیلت مانوکیونکہ انہیں خدا نے فضیلت دی ہے اور انہیںقبول کرو۔اس لیے کہ پروردگار ِعالم ہی نے ان کا تقرر فرمایا ہے۔لوگو!علی اللہ کی جانب سے امام ہیںاور جو کوئی ان کی ولایت کا منکر ہو گاتو نہ تو اس کی توبہ قبول ہو گی ا ور نہ حق اس کی مغفرت کرے گا۔ہاں!یہ طے ہے کہ پروردگار عالم نے علی کے بارے میں جو حکم دیا ہے اس کی خلاف ورزی کرنیوالوںکے ساتھ داور ِمحشر کا یہی سلوک ہو گا ۔وہ انہیںبد سے بدتر اور نہ ختم ہونے والے عذاب میںمبتلا فرمائے گا۔
پس اس معاملہ میںڈرتے رہو ۔دیکھو! کہیںان کی مخالفت مول لے کر آگ میں جلنے کا سامان نہ کر لواور وہ بھی ایسی آگ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہوںاور جو حق کا انکار کرنے والوں کے لیے دہکائی گئی ہو۔لوگو!انبیائے ماسبق کو میری ہی بشار ت دی گئی تھی۔میںتمام پیغمبروںاور جملہ فرستادگان ِخدا کا خاتم نیز زمین و آسمان کی ساری خلقت کے لیے اللہ کی حجت ہوں۔اس حقیقت میںجو ذرا سا بھی شبہ کرے گا وہ پہلے والے عہد ِجاہلیت کے کافروں جیسا کافر ہو گااورا سی طرح جو میری کسی بات کے کسی جزو میںبھی ذرہ بھر شک لائے گا اس کا شمار بھی انہیں میںہوگا۔جو میری تمام باتوں میںمشکوک ہیںاور تمام باتوں میںڈانواں ڈول رہنے والوں کی جگہ جہنم ہے۔لوگو!خدا کی بڑی دین اور بڑا احسان ہے کہ اس نے مجھے اس فضیلت سے سرفراز فرمایا ۔اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔شام ِابد تک بس وہی حمد کا سزاوار ہے اور ہر حال میں ہمیشہ سپاس کا مستحق ہے ۔اے لوگو!علی کے فضل و کمال کا اعتراف کروکیونکہ میرے بعد دنیا بھر میںسب سے زیادہ حسن و خوبی کے مالک وہی ہیں۔یاد رکھو! پاک پروردگا ر ہمارے ہی ذریعے تمہیںرزق دیتاہے اور ہماری ہی برکت سے یہ دنیا آبادہے۔ ملعون و مغضوب ہے ، لعنت کا مارا ہے اور زیر عتاب ہے وہ شخص جو میری اس بات کی تائید کرنے کے بجائے اس کی تردید کرے کیونکہ جبرائیل نے خدا کی جانب سے مجھے یہ خبر دی ہے، اس کا ارشاد ہے کہ”جو شخص علی سے دشمنی کرے گااور ان کے اقتدار و اختیار کو تسلیم نہیں کرے گا وہ میری نفرین اور میرے غضب کا سزاوار ہو گا۔لہٰذا ہر آدمی کا فرض ہے کہ وہ اپنے توشۂ آخرت پر نظر رکھے۔”لوگو!تم اللہ سے ڈرو کہ کہیں اس کے حکم کی خلاف ورزی نہ ہو جائے اور جمنے کے بعد قدم ڈگمگانے نہ لگیں۔یقینا خدا تمہارے ہر عمل سے باخبر ہے۔”
Deewan Hassan bin Sabit
لوگو!علی وسیلہ تقرب الٰہی ہیں۔جس کی مخالفت کرنے والے کے بارے میںقرآن کہتا ہے کہ یہ لوگ کہیںگے کہ”واحسرت!ہماری اس کوتاہی پر جو ہم نے جُنْبُ اللّٰہْ کے بارے میں روا رکھی۔” لوگو! قرآن میں غور و فکر سے کام لو ۔اس کی آیتوں کو سمجھو ۔محکمات پر نظر رکھو ۔متشابہات کی پیروی نہ کرو۔خدا کی قسم !اس دنیا میں اور کوئی ایسا نہیںجو ان آیتوں کی توضیح و تشریح کر سکے جو برائیوںکی روک تھام اور اچھائیوں کی اشاعت کے سلسلے میں نازل ہوئی ہیںسوائے اس ایک شخص کے جس کے بازو تھام کر میں بلند کر رہا ہوںاور جس کے بارے میںتم سے یہ کہنا چاہتا ہوںکہ،”جس کا میں مولا ہوں اس کے یہ علی بھی مولا ہیں”اور یہ علی ابن ِابی طالب میرے بھائی اور میرے جانشین ہیں۔نیزجن کی پیروی کرنے کا فرمان پہنچانے کے لیے اللہ نے مجھے مامور کیا ہے۔ لوگو!علی اور میری پاک ذریت ہی ثقل ِاصغر ہیںاور قرآن ثقل ِاکبر ہے ۔یہ ایک دوسرے کی خبر دینے والے بھی ہیں۔نیز ایک دوسرے سے مکمل موافقت بھی رکھتے ہیں۔اس کے علاوہ یہ ایک دوسرے سے اس وقت تک جدا نہیںہوں گے جب تک کہ میرے پاس حوض ِکوثر پہ نہ پہنچ جائیں۔
یہ خلق ِخدا میںخدا کے امین اور اس کی طرف سے زمین پہ مقرر حاکم ہیں۔میرا فرض پورا ہوا۔خلاق ِعالم کا پیغام پہنچا دیا۔جو سناناتھاوہ سنا چکا۔ہر بات اجاگر کر دی۔نیز یہ پاک پروردگار کا حکم تھا۔اس نے کہامیںنے بیان کر دیا۔ہاں!یاد رکھو!! میرے اس بھائی کے علاوہ اور کوئی امیرالمو منین نہیںہے اور میرے بعداس کے سوا کسی کے لیے بھی مئومنین کی امارت و سیادت آئینی حیثیت نہیں رکھتی۔ (اس کے بعد آنحضرت ۖنے اپنے دست ِاقدس سے سیدنا علی ابن ِابی طالب کابازو پکڑکر اتنا بلند کیا کہ آپ کے پائے اقدس حضور ۖ کے گھٹنوں تک پہنچ گئے تو فرمایا؛) لوگو!یہ علی میرے بھائی ہیں۔
یہی میرے جانشین،میرے علم کے محافظ،میرے بعد میری امت کے سربراہ اور کتاب ِخدا کی تفسیرکے لیے میرے نائب ہیں۔یہی قرآن کی طرف لوگوں کو لائیں گے اور مرضات ِالٰہی پہ عمل پیرا ہوںگے۔یہ دشمنان ِخدا سے نبرد آزما رہیںگے اور خدا کی اطاعت کرنے والوںسے اخلاص برتیںگے۔ہاں !علی ہی خدا کی نافرمانی کرنے سے لوگوں کو منع کریںگے۔یہ رسول کے قائم مقام،ایمان والوں کے سرداراور رشد وہدایت کرنے والے پیشوا ہیں۔اس کے علاوہ یہی وہ رہبر ہیںجو فرمان ِالٰہی کے مطابق عہد شکنوں، گمراہوں اور باغیوںکو کیفر کردار تک پہنچائیںگے۔لوگو! میں یہ سب کچھ خدا کے کہنے پرکہہ رہا ہوںاور اس کے حکم سے میرے ہاں بات نہیں بدلتی۔پروردگار!میری التجا ہے کہ تو علی کے دوستوں کو دوست رکھ اور جو اس سے دشمنی کریںان سے تو بھی دشمنی فرما۔اس کے منکروں پرتیری نفرین ہواور جو اس کے حق پر دست اندازی کریںانہیںتو اپنے غضب کا نشانہ قرار دے ۔ پالنے والے !تو نے مجھے بتلایا تھا کہ امامت تیرے ولی ،علی کا حصہ ہے ۔تیرا منشا یہ تھا کہ اس حقیقت کو میںلوگوں کے سامنے بیان کر کے اس کے تقرر کا کھلا اعلان کردوں،اس لیے کہ تو نے اپنے بندوں کے واسطے ان کے دین کو پورا کر دیا ہے اور اپنی نعمت کی بھی تکمیل فرما دی ہے ،ساتھ ہی اسلام کوان کے لیے اپنا پسندیدہ دین قرار دیدیاہے ۔چنانچہ تیرا ارشاد ہے کہ”اگر کوئی اسلام کے علاوہ کسی اور دین کو پسند کرے گا تو وہ ہر گز قابل ِقبول نہیںہو گا اور یقیناقیامت کے دن اس کا شمار گھاٹا اٹھانے والوں میںہو گا۔”پروردگار!تو گواہ رہنا کہ میںنے فرض ِرسالت سرانجام دے دیا اور لوگو!اس بات کو نہ بھولناکہ خدائے عزوجل نے تمہارے دین کو علی کی امامت سے کمال بخشا ہے ۔لہٰذا جوشخص علی کی یا میرے فرزندوں میںسے جو علی کی ذریت اور قیام قیامت تک حق کے رہنما ہوں گے پیروی نہیںکرے گا یا ان کو ان کی جگہ سے ہٹائے گاتو وہ ان لوگوں میںشمار ہوگا جن کے سارے کے سارے اعمال سلب کر لیے جائیں گے وہ ہمیشہ ہمیشہ جہنم میںرہیںگے ۔خدا ان کے عذاب میںذرا بھی تخفیف نہیںکرے گا اور نہ انہیںمہلت دی جائے گی۔
لوگو !علی تم سب سے زیادہ میری مددکرنے والے،تم سب سے بڑھ کر حقدار اور تم سب کے مقابلے میںمجھ سے زیادہ قریب اور عزیز ترین شخصیت ہیں۔علی سے میں خوش ، میرا خدا خوش ، قرآن میںکوئی ایسی آیت نہیںجس میںرضائے الٰہی کا تذکرہ ہو اور اس کے مخاطب علی نہ ہوں ۔نیز خداوند ِعالم نے اپنے کلام بلاغت نظام میںجہاں کہیںبھی ”اے ایمان والو!” کہہ کر خطاب کیا ہے وہاں اوّلین مقصود علی کی ذات گرامی ہے۔اسی طرح تعریف و توصیف کی ہر آیت کا عنوان ان ہی کا کردار ہے ۔”سورة ھَلْ اَتیٰ”میں بہشت کے مستحق ہونے کی گواہی ان ہی سے مخصوص ہے ۔ یہ سورة پورے کا پورا ان ہی کے شان میں اترا اور ان کے علاوہ اس میںکسی کی مدح سرائی نہیںکی گئی ہے۔لوگو!علی دین ِخدا کے حامی و ناصر ،رسول ِخدا کے معین و مددگار ، انتہائی متقی ،ہمہ تن طہارت اور سراپا رشد و ہدایت ہیں۔دیکھو!تمہارا نبی بہترین نبی ہے اور اس کا وصی سب سے اچھا وصی ہے۔ نیز اس کے فرزند تمام انبیا کے جانشینوں میں بہترین جانشین ہیں۔لوگو!ہر پیغمبر کی ذریت اس کے صلب سے بڑھی پھیلی لیکن میری نسل علی کے ذریعہ قائم و دائم اور پھلتی پھولتی رہے گی۔
لوگو!ابلیس کا حسد آدم کے جنت سے نکلنے کا سبب بنا ۔تم علی پر رشک نہ کرنا وگرنہ تمہارا سارا کیا دھرابرباد ہو جائے گااور تمہارے قدم لڑکھڑا جائیں گے ۔آدم کا زمین پر آنا صرف ایک ترکِ اولیٰ کا نتیجہ تھا حالانکہ وہ خدا کے برگزیدہ بندے تھے ۔اب بتائو اگرتم نے خدا کے احکام کی صریحی خلاف ورزی کی تو پھر تمہاراکیا حشر ہو گا؟حالانکہ تم تم ہی ہو،”عیاںرا چہ بیاں”تمہیں میںسے آخر وہ لوگ بھی ہیں جو خدا کے دشمن ہیں۔ہاں وہ بد نصیب ہی ہو گا جو علی سے دشمنی کرے گا ۔علی کے دوستوں کی تو یہ نشانی ہے کہ وہ پر ہیزگار ہوںگے،مومن ہوںگے،مخلص ہوں گے۔خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوںکہ سورة وَالْعَصْر،آخر تک علی ہی کے لیے نازل ہوا ۔لوگو!رب العزت گواہ ہے کہ میں نے فرض ِرسالت ادا کر دیا ہے اور رسول کا بس یہی کام ہے کہ وہ پیغام پہنچا دے۔لوگو!خدا سے جس طرح ڈرنا چاہئے اس طرح ڈرواور مرتے دم تک اسلام سے وابستہ رہو۔لوگو!اللہ اور اس کے رسول اور اس نور پر جواس کے ساتھ آیا ہے ایمان لے آئو۔مگر اس سے پہلے کہ خدا کچھ چہرے بگاڑکر پیچھے کی طرف پھیر دے۔
لوگو!معبودِ مطلق نے اپنے خا ص نور کو پہلے مجھ میں سمو یاپھر علی اس کا مرکز بنے اور اس کے بعد قائم ألْمَہْدِْ تک ان کی ذریت ِطاہرہ اس کی جلوہ گاہ قرار پائی ۔قائم ألْمَہْدِْ وہ ہیں جو خدا کا حق لیں گے اور ہمارے بھی ہر حق کو حاصل کریں گے ۔کیونکہ پاک پروردگار نے ہمیں کوتاہی کرنے والوں،دشمنی برتنے والوں،مخالفت پر اتر آنے والوں اور ان کے علاوہ خیانت کاروں،گناہگاروںنیز دنیا بھر کے جفا شعاروں پر حجت قرار دیا ہے ۔لوگو!میںتمہیںآگاہ کرتا ہوںکہ میں اللہ کا رسول ہوں اور مجھ سے پہلے بہت سے رسول گزر چکے ہیں۔لہٰذا اگر میںدنیا سے چل بسوں یا قتل کر دیا جائوں تو تم پس ِپاپلٹ جائو گے اور جو اس طرح اُلٹے پائوں پھرے گا وہ خدا کا کچھ نہیں بگاڑے گا اور پروردگارِ عالم عنقریب شکر گزاروں کو جزائے خیر دے گا۔اوردیکھو صبر و شکر کو جن کی صفت قرار دیا گیا ہے وہ علی ابن ِابی طالب ہی تو ہیںاور پھر ان کے سلسلے سے میری ذریت اس صفت سے موصوف ہے۔لوگو!تم خدا پر اپنے اسلام لانے کا احسان نہ جتائو ورنہ غضب ِ الٰہی کا ہدف بن جائو گے اور وہ تمہیںسخت عذاب میںمبتلا کر دے گا۔یقینا وہ تمہاری تاک میں ہے۔
Turuq
لوگو!میرے بعد ایسے بھی پیشوا ہوں گے”جو دوزخ کا راستہ دکھائیں گے اور قیامت کے دن بے یار و مددگا ر ہوں گے۔ ”لوگو! میں ان سے بیزاری کا اظہار کرتا ہوںاور میرا خدا بھی ان سے نفرت کرتا ہے ۔لوگو!اس قسم کے پیشوا ،ان کے ساتھی اور ان کے تمام پیروکار جہنم کے سب سے نچلے درجے میں جگہ پائیںگے اور یہی ان مغرور و سرکش لوگوں کاٹھکانا ہے اور بہت برا ٹھکانا ہے ۔ہاں!ہاں!یہ وہی ارباب ِصحیفہ ہیںجن کا مقصد یہ تھا کہ علی کے مراسم ِجانشینی کو درہم برہم کر دیا جائے اور جو صحیفہ کی کاروائی میں شریک تھے وہ خود اس نوشتے کو دیکھ لیں ۔لوگو!میں قیامت تک کے لیے امامت کے منصب کو اپنی آل میں امانت اور وراثت قرار دے رہا ہوں۔اور یقینا جس امر کی تبلیغ کے لیے مجھے مامور کیا گیا تھا اسے میں نے سب تک پہنچا دیا تاکہ قیام ِقیامت تک تمام افراد اُمت کے لیے خواہ وہ حاضر ہوں یا غیر حاضر ، موجود ہوں یا غیر موجود،پیدا ہو چکے ہوں یا پیدا نہ ہوئے ہوں یہ ایک حجت بن جائے ،حالانکہ مجھے معلوم ہے کہ خلافت کے مقدس منصب کو چھین جھپٹ کر ملوکیت میں تبدیل کر دیا جائے گا ۔اس قسم کا اقدام کرنے والوں اور ان کے ہم نوائوں پر خدا نے نفرین کی ہے اور وہ قرآن ِمجید میں کہتا ہے کہ،”ہم عنقریب تم دونوں گروہوں کی جانب متوجہ ہوں گے اور تم دونوں کو آگ کے لپکتے شعلوں اور دھوئیں کے بادلوں کی زد میں لے لیں گے ، پھر تم ایسے بے بس ہو گے کہ یہ عذاب تمہارے روکے سے نہیں رک سکے گا۔لوگو!خدائے بزرگ و بر تر تمہیں یوں چھوڑنے والا نہیں”جب تک کہ وہ کھرے کو کھوٹے سے اور اچھے کو برے سے الگ نہ کر لے۔ ”اور اس نے تمہیں غیب کا علم نہیں دیا ہے ۔لوگو!کوئی ایسی بستی نہیں جس کے باشندوں کو آخر کار پروردگار ِعالم نے اپنے انبیا کو جھٹلانے کے باعث ہلاک نہ کر دیا ہو اور اس نے اپنی کتاب میں ارشاد فرمایا ہے کہ ،”اسی عنوان سے وہ ان آبادیوں کو بھی تباہ و برباد کر ڈالتا ہے جن کے رہنے والے ستمگار ہوں ۔پھر سنو!یہ علی تمہارے امام ہیں ۔تمہارے آقا ہیں اور ان کی ذات وعدئہ خداوندی ہے اور اللہ اپنے وعدوں کو ضرور سچا ثابت کرتا ہے۔
لوگو!تم سے پہلے جو لوگ گزر ے ہیںان میں سے اکثر گمراہ ہوئے اور اس پیدا کرنے والے نے انہیں مٹا دیابالکل اسی طرح وہ بعد والوں کو بھی نیست و نابود کر دے گا۔لوگو!حق تعالیٰ نے مجھے امر و نہی کی تعلیم دی اور میں نے یہ سب کچھ علی کو بتلا دیا۔لہٰذا اب یوں سمجھو کہ علی کا ذخیرئہ دانش خدا ہی کا دیا ہوا ہے اور جب حقیقت یہ ہو تو اب تمہارا فرض ہو جاتا ہے کہ تم ان کا حکم مانوتا کہ محفوظ رہو۔ان کی اطاعت کرو تا کہ ہدایت پائو۔وہ جس کام کو منع کریںوہ نہ کروتاکہ سیدھے راستے سے لگ سکو۔بس ان ہی کے منشا کے مطابق چلو اور ان کے مسلک سے ہٹ کر پراگندہ راہ نہ بنو۔لوگو!میں وہ صراطِ مستقیم ہوںجس کی طرف گامزن ہونے کے لیے تمہیں خدا نے حکم دیا ہے اور میرے بعد علی ہیں،پھر وہ اما م ہیں جو علی کے فرزند اور میری آل ہیں۔یہ سب حق کے راہنما اور عدل ِقرآنی کے پاسبان ہیں۔(حضور ۖ نے سورة حمدکی تلاوت کے بعدارشاد فرمایا)یہ سورة میرے اور علی و اولاد ِعلی کے لیے نازل ہوئی اور انہیں سے مختص ہے ۔وہ خدا کے دوست ہیں ”جنہیںنہ کوئی خوف لاحق ہو گا اور نہ کبیدہ خاطر ہوں گے۔ ”نیز اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ خدا کے گروہ کو ہمیشہ غلبہ حاصل رہتا ہے اور سنو !علی کے دشمن انتشار پسند ہیں۔حدوں سے گزر جاتے ہیں۔شیطانوں سے ان کا رشتہ ملتا ہے جو کہ ایک دوسرے کو فریب دینے کے لیے چپکے چپکے بڑی چکنی چپڑی باتیں کرتے ہیں۔لیکن ان کے دوست وہ صاحبان ِایمان ہیں جنہیں کلام ِپاک نے یوں یا د کیا ہے کہ،”جو لوگ اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتے ہیںتم انہیںدشمنان ِخداو رسول کے ساتھ دوستی کرتے ہوئے نہیں پائو گے اگرچہ وہ ان کے باپ، بیٹے،بھائی بند یا قوم قبیلے والے والے ہی کیوں نہ ہوں۔یہی وہ لوگ ہیں جن کے دل میں خدا نے ایمان راسخ کر دیا ہے اور اپنی خاص روشنی سے ان کی تائید فرمائی ہے اور ان ہی کی توصیف میں ایک دوسرے مقام پر ارشاد ہوتا ہے کہ،”وہ جنہوں نے ایمان قبول کرنے کے بعد پھر اپنے ایمان کو ظلم سے آلودہ نہیں کیابس انہی لوگوں کے لیے امن و عافیت ہے اور انہی کو ہدایت حاصل ہوئی ہے۔”ہاں ان کے دوست وہ ہیں جو نہایت اطمینان سے جنت میں داخل ہوں گے ۔ملائکہ ان کا استقبال کریں گے ۔سلام بجالائیں گے اور خوش آمدید کہہ کر یہ مژدہ سنائیں گے کہ آئو بس اب ہمیشہ یہیں رہو ۔نیز علی اور فرزندان ِ علی کے چاہنے والے بے حساب بہشت میں پہنچیں گے اور ان کے دشمن آگ میں جلیں گے ۔ دوزخ کی ہولناک چیخیں سنیں گے ،جہنم کا جوش و خروش دیکھیں گے ۔ان کے سامنے یہ منظر ہوں گے کہ جو گروہ دوزخ میں ڈالا جائے گا وہ دوسرے گروہ پر لعنت بھیجے گا۔
Sunan Ibn e Majah
ہاں !ہاں!اور ان دشمنوں کو یہ بھی دیکھنا پڑے گاکہ ،”جیسے ہی کوئی جتھا جہنم واصل ہو گا تو عذاب کے مئوکل دریافت کریں گے کہ کیا تمہارے پاس کوئی ڈرانے والا نہیں آیا تھا ؟”اور ان کے دوست !کیا کہناان کا !”جو بے دیکھے اپنے پالنے والے سے ڈرتے ہیں ،ان ہی کے لیے مغفرت ہے اور یہی بڑے اجر کے حقدار ہیں۔ ”لوگو!غور کیا تم نے کہ جنت و جہنم میں کتنا فرق ہے اور یہ تفاوت بھی دیکھو کہ خدا نے ہمارے دشمن کی مذمت کی ہے اور اس پر نفرین بھیجی ہے اور بر خلاف اس کے وہ ہمارے دوستوں سے محبت فرماتا ہے اور ان کی تعریف کرتا ہے ۔لوگو! میں تمہیں ڈرانے کے لیے آیا ہوںاور علی تمہاری ہدایت کے لیے مقرر ہوئے ہیں۔
لوگو!میں نبی ہوں اور علی میرے وصی ہیںاور خَاتِمُ الْأئِمَّةْ ہماراقائم ألْمَہْدِْ ہے ۔سن لو !وہ تمام ادیان پر غالب آئے گا،ظالموں کو کیفر کردار تک پہنچائے گا،تمام قلعوں پر فتح کا پرچم لہرا کر ستم کا قلع قمع کرے گا ،شرک کے ہر سلسلے کو مٹائے گانیز خدا کے تمام دوستوں کے خون ِناحق کا بدلہ لے گا ۔وہ اللہ کے دین کا ناصر ہے اور معرفت ِالٰہی کے اتھا ہ سمندر سے ہمیشہ سیراب ہوتا رہے گا ۔نیز وہ دانشمندوں کے ساتھ ان کے علم و فضل کے باعث اور نادانوں کے ساتھ ان کی نادانی کے پیش ِنظر حسن ِسلوک کا مظاہرہ کرے گا۔وہ خدا کی پسند کا منتخب بندہ ہے ،وہ ہر علم کا وارث ہو گا اور علم کے ہر شعبہ پر چھایا رہے گا ۔وہ خدا کی باتیں بتائے گا اور اپنے ایمان کی شان و شوکت سے دنیا کو جگائے گا ۔ اس کی ذات فکر و عمل کے جمال و کمال کا مثالی نمونہ ہو گی ۔ امت کے کل امور اسی کے سپرد ہوں گے اور یہ وہی عظیم شخصیت ہے کہ جس کی ہر پیش رو نے بشارت دی ہے ۔ہاں!بس وہی ایک باقی رہنے والی حجت اور اس کے بعد کوئی حجت نہیںہے۔ہر حق اس کا ہم نفس اور ہر نور اس کا ہم قدم ہے ،پھر نہ کوئی اس پہ غالب آ سکتا ہے اور نہ منصور ۔ہاں!روئے زمین پر وہی خدا کا ولی اور خلق ِخدا میںاس کی جانب سے با اختیار حاکم بھی وہی ہے۔نیز ظاہر ہو یا باطن ،ہر عالم میں وہ خدا کا امین ہے۔
لوگو!میں تمہیںاچھی طرح سے بتا چکا ہوں ۔کافی سمجھا چکا ہوں۔اب میرے بعد یہ علی تمہیں سمجھائیں گے اور اپنی تقریر کے فوراََ بعد میں تمہیں ان کی بیعت کے لیے طلب کروں گا۔ پہلے تمہیں ان کی امامت کے اقرار کے سلسلہ میں میرے ہاتھ میں ہاتھ دینا ہو گااور اس کے بعد خود ان کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیعت کرنا پڑے گی۔دیکھو!میں خدا سے بیعت کر چکا ہوں اور علی نے میری بیعت کی ہے اور اب میں خدا کی جانب سے علی کے لیے تم سب سے بیعت لے رہا ہوں اور اگر اس کے بعد بھی کسی نے یہ بیعت توڑ دی تو یاد رکھو !اسے خود اپنے نفس کی شکست کے سوا اور کچھ ہاتھ نہ آئے گا ۔لوگو!یقینی طور پر حج،صفا،مروة اور عمرہ یہ سب شعائر اللہ ہیں ۔”پس جو شخص خانۂ خدا کا حج کرے یا عمرہ بجا لائے تو اس کے لیے صفااور مروة کی پہاڑیوں کے درمیان سعی میں کوئی حرج نہیں۔”لوگو!خانۂ خدا کا حج کرو۔اس لیے کہ کوئی گھرانہ ایسا نہیں جو حج بجالانے کے بعد تونگر نہ ہو گیا ہو اور اسی طرح کوئی ایسا خاندان نہیں ملے گا جس نے فریضۂ حج سے روگردانی کی ہواور وہ نکبت و افلاس کا شکار نہ بنا ہو۔لوگو!جو مومن بھی عرفات میں وقوف کرتا ہے ،خدا وند ِعالم اس وقت تک کے اس کے تمام گناہ معاف فرما دیتا ہے اور حج کی بجا آوری کے بعد اس کے اعمال نئے سرے سے شروع ہوتے ہیں۔لوگو!پروردگارِکریم کی جانب سے اس کا معاوضہ بھی انہیں مل جاتا ہے ۔ دیکھو!معبود ِمطلق اچھے کام کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔لوگو!تم پوری دیانت داری اور کمالِ علم و معرفت کے ساتھ حج بجا لایا کرو۔اور حج وعمرہ جیسے مقدس اجتماعات کو اس وقت تک چھوڑکر نہ جائوجب تک کہ توبہ اور ترک ِگناہ کا احساس نہ جاگ اٹھے۔لوگو!حکم ِخدا کے مطابق نماز برپا کرواور زکوٰةبھی ادا کرتے رہو۔نیز خیال رہے کہ اگر امتداد ِزمانہ کے باعث مذہبی معاملات میں کوتاہی ہو نے لگے یا یہ کہ تم سرے سے دین کے احکام ہی بھول جائوتو یہ علی تمہارے مولا ہیں۔ جو باتیںتم لوگوں کو معلوم نہیں ہوں گی وہ یہ پوری وضاحت کے ساتھ تمہیں بتائیں گے۔
علی کو خدا ہی نے منصب ِولایت پر مقرر فرمایا ہے ۔نیز میرے اور ان کے سلسلے سے جو پیشوا ہوں گے وہ بھی تمہارے سوالوں کا جواب دیں گے اور تم جن امور سے واقف نہیںہوان کی تفصیلات سے آگاہ کریں گے۔ دیکھو! حلال و حرام کے مسائل اتنے مختصر نہیںہیں کہ انہیں شمار کر کے تمہارے سامنے رکھ دیا جائے اور نہ حلال و حرام جیسے طویل مسائل کو ایک نشست میں بیان کرنا مناسب ہو گا۔ چنانچہ مجھے تو اس وقت بس یہ حکم ملا ہے کہ ابھی ابھی میں علی کے لیے تم سے بیعت لوں اور تمہارے ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر یہ کہوں کہ خدائے عزوجل کی جانب سے علی اور ان کی اولادکے بارے میں مجھے جو حکم ملا ہے تم اسے قبول کرنے کا وعدہ کرو۔علی کی مانند ان کی اولاد اور میری آل بھی مرکز امامت ہے اور یہ سلسلہ قیامت تک برقرار ہے گا۔ان ہی میں سے قائم ألْمَہْدِْ کی ذات ِگرامی ہے جن کا ہر فیصلہ حق کے سانچے میں ڈھلا ہوا ہو گا۔لوگو!میںنے حلال و حرام کی جو حدیں مقرر کی تھیںان میں نہ کچھ بدلا اور نہ کوئی تغیر کیا۔دیکھو!یہ بات دوسروں کو بھی بتلاتے رہنا اور تم میری شریعت کے کسی حکم کو کبھی بدلنے کی کوشش نہ کرنا۔لو!میں مکرر کہتا ہوں۔لوگو!نماز قائم کرنا،زکوٰةادا کرنا،معروف کا حکم دینا اور منکر پر عمل کرنے سے روکتے رہنا۔دیکھو!معروف کا شاہکار یا نیکی کی سب سے بڑی جدوجہد یہ ہو گی کہ اس وقت تم میں سے جو لوگ موجود ہیں وہ غیر موجود افراد تک میرا یہ پیغام پہنچادیں اور سعی کریں کہ ہر شخص اسے قبول کر لے اور اس کی مخالفت نہ کرنے پائے ،اس لیے کہ یہ خدا اوراس کے رسول کا حکم ہے ۔نیز اس حقیقت کو بھی کبھی فراموش نہ کرنا کہ جب تک کوئی امامِ معصوم نہ ہوأمَرْ بِالْمَعْرُوْف اور نَہِْ عَنِ الْمُنْکَرْ کے فریضہ پر عمل درآمد نہیں ہو سکتا۔ لوگو!قرآن تمہیںبتا رہا ہے کہ علی کے بعد ان کے فرزند امام برحق ہیںاور یہ میں تمہیں بتلا چکا ہوں کہ یہ میری ذریت ہیں۔خداوند ِعالم کا ارشاد ہے کہ، ”اس نے سلسلۂ امامت کو ابراہیم کی نسل میں باقی اور برقرار رکھا ہے”اور میں نے بھی توضیح کر دی ہے کہ جب تک تم لوگ قرآن اور اہل ِبیت سے تمسّک رکھو گے گمراہ نہیں ہو گے” لوگو! تقویٰ!تقویٰ!قیامت سے ڈرو،قیامت کا زلزلہ بڑا ہولناک ہے۔
زندگی کی آخری ہچکی کا خیال رہے،نیز حساب ِمحشر،میزان ِعمل اور اس خدائے رب العالمین کے سامنے بازپرس اور ثواب و عقاب کی کیفیت کو کبھی اپنے ذہن سے الگ نہ ہونے دینا۔ کیونکہ میدان ِحشر میں جو نیک اعمال لے کر آئے گا اسے جزا ملے گی اور جو گناہوں کے ساتھ پہنچے گا اس کے نصیبوں میں بہشت کہا ں ؟لوگو!مجمع بتا رہا ہے کہ حاضرین کی تعداد بہت زیادہ ہے اور جب لوگ اس کثرت سے ہوں تو پھر ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیعت لینا بہت دشوار ہے ۔اسی لیے حکم ِالٰہی ہوا ہے کہ علی ابن ِابی طالب اور ان کے بعدان کے صلب سے میری ذریت میں ہونے والے ائمہ حق کی بیعت کے سلسلہ میں تم سے زبانی قول و قرار لے لیا جائے۔اچھا! اب تم سب مل کر کہو کہ آپ نے علی اور علی کی اولاد کے بارے میں خدا کا جو پیغام دیا ہے ہم سب نے سن لیا،سر تسلیم خم ہے ،ہم راضی ہیں،فرمانبردار ہیں،دل و جان سے عہد وپیمان کرتے ہیں۔زبان دیتے ہیں اور ہاتھ سے بیعت کرتے ہیںنیز ہم اپنے وعدوں کو نبھانے کا جذبہ لیے ہوئے زندہ رہیں گے ۔ اسی شعور کے ساتھ مریں گے اور یہی احساس لیے ہوئے حشر کے میدان میں آئیں گے ۔امامت کے مسئلہ میں نہ ہم کوئی رد وبدل کریں گے نہ شک و شبہ کو اپنے قریب آنے دیں گے ۔اپنے قول سے پھریں گے اور نہ پیمان شکنی کے مرتکب ہوں گے۔وعدہ کرتے ہیں کہ ہم اللہ کی اطاعت کریں گے ۔ آپ کا حکم مانیں گے نیز امیرالمومنین علی ابن ِابی طالب اور ان کے رہنمافرزندوں کا فرمان بجالائیں گے جو آپ کے مقصود ومطلوب ہیں۔لوگو! میں اپنی ذریت اور علی کی اولادکا جو حسن اور حسین کے سلسلے سے ہوگی پہلے ہی تعارف کروا چکا ہوں نیز حسنین کے مقام و مرتبے اور بارگاہ ِایزدی میں ان کی جو منزلت ہے اس کی تفصیل بھی تم مجھ سے سن چکے ہو۔ ”یہ دونوں نوجوانانِ جنت کے سردار ہیں۔”اپنے والدکے بعد یہی امام ہوں گے ۔یہ میرے بیٹے ہیں اور علی سے پہلے میں ان کا باپ ہوں ۔ہاں!تو پھر کہو کہ ہم امر امامت میں خدا ،اس کے رسول ،علی ابن ِابی طالب ،حسن و حسین اور ان کے جانشینوں کے آگے سراپا تسلیم ہیںاور حق و حقیقت کے ان تمام نمائندوں کی بیعت کے سلسلے میں ہم نے آپ سے جو وعدے وعید کیے ہیں ان پر قائم ہیں۔ ہم دل سے،جان سے،زبان سے اور ہاتھوں سے بیعت کرتے ہیں۔نہ ہم اس میں کسی تبدیلی کا ارادہ رکھتے ہیں اور نہ کبھی ایسی خواہش کو دل میں جگہ دیں گے ۔ خدا کو ہم نے گواہ کیا ہے اور اس کی گواہی بہت کافی ہے اور آپ بھی گواہ رہیں ۔نیز ہم خدا کی تمام اطاعت شعار مخلوق کو خواہ وہ نظروں کے سامنے ہو یا آنکھوں سے اوجھل گواہ بناتے ہیں۔ اسی طرح اللہ کے سارے فرشتوں،اس کے پورے لشکر اور تمام بندگان ِخدا کو گواہی میں لیتے ہیںنیز اللہ ہر گواہ سے بڑا اور بہت بڑا گواہ ہے۔
Abu Ayyub Ansari
لوگو!بتائو اب تم کیا کہنا چاہتے ہو ۔یقین رکھوکہ پاک پروردگار ہر آواز کو سن لیتا ہے اور دل کی گہرائیوں میںچھپے ہوئے ہر راز کو پا لیتا ہے لہٰذا جو ہدایت کی راہ اختیار کرتا ہے وہ اپنا بھلا کرتا ہے اور جو سیدھا راہ چھوڑ کر گمراہ ہو جاتا ہے وہ اپنے آپ کو نقصان پہنچاتا ہے اور دیکھو ،”بیعت کرنے والا ،اللہ کی بیعت کرتا ہے اور اللہ کا ہاتھ ہمیشہ اونچا رہتا ہے۔ ”لوگو!اللہ کا خوف کرواور امیر المومنین علی ابن ِابی طالب ،حسن و حسین اور ان کے فرزندوں کی بیعت کرلو۔یہ ائمہ کلمہ ٔ باقیہ ہیں۔ خداوند ِعالم غد اری کرنے والوں کو ہلاک کر دیتا ہے اور وفا شعاروں کو اپنے دامن ِرحمت میںجگہ عنایت فرماتا ہے اور ”جومعاہدہ شکنی کرتا ہے اسے خود ہی اس کا بھگتان بھگتنا پڑتا ہے۔”لوگو!میں جو کہہ چکا ہوں اسے دہر ائواور علی کو امیر المومنین ہونے کی حیثیت سے سلامی دو اور کہو کہ ہم نے خدا اور اس کے رسول کا حکم سن لیا اور اطاعت کی نیز عرض کرو!پالنے والے !ہم تجھ سے مغفرت کے طلب گا ر ہیںاور تیری ہی طرف ہماری بازگشت ہو گی ۔اس کے علاوہ یہ بھی کہو کہ تمام تعریفیں اس خدا کے لیے ہیںجس نے ہمیںاس کی ہدایت دی اور اگر وہ ہماری رہبری نہ کرتا تو بھلا ہم کہا ں صحیح رستے سے لگ سکتے تھے ۔لوگو!معبودِ حقیقی نے علی ابن ابی طالب کو جو فضیلتیں دی ہیںوہ قرآن میں موجود ہیں ۔یہ خوبیاں اس حد تک ہیںکہ انہیں کسی ایک مجلس میں بیان نہیںکیا جا سکتالہٰذایہ بات یاد رکھو کہ اگر کسی شخص نے تمہارے سامنے ان کے فضائل بیان کیے تو تم ان کی تصدیق کرنا۔لوگو!جو کوئی اللہ ،اس کے رسول ،علی ابن ِابی طالب اور ان تمام اماموں کا جن کا کہ میں ذکر کر چکا ہوں اطاعت گزار ہو تو اس کا کیا کہنا،یہ اس کی بہت بڑی کامیابی ہے۔لوگو!دیکھو !جو اشخاص علی کی بیعت کرنے ،ان کے زیر فرمان ہونے اور امیر المومنین کی حیثیت سے انہیں سلامی دینے میںپیش قدمی کریں گے وہ جنت کی فضائوں میںاپنی کامیابی اور کامرانی کی بہاریں دیکھیں گے ۔لوگو!وہ بات کرو جس سے خدا کی خوشنودی میسر آئے ۔اگر تم لوگ اور زمین کی ساری آبادی بھی کافر ہو جائے تب بھی خدا کا کچھ نہیں بگڑے گا ۔پالنے والے تو سارے مومنین کو بخش دے اور جو کفر کی راہ پر چلنے والے ہوں ان پر اپنا غضب نازل فرما۔ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن۔ اسلام اور کفر میں واضح تفریق کے بعد اس مقام پہ اسلام اور نفاق میں بھی حد فاصل قائم ہو گئی۔اس خطبہ مبارکہ کی تکمیل کے بعد اللہ رب العزت نے آیت ِمتبرکہ نازل فرمائی، قلے ألْیَوْمَ یَئِسَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ دِیْنِکُمْ فَلاَ تَخْشَوْھُمْ وَاخْشَوْنِ ج ألْیَوْمََ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ اْلِسْلَٰمَ دِیْنَاًج سُوْرَةْ ألْمَائِدَة،٣:٥۔آج میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو کامل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت تمام کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو آئین ِحیات قراردیا۔اس کے بعد شاعر رسالت،حضرت حسّان بن ثابت نے یہ اشعار پیش کیے ؛
یُنَادِیْھِمْ یَوْمَ الْغَدِیْرِ نَبِیُّھُمْ بِخُمًّ وَاَسْمَعْ بِالرَّسُوْلِ مُنَادِیاً وَقَدْ جَائَ جِبْرَائِیْلُ عَنْ أمْرِ رَبِّہْ بِأنَّکَ مَعْصُوْم فَلاَ تَک وَانِیاً وَبَلِّغْھُمْ مَا أنْزَلَ اللّٰہُ رَبُّھُمْ لَیْکَ وَلاَ تَخْشَ ھُنَاکَ الْأعَادِیاً وَتَقَامَ بِہ ذْ ذَاکَ رَافِعَ کَفِّہ بِکَفِّ عَلٍِّ مَعَلْنَ الْصَّوْتَ عَالِیاً فَقَالَ فَمَنْ مَوْلاَکُمْ وَوَلِیُّکُمْ فَقَالُوْا وَلَمْ یَبْدُوْا ھُنَاکَ الْتَّّعَامِیاً لٰھَکَ مَوْلاَنَا وَأنْتَ وَلِیُّنَا وَلَنْ تَجِدْنَ فیِنّا لَکَ الْیَوْمَ عَاصِیاً فَقَالَ لَہ ُ قُمْ یَا عَلِْ فَنَّنِْ رَضِیْتُکَ مِنْ بَعْدِْ اِمَاماً وَ ھَادِیاً فَمَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَھٰذَا وَلِیُّہُ فَکُوْنُوْا لَہُ اَنْصَارَ صِدْقٍ مُوَالِیاً ھُنَاکَ دَعَا ألّٰلھُمَّ وَالَ وَلِیُّہْ وَکُنْ لِلَّذِْ عَادیٰ عَلِیّاً مَعَادِیاً فَیَا رَبِّ انْصُرْ نَاصِرِیْہ لِنَصْرِھِمْ مَام ھُدیٰ کَالْبَدْرِ یَجِلُوْا الْدِّیَاجِیاً غدیرکے دن ان کے نبی نے انہیں پکارااور خم کے میدان میں حضرت رسول ِاکرم کی اس ندا کوسنا۔جبرائیل خدا تعالیٰ کی طرف سے پیغام لائے کہ (اے رسول) آپ خدا کی حفظ وامان میں ہیںلہٰذا اس سلسلے میں تغافل نہ کیجئے ۔آپ کے رب نے جو آپ پہ نازل کیا ہے اس کو پہنچا دیجئے اور اس مقام پہ دشمنوں سے مٹ گھبرایئے ۔(علی کو) اپنے ہاتھوں سے اٹھایااس طرح سے کہ علی کے ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر بلند کیا اور بلند آواز سے اعلان کیا ۔ اس کے بعد لوگوں سے کہا :آپ کا مولااور ولی کون ہے ؟ کہنے لگے آپ کے سوا کوئی بھی نہیں ہے ۔ آپ کا پروردگار ہمارامولاہے اورآپ ہمارے ولی ہیں ۔آج کے دن آپ ہم میں سے کسی کو بھی نافرمان نہیں پائیں گے ۔پھر حضرت نے ارشاد فرمایا:یاعلی !کھڑے ہوجایئے ۔میں رضامندہوں کہ آپ میرے بعد امام اور ہادی ہوں ۔پس جس کا میں مولا ہوں اس کے یہ ولی ہیں ۔لہٰذا ان کے سچے مددگار اور حامی بنو ۔اسی مقام پہ دعا کی کہ اے اللہ ! جو علی سے محبت رکھے تو بھی اُس سے محبت رکھ اور جو علی سے عداوت رکھے تو بھی اُس سے عداوت رکھ ۔ پروردگار!علی کی مدد کرنے والوں کی مدد فرماکیونکہ جس طرح شب ِتیرہ میں چاند ہدایت کرتا ہے اسی طرح وہ اپنے چاہنے والوں کی ہدایت کرتے ہیں۔
خطبہ غدیر کو ایک سو دس اکابر اصحاب ِرسول اللہ نے روایت کیاجسے دوسری صدی ہجری میں اناسی تابعین نے نقل کیا ۔ بعدازاں تین سو ساٹھ جید علمائے مسلک ِاہل ِسنت نے اپنی اسناد اور صحت کے ساتھ اپنی تصانیف میں درج کیا اور اس موضوع پر مستقل کتابیں لکھیں۔ابوجعفرمحمد بن جریر طبری(٢٢٤تا ٣١٠ھ )نے ” اَلْوِلاَیَةْ فِیْ طُرُقِ حَدِیْثِ الْغَدِیْر ”کے عنوان سے پچاسی طریقوں سے نبی ِاکرم ۖسے نقل کیا جس کے متعلق ابن ِکثیر کہتے ہیں کہ میں نے د وضغیم جلدوں میں اس کتاب کو دیکھا جس میں طبری نے غدیر خم کی احادیث کو جمع کیا ہے ۔علاوہ ازیں متقدم علمائے اہل ِ سنت میں سے احمد بن حنبل، ابن ِحجر عسقلانی ، جزری شافعی ،ابو سعید سجستانی، امیر محمد یمنی ، امام نسائی ،ابو الاعلاء ہمدانی ، ابوالعرفان حبان ، قاضی عیاض، باقلانی ، جاحظ، ثعلبی ، ابن ِکثیر ، مناوی، ابن ِ حجر، تفتازانی اور ابن ِاثیر جیسے اکابرین نے اپنی اسناد کے ساتھ اس حدیث ِمبارکہ کو نقل کیا ہے ۔شیخ عبداللہ بحرانی نے اپنی گرانمایہ تحقیق ”عَوَالِمُ الْعُلُوْم ”ج ٣/١٥ص ٤٩٣ تا ٥٠٨ میں اس خطبہ مبارک کے جملہ راویان ومولفین کی فہرست ترتیب دی ہے۔علامہ امینی کی اٹھارہ جلدوں پر مشتمل” اَلْغَدِیْر”اس موضوع پر تاریخی دستاویز ہے۔
حضرت ابو ایوب انصاری نے اس خطبہ مبارکہ اور حدیث ِغدیر کو بغور سماعت فرمایااور اختتام پر مولائے کائنات کی بارگاہ میں بیعت کے لیے پیش ہوکرکہا، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَامَوْلَانَا، ہمارے مولا!آپ پر سلام ہو۔حضور ۖکے سامنے ابو ایوب انصاری نے آپ کے دست ِاقدس پہ بیعت فرمائی اور قائم رہے۔
سقیفہ بنی ساعدہ اور ابو ایوب انصاری ٢٨صفر١١ہجری، سرور ِکونین ۖ کے وصال کے بعدانصار کے دارالندوہ، رئیس ِخزرج، سعد بن عبادةکے گھر سقیفہ بنی ساعدہ میں انصار کا اجتماع ہوااور حضور ۖکے بعد آپ کے خلیفہ کے تقررپہ اظہار ِخیال ہوا۔انصار و مہاجرین اپنی اپنی خدمات کا ذکر کرتے پرجوش الفاظ میں خود کو خلافت کا حقدار ثابت کرتے رہے۔تمام گروہ کے افکار و خیالات میں رئیس ِبنو نجار،میزبان ِرسول ۖ سب سے جداگانہ رائے رکھتے تھے ۔آپ نے سب کے دعوے رد کر کے مولائے کائنات کے فضائل و مناقب اور محامد و محاسن بیان کیے اور آیات ِقرآنی کی روشنی میں فرامین ِرسالت بیان فرما کرلوگوں کو تلقین کی کہ وہ قاتل ِکفار ،اسد اللہ الغالب ،سیدنا علی ابن ابی طالب کی بیعت کریں۔آپ حضرت علی کا ساتھ دینے والے بارہ اصحاب ِکبار میں سے تھے۔ حضرت ابو ایوب انصاری ،نگاہ ِحیدر ِکرارمیں عظیم الشان مقام رکھتے تھے اور مولائے کائنات آپ کی تکریم فرمایا کرتے۔ آپ نے حضرت ابو ایوب انصاری کا سالانہ وظیفہ بیس ہزار درہم مقرر فرمایا اور بارگاہ ِخلافت سے چالیس غلام آپ کی خدمت پہ مامور فرمائے۔سیدنا حیدر ِکراراپنی غیر موجودگی میں مسجد نبوی میں اصحاب رسول کی نماز کی اقتداکے لیے حضرت ابو ایوب انصاری کو حکم دیتے اور آپ اتباع ِحکم میں کئی دن تک مسجد نبوی میں امامت کے فرائض سرا نجام دیتے رہے۔
امیر مدینہ،ہمرکاب شیر خدا: سلطنت ِاسلامی کا دارالحکومت کوفہ منتقل ہو جانے کے بعد خلیفہ ٔ رسول ۖ،سیدناعلی مرتضٰی شیر خدانے حضرت ابو ایوب انصاری کو مدینہ منورہ کا امیر(گورنر) مقرر فرمایا۔حضرت ابو ایوب انصاری ،عہد مرتضوی کی تمام لڑائیوں میں حضرت علی کی فوج کے ہراول لشکر کے سالار رہے۔جنگ ِجمل،صفین،نہروان اور تمام لڑائیوں میں جوش و خروش سے حصہ لیا اور منافقین کی کثیر تعداد کوسپردِسقرکیا۔ألسْتَیْعٰابُ فِْ مَعْرِفَةِ الْأصْحَابْ میں یوسف بن عبداللہ بن محمد بنعَبْدُالْبَرْالمعروف علامہ ابن عَبْدُالْبَرْ (٩٧٨تا١٠٧١ئ) لکھتے ہیں؛” قَالَ بْنَ الْکَلَبِْ وَ بْن اِسْحٰقْ، شَھَدَ اَبُوْ اَیُّوب مَعَ عَلِیْ رَضِیْ اللّٰہُ عَنْہُ ألْجَمَلَ وَ صِفّیِنْ وَ کَانَ مُقَدَّمَةُ یَوْمَ الْنِھرْوَان،کَانَ اَبُوْ اَیُّوْب اَلْأنْصَارِْ مَعَ عَلِْ رَضِْ اَللّٰہُ عَنْہُ فِیْ حُرُوْبِہ کُلِّھَا”جنگ نہروان میں آپ ،حضرت قیس بن سعد بن عبادة کے ہمراہ مولائے کائنات کے حکم پر افہام و تفہیم کے لیے خارجیوںکے پاس تشریف لے گئے اور انہیں راہ ِراست پہ لانے کی مقدور بھر کوشش فرمائی۔خوارج کے مسلسل انکار اور ضد پر قائم رہنے کے بعدمجبوراََجنگ کی تیاری کرنا پڑی۔
علمبردارِ حیدر کرّار : خَلِیْفَةُ الْرَّسُوْل سیدناعلی ابن ِابی طالب نے جنگ ِنہروان (٣٨ھ )کے روز دائیں حصہ پر حضرت حُجَرْ بن عُدَْ اور بائیں طرف حضرت شیث بن ربعی کو افسر مقرر فرمایا۔پیادہ فوج پہ ابو قتادة ، سواروں اور مُقَدِّمَةُ الْجَیْش پہ حضرت ابو ایوب انصاری افسر مقرر ہوئے ۔اس موقع پر خلیفہ ٔ رسول ۖنے اپنا مشہور علم ،”رَأیَةُالیْمَان”آپ کے سپرد کیا ۔ گھمسان کی لڑائی میں لشکر ِحیدر، کوہ ِعزم و ثبات اور پیکرشجاعت و تہو ّر بن کے ڈٹارہا۔چار ہزار خوارج منافقین عبداللہ بن وہب ألْرَّأسِْ کی زیر قیادت فی النار ہوئے اورچار سو کے قریب مجروح پائے گئے۔خونریز مخاصمت میں حضرت ابو ایوب انصاری نے دوسرے جانثاران ِحیدر کرّار کے ساتھ جس جوانمردی اور سرفروشی کا مظاہرہ فرمایا وہ آپ کی ح یات ِ مبارکہ کا روشن باب ہے۔
Dr Syed Ali Abbas Shah
تحریر: ڈاکٹر سید علی عباس شاہ ریکٹر وَالْعَصْراِسلامک ریسرچ انسٹیٹیوٹ